• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات ہوتے نظرنہیں آرہے؟

’’چیلنج‘‘ میں ایک دو ہفتہ قبل عرض کیا گیا تھا۔ نواز شریف صاحب کا بیانیہ قومی تاریخ کے چوراہے پر اپنے مقدر کی حسین تکمیل کا منتظر ہے، اس بیانئے کے حالیہ علمبردار کو نہایت عاجزی و انکساری سے اپنے لئے ایک اجتماعی معافی یا معذرت کااہتمام کرکے اس تاریخ کے چوراہے پر سرخرو ہونا چاہئے جہاں وہ ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے اس بیانئے کے علَم تھامے قافلہ سالار کے طور پر کھڑے ہیں۔ نواز شریف صاحب کی قوم سے وہ معافی یا معذرت، کم از کم تین واقعات کے حوالے سے ناگزیر ہے۔
Oچھانگا مانگا
Oسپریم کورٹ پر حملہ
Oسیف الرحمٰن کے ہاتھوں انسانی تذلیل کی سیاہ تاریخ کا ارتکاب!
نواز شریف کا بیانیہ پاکستان کی سیاست میں سوالات، شکوک و شبہات اور عوامی اظہار کی مثلث میں رہ کر پاکستانیوں کی قیادت کر رہا ہے۔ مثلاً سینیٹ کے انتخابات کے بعد سوالوں اور اندیشوں کی ایک گھٹاٹوپ چھائی ہوئی ہے۔ یہ کالی گھٹا قدرتی ہے، اس سے برسنے والی متوقع شدید بارش سیلابی شکل میں قصور واروں کو آزمائش و ابتلاکے کٹہرے میں لاسکتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات نے ملک کے سیاسی اور فکری ماحول میں بے حد تموج آمیز لہروں کو جنم دیا ہے۔ ان کی گونجتی پھنکار اور بےساختہ جارحیت کے تباہ کن زیر و بم اپنی انتہائوں پر ہیں۔ آپ، مثال کے طور پر ان لہروںکی تفصیلی صورت گریاں ملاحظہ فرمایئے!
O۔عمران خان کو ’’مرزا یار‘‘کی طرح گھومنے پھرنے کے لئے ’’کھلا میدان‘‘ دینے کی تیاریاں پورے جوبن پر ہیں۔
O۔ ’’انتخابات بروقت ہوتے نظر نہیں آرہے؟‘‘
O۔ کہا جارہا ہے:’’اب اعتبار اٹھتا جاتا ہے جانے کون کون سے کھیل عام انتخابات سے پہلے کھیلے جائیں۔ کون کون سے سانپ پٹاری سے نکالے جائیں۔ کیا معلوم ملک کی سب سے بڑی جمہوری جماعت پر الیکشن میں شمولیت پر قدغن لگ جائے۔ کیا معلوم سب سے بڑی جماعت کے انتخابی نشان کو تبدیل کردیاجائے۔ کیامعلوم حلقہ بندیوں کے نام پر کیا تماشے کئے جائیں۔ کیا معلوم نوازشریف اور مریم نوازکو جیل میں ڈال دیاجائے۔ کیامعلوم کسی عدالتی حکم کے تحت انتخابی پوسٹر پر نواز شریف کی تصویر لگانے پر ممانعت کا حکم آجائے۔ کیامعلوم کیاہوجائے؟
برادر کالم نگار کو اس ’’کیا معلوم کیا ہوجائے‘‘ کے جواب میں ایک بات معلوم اور یاد رہنی چاہئے یعنی پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ دائیں بازو کے سیاستدانوں، دانشوروں، لکھاریوں، مولوی صاحبان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف حصوں نے یہ سارے کام ’’ات خدا دا ویر‘‘ کی حد سے کہیں آگے بڑھ کر کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے آصف علی زرداری کے حوالے سے ’’اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ‘‘ کا "Preception" (تاثر) عوامی عدالت کے فیصلے میں نہیں ڈھل رہا بلکہ لوگ ان کی پالیسیوں کو سیاسی اکھاڑے میں موجود ایک طاقتور ترین مدمقابل سے محفوظ رہ کر کھیلنے والے فائٹر کا خطاب دیتے ہیں!صادق سنجرانی کے انتخاب نے پاکستانیوں کو آصف علی زرداری کے اس عظیم اقدام کی یاد دلادی جب انہوں نے پاکستان کا صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد سب سے پہلا کام بلوچستان کے عوام پر ’’مظالم‘‘ کی قومی معافی مانگ کر تاریخ کے سنہرے صفحات میں اپنے نام کا اندراج کرایا۔ خیر ہم اندیشوں سے بھری لہروں کے موضوع کی جانب لوٹتے ہیں!
O۔ اور اب 13یا14مارچ کو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا اپنی ہی چیئر سے واک آئوٹ کا اقدام۔ فوری سبب ’’وفاقی وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ اور وزارت ِ داخلہ کے دیگر عہدیداروں کی ایوان میں عدم حاضری تھی‘‘ قومی پریس میں اسپیکر کے اس اقدام پر تشویش کے ساتھ ساتھ اس رائے کا بھی اظہار کیا گیا! ’’اسپیکر کے واک آئوٹ سے حکومت کے کمزور ہونے کا تاثر بھی اجاگر ہوا ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی اتھارٹی استعمال کریں اور اس طرح کریں کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی ہی نہیں، وزرا اور سرکاری ارکان بھی جن کی کسی وجہ سے حاضری مطلوب ہو، وقت سے پہلے دروازے پر کھڑے ہوں اور اختتام تک اجلاس میں موجود رہیں جسے بھی جانا ہو اسپیکر کی اجازت سے جائے۔ ویسے اس مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ وزیراعظم خود ایوان میں موجود رہنا شروع کردیں۔ دیکھتے ہیں پیچھے رہنے کی جرأت کون کرتا ہے؟‘‘ گو تشویش کنندگان کا یہ اظہاریہ بنیادی طور پر ’’رحم کی اپیل‘‘ ہی ہے مگر یہ وقوعہ بھی شریف برادران سے متعلق ہوجاتا ہے۔ آیئے، ہم اس تلخ ترین موجود سچائی کے آگے ایک شریف آدمی کے طورپر سر جھکا دیں۔ کون سی سچائی؟ یہ کہ ’’شریف برادران‘‘ نے پاکستانی عوام کی منتخب اسمبلیوں کی آئینی بالادستی کو اپنی ذات کے آگے ہمیشہ ’’سربسجود‘‘ رکھا اور کس حد تک، اس حد تک جس پر صاحب ِ نظر ووٹر اپنے شجرہ ٔ نسب کی نفی جیسے احساس سے گزرے۔ آپ خود سوچیں، دو منتخب حکمرانوں نے اسمبلیوں میں حاضری کے مسئلے پر پورے ملک سے بیسیوں بار ہاتھ بندھوائے! 

اب آپ سینیٹ میں نواز شریف کے ’’قومی بیانئے‘‘ کا سر جھکانے کی کارروائیوں میں ہولناک پرکاریوں کا ایک خبری نقشہ ملاحظہ فرمایئے۔ ہمارے خصوصی تجزیہ نگار کے مطابق:’’چیئرمین سینیٹ کے اوائل ہفتہ انتخاب میں ایسے 9ارکان سے تحریکِ  انصاف اور پیپلزپارٹی نے یقین دہانی حاصل کی تھی کہ وہ انہیں ووٹ دیں گے‘‘..... ’’حد درجہ قابل اعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ سینیٹ سیکرٹریٹ سے سخت انتظامات کئے گئے تھے کہ رائے دہی کا عمل پورے طور پر خفیہ رہے لیکن جن ’’نشان زدہ‘‘ 9ارکان کو حزب ِ اختلاف کے امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند بنایا گیا تھا ان کے ووٹ کی نشاندہی کے لئے علامتیں طے کرلی گئی تھیں۔ مسلم لیگی حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان میں سے ایک ووٹر سے کہا گیا تھا کہ وہ امیدوار کے نام کے سامنےخانے میں انتہائی دائیں اوپر کی جانب رائے دہی کی مہر لگائیں گے۔ دوسرے سے کہا گیا تھا کہ وہ انتہائی دائیں نیچے کی جانب مہر ثبت کریں گے۔ اسی طرح دو دوسرے ووٹرز کو انتہائی بائیں اوپر اور نیچے مہر لگانے کو کہا گیا تھا۔ پانچویں ووٹر کو اپنا ووٹ آٹھ تہوں میں کرنے کے بعد ڈالنے کے لئے کہا گیا۔ اسی طرح چھٹے ووٹر کو چھ تہیں لگانے کی تائید کی گئی۔ ساتویں ووٹر سے کہا گیا کہ وہ تہہ کرنے سے قبل دائیں کونے سے ووٹ کی پرچی کو اندر کی جانب پوری موڑ دیں گے جیسے یہ غیرارادی طور پر مڑ گئی ہو۔ آٹھویں ووٹر کے لئے ہدایت تھی کہ وہ بائیں کونے سے ووٹ کو موڑے گا۔ نویں ووٹر کے لئے ووٹ کی پرچی نچلے حصے سے بائیں کونے سے موڑ نے کے لئے کہا گیا تھا۔ اس عمل کی نگرانی کے لئے پہلی صفوں میں موجود دو پارٹیوں کے تین رہنمائوں کو مامور کیا گیا تھا جو اس پورے عمل کی انجام دہی پر نگاہ رکھے رہے۔‘‘
چنانچہ ’’ن‘‘ لیگ کے ساتھ عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے کیا کیا ہو جائے، جس میں مذہبی عناصر کی جنونی حملہ آوریاں غالباً پہلے نمبر پر ہوں گی۔ قطعی طور پر کوئی خلائی امکان نہیں۔ پاکستان کی ڈے ٹو ڈے جاری سیاسی زندگی کی ہر گھڑی ’’ن‘‘ لیگ کے ساتھ ’’ان ہونیوں‘‘ کے امکانات سے لبالب بھری ہوئی ہے۔ اس کا جواب اس روز ملے گا جب ’’ن‘‘ لیگ نگران حکومتوں کے قیام کے بعد ’’رڑے‘‘ پر آجائے گی۔ عوام نواز شریف اور ان کے بیانئے کو تاریخ کے چوراہے پر اس کی طرح آب و تاب سے چمکتے دمکتے دیکھنا چاہیں گے؟ ان کی امید بر آنے کا مطلب ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی جنگ میں ’’ن‘‘ لیگ کی جیت بھی ہوسکتا ہے یا کم از کم مخالفین کی تمام صفیں ابتری کا شکار ہوکے ’’رولز آف گیم‘‘ کو ’’حق بحقدار رسید‘‘ کے عادلانہ موڑ پر لانے کی مجبوری بن سکتی ہیں!
یاد رہنا چاہئے داراشکوہ سچ کی آزمائش میں عوامی حمایت کے متذبذب عمل کی بنا پر ہارتے رہے۔ یہ مگر سچ کا ایک پہلو ہے۔ ملت اسلامیہ کے مقدر کی انہونی وہ ہے جس کے مطابق داراشکوہوں کی نظریاتی کردار کشی کے لئے تقدیس کے سات پردوں میں موجود وہ ترجمان ہوتے رہے جنہوں نے انسانوں کی تذلیل کے لئے مقدس ترین بیانیہ قائم کرکے نیک عذابوں کو دارالشکوہوں پر فتح دلائی! سو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین