• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شام جو گزشتہ آٹھ سالوں سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے اور یہ خانہ جنگی ہمسایہ ممالک کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہے کیونکہ خانہ جنگی کی وجہ سے شام کی آبادی کا بڑا حصہ ہمسایہ ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ جن کی تعداد ساڑھے تین ملین سے تجاوز کرچکی ہے اور مزید پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ترکی ہی ہے کیونکہ شام میں برسر پیکار دہشت گرد تنظیموں جن میں پی کے کے، پی وائی جی اور وائی پی جی شامل ہیں کو امریکہ شام میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے۔ جدید اسلحے کی جب فوٹیج اور تصاویر عالمی میڈیا میں جگہ پانا شروع ہوئیں اور امریکی کمانڈرز کی جانب سے کھلے عام ان کی ٹریننگ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا تو ترکی نے امریکہ کی دوغلی پالیسی پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر دہشت گردوں کو اسلحہ پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو پھر ترکی خاموش تماشائی نہیں رہے گا اور ان دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کرے گا۔ ترکی کے بار بار انتباہ کے بعد امریکہ نےسابق وزیر خارجہ ٹلرسن کو ترکی کے دورے پر روانہ کیا جنہوں نے صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کی ۔جس میں صدر ایردوان نے شام سے متعلق حکومتی پالیسی کے بارے میں اپنی ترجیحات اور توقعات سے امریکا کو باخبر کیا اور امریکہ سے فوری طور پر شامی اپوزیشن اتحاد سیرین ڈیموکریٹک فورسز سے دہشت گرد تنظیم وائی پی جی اور پی وا ئی ڈی کو نکال دینے کا مطالبہ کیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ترک فوجی دستوں کی جانب سے علاقے میں فوجی کارروائی کرنے سے آگاہ کردیا۔ امریکہ کی جانب سے اگرچہ ہمیشہ کی طرح ترک خدشات دور کرنے کا وعدہ کیا گیا اور اس سلسلے میں ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا لالی پاپ دیا گیا۔ جس پر ترکی نے بیس جنوری سے شام میں برسر پیکار دہشت گردوں کے خلاف ’’شاخِ زیتون‘‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا اور یہ آپریشن سویلین کو نقصان پہنچائے بغیربڑی آہستگی سے جاری رکھاگیا اور آخر کار 58 روز کے بعد شام کی ڈسٹرکٹ ’’عفرین‘‘ کے مرکزی علاقے تک پہنچنے میں رسائی حاصل کی اور عفرین شہر کے مرکزی علاقے جہاں پر دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کے بینرز، تنظیم کے جھنڈے لہرا رہے تھے کو ہٹاتے ہوئے ترکی کے پرچم گاڑ دئیے۔ گزشتہ دو ماہ سے جاری اس لڑائی میں ترک افواج کو فری سیرین آرمی کا تعاون بھی حاصل تھا۔ عفرین کی اس لڑائی کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ شہری متاثر ہوئے ۔ترک صدر ایردوان نے اتوار کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے روز جب فتح چناق قلعے کی 103 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے عفرین کی فتح بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ترک مسلح افواج نے صبح ساڑھے پانچ بجے ڈسٹرکٹ عفرین سے اپنی فوجی کارروائی کا آغاز کی اور صبح ساڑھے آٹھ بجے شہر کے مرکزی علاقے میں ترک پرچم لہرانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے شمالی شام کے دیگر علاقوں میں جہاں دہشت گرد موجود ہیں کی مکمل صفائی تک فوجی کارروائی جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ترکی علاقے کو بفر زون قائم کرتے ہوئے ان تمام مہاجرین یا پناہ گزینوں کو آباد کرنا چاہتا ہے جو اسد انتظامیہ کے ظلم و ستم سے فرار ہو کر ترکی آگئےتھے ا ور اب ترکی ان پناہ گزینوں کو ترکی میں نہیں بلکہ شام ہی کی حدود کے اندر جو ان کی اپنی سرزمین ہے مستقل طور پر آباد کرنا چاہتا ہے اور اسی وجہ سے اس نے اس پورے علاقے میں امریکہ کے شدید دبائو کے باوجود فوجی آپریشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ حکومت کے ترجمان اور نائب وزیراعظم بیکر بوزداع نے کہا ہے کہ ترک مسلح افواج کے عفرین میں آپریشن کے دوران کسی بھی شہری کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ عفرین پر کنٹرول قائم کرنے کے بعد استحکام قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے بعدترک دستے مقامی باشندوں کو انتظامی اختیارات سونپتے ہوئے اپنا انخلا شروع کردیں گے۔ اس فوجی آپریشن کے بارے میں ترکی کے وزیر خارجہ مولود چائوش اولو نے کہا ہے کہ شام کے کرد علاقوں میں جاری یہ عسکری کارروائی مئی سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔ اولو کے مطابق ترکی جلد از جلد اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے تاکہ عفرین کے حالات مستحکم ہوں اور شہری اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔ ہم یہاں پر شہریوں کو نہ صرف دہشت گردوں سےبلکہ اسد قوتوں کے حملوں سے بھی تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
ترکی کے فوجی آپریشن کے خلاف امریکہ کے علاوہ یورپی یونین نے بھی شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہو ئے آپریشن جلد از جلد روکنے کا مطالبہ کیا ہے جس پر ترک صدر ایردوان نے کہا کہ’’آپ نے کب سے ترکی پر اپنے فیصلے مسلط کرنا شروع کردئیے ہیں۔ آپ پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ ہم ساڑھے تین ملین شامی باشندوں کی گزشتہ سات سالوں سے میزبانی کررہے ہیں اور آپ نے ان پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے سے روکنے کے لئے ہر طریقہ کار اپنا یا اورہم سے ان پناہ گزینوں کو ترکی ہی میں پناہ دینے کے لئے منت سماجت کی۔ اب آپ کیسے ہمیں شام میں فوجی کارروائی کرنے سے روکتے ہیں؟ ہم نے مسلمان ہونے کے ناتے ان کے ساتھ انصار جیسا برتائو کیا ہے لیکن آپ لوگ انسانیت ہی سے عاری ہیں۔اس لئے آپ کو ترکی کو ڈکٹیٹ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہمیں آپ کے فیصلوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ‘‘
ترکی کے عفرین پر قبضےکے بعد اب چار اپریل کو ترکی، روس اور ایران کے رہنماؤں کا اجلاس دارالحکومت انقرہ میں منعقد ہوگا جس میں شام کے بحران پر بات چیت کی جائے گی۔کانفرنس جس کی میزبانی کے فرا ئض صدر رجب طیب ایردوان انجام دیں گے، میں روس کے صدر پیوٹن اور ایران کے صدر حسن روحانی شرکت کریں گے۔ یہ کانفرنس دو نومبر کو روس کے شہر سوچی میں منعقد ہونے والے سہ فریقی سربراہی اجلاس کے دوسرے مرحلے کی حیثیت رکھتی ہے۔تینوں رہنما سوچی میں کیے جانے والے فیصلوں کے علاوہ شام کی موجودہ صورتِ حال پر بھی بات چیت کریں گے۔ کانفرنس میں ترکی کے فوجی آپریشن ’’شاخِ زیتون‘‘ پر بھی بات چیت کیے جانے اور اس کے بعد ترکی کے شمالی شام میں پیش قدمی کے بارے میں بھی بات چیت کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین