• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں کہ ایک عورت ہوں

رفیعہ شبنم عابدی

مَیں کہ ایک عورت ہوں

زندگی کی عظمت ہوں

مجھ سے نسلِ آدم ہے

اعتبارِ عالم ہے

مَیں ہوا بھی، بادل بھی

مَیں گھٹا بھی، چھاگل بھی

مَیں ہوں ایک تِتلی بھی

اِک کڑکتی بجلی بھی

مَیں ہوں اک حسین جگنو

شاخِ گُل مِرے بازو

مَیں چمک ستاروں کی

جان ہوں نظاروں کی

پھول بھی ہوں، خنجر بھی

موم بھی ہوں، پتھر بھی

گیت بھی، غزل بھی میں

مَیں کہ ایک عورت ہوں

شاہ کارِ فطرت ہوں

ایسے کتنے افسانے

مجھ کو اپنے بیگانے

روز ہی سُناتے تھے

جن کو سُن کے جانے کیوں

لفظ چُن کے جانے کیوں

جھوم جھوم جاتی تھی

آج بربریت نے

نفرت و عداوت نے

مَرد کی شقاوت نے

آئینہ دکھایا ہے

نیند سے جگایا ہے

سوچتی ہوں رہ رہ کر

ساری ذلتیں سہہ کر

مَیں کہ کتنی سستی ہوں

بے وجود ہستی ہوں

مَیں کہ ایک عورت ہوں

بے حِسوں کی غیرت ہوں

مَیں زمین جیسی ہوں

پھل بھی دوں تو مٹّی ہوں

پاک باز ہو کر بھی

آزمائی جاتی ہوں

مَیں جلائی جاتی ہوں

سانس سانس کٹتی ہوں

رات دِن سلگتی ہوں

میری بے ردائی کی

اپنی بے حیائی کی

کھینچتے ہیں تصویریں

کر کے لوگ تدبیریں

ہاں، یہی تو مذہب ہے

میری مانگ سُونی ہے

بکھرا بکھرا کاجل ہے

ٹکڑے ٹکڑے کنگن ہے

مَیں کہ ایک عورت ہوں

کتنی بے حقیقت ہوں

اے سخن کے دیوانو

فکر و فن کے دیوانو

شاعرو، صدا کارو

بُت گرو، اداکارو

نقش اتارنے والو

دِل کو ہارنے والو

حُسن کے ثنا خوانو

آؤ مجھ کو پہچانو

مَیں حسیں نہیں کچھ بھی

اک کریہہ منظر ہوں

عبرتوں کا دفتر ہوں

مَیں نہیں کوئی بیٹی

اور نہ ہی بہن کوئی

کب کسی کی دلہن ہوں

بے کسی کا مدفن ہوں

مجھ کو ماں نہیں کہنا

ہو سکے تو چُپ رہنا

آنسوؤں کی بارش ہے

بس یہی گزارش ہے

اے منافرت زادو

مجھ کو اِک کفن لادو

مَیں کہ ایک عورت ہوں

ننگِ آدمیّت ہوں

تازہ ترین
تازہ ترین