روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ روس نے ایسے ناقابلِ تسخیر ہائی ٹیکنالوجی کے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے ہیں جنہیں امریکی دفاعی نظام بھی تباہ نہیں کرسکتا۔
روسی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں پیوٹن نے روسی فوج کی اب تک مضبوط ترین قوت کا اعلان کیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ روس ایسے مزید جوہری ہتھیار وں کی نئی کھیپ تیار کررہا ہے جو دشمن کے دفاعی نظام کو ناکارہ بنا دیں گے، جس میں لامحدود فاصلے تک مار کرنے والا کروز میزائل، سمندر کے اندر تیزی سے مارکرنے والے ڈرون اورآگ کے گولے کی مانند سفر کرنے والے عملی طور پر ناقابلِ تسخیر ہائیپر سونک میزائل شامل ہیں۔
ماسکو نے ایسے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ بھی کیا ہے جو ایک براعظم کو عبور کرکے دوسرے براعظم کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ سابقہ میزائل سے کئی گنا زیادہ تیزرفتار تک مار کرنے کی صلاحیت اور زیادہ مقدار میں وار ہیڈز (یعنی تباہ کن میزائل ) لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سامعین کی پُرجوش تالیوںکے دوران پیوٹن نے کہا کہ ہمارے پاس جوہری طاقت ہونے کے باوجود بھی کوئی بھی ہم سے بات تک کرنا چاہتا تھا اور نہ ہمیں سننا چاہتا تھا ۔ سنو اب تم ہمیں ضرورت سنو گے ۔
واضح رہے کہ نئے ہتھیاروں کے تجربات کی جنگ رواں ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی ایک تقریر کے بعد سے شروع ہوئی، جس میں انہوں نے اپنے دفاعی ہتھیاروں کی تعداد بڑھانے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پالیسی بھی جاری کی جس کا مقصد روسی جدیدیت کا مقابلہ کرنا ہے۔
روسی صدر پیوٹن کی تقریر پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے برطانوی وزیر دفاع گیون ویلیم سن نے کہا کہ روس مزید اشتعال انگیزی اور معاملات کو بڑھاوا دینے کا انتخاب کررہا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے طرز زندگی کے لیے مزید خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ روس کی جانب سے کیے گئے تجربات ہمارے لیے اس بات کی علامت ہیں کہ ہم اپنے دفاع کو کمزور نہ ہونے دیں۔
لیکن ایک امریکی عہدیدار نے سی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ روس کا جوہری ہتھیاروں سے لیس کروز میزائل کا تجربہ پوری طرح ناکام رہا ہے ۔
اگرچہ پیوٹن نے معاشی مسائل پر بھی بات کی تاہم روسی صدر کی جانب سے فوجی طاقت کے مظاہرے اور خطرے کے بعد ان کے مخالفین کی تمام تر توجہ ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کی جانب منتقل ہوگئی،جس کی وجہ سے روس کو پہلے سے ہی مغربی پابندیوں کا سامنا ہے ۔
پیوٹن نے 2002 میں اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدے سے امریکا کی علیحدگی اور رومانیہ اور پولینڈ میںامریکی دفاعی میزائل نظام کی تنصیبات کا تلخی سے شکوہ کیا تھا ، انہوں نے اس وقت موقف اختیار کیا تھا کہ اس سے تزویراتی میزانیہ تبدیل ہوگا ۔
پیوٹن کا کہنا تھا کہا کہ جب سے روس کی جانب سے دفاعئ میزائل نظام کے انتباہ کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس کے بعد سے روس اپنے جوہری نظام کو مزید مضبوط کرنے اور مغرب کیتزویراتی برتری کے خاتمے کے لیے نئے ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف تھا۔
پیوٹن نے میزائل لانچنگ، دھماکوں اور پرواز کی مشقوں کی اسکرین پر جاری ویڈیو کو اپنے خطاب کے دوران کئی بار روکا۔ یہ کلونکی کمپیوٹر گرافکس تصاویر اس وقت مزید مسرور کن ہوتی اگر ان بے ترتیب دکھائے جانے والے حملوں اور میزائلوں کا ہدف شمالی امریکا نہ ہوتا ۔ دوسری جانب ویڈیو میں ایک جوہری میزائل امریکی ریاست فلوریڈا پر گراتے ہوئے بھی دکھایا گیا ۔
لفاظی سے بھرپور یہ فوجی مشق روسی صدر کے لئے بے مثال تھی اور جیسے ہی یہ مشق اپنے عروج پر پہنچی پیوٹن نے اپنے ملک کے حالیہ ہتھیاروں کے راز سے پردہ اٹھانے کی سرسری پیشکش کی ۔ پیوٹن نے سمندر ی ڈرون کا نام تجویز کرنے کے لیے ایک آن لائن الیکشن بھی کرایا جوکہ سمندر میں اپنے ساتھ بھاری جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس ڈرون کی ایک ویڈیو بھی دکھائی جس میں ڈرون کو تباہی پھیلاتا ہوئے دیکھا جاسکتا تھا ۔
اس سے قبل سمندی ڈرون کو دفاعی اجلاس کے دوران ایک ٹیلی ویژن کے گردشی کیمرے کی مدد سے دیکھا گیا تھا اور اسے ایک کاغذ کے ٹکڑے کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
پیوٹن کا کہنا تھا کہ ’’پابندیاں روس کی ترقی بشمول فوجی شعبے میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، یہ کام نہیں آئیں گی۔ یہ پابندیاں روس کو روکنے کے قابل نہیں ہوگی۔ انہیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی، اس کشتی میں چھید کرنے سےگریز کریں جس میں ہم سب سوار ہیں۔‘‘
گزشتہ ماہ روسی پائلٹ کو شام میں دشمن کے علاقے میں اترنے کیلئے مجبور کیا گیا تاہم پائلٹ نے انکار کرتے ہوئے اپنے آپ کو دستی بم سے اڑا لیا تھا ،روسی صدر نےعزم ظاہر کیا کہ مستقبل میں دوبارہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے، اس موقع پر حاضرین نے انہیں کھڑے ہو کر داد دی ۔
پیوٹن کی تقریر میں فوجی جارحیت کے اعلانات ان کی تقریر کے پہلے حصے سے علیحدہ تھے جس میں انہوں نے سماجی مسائل اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے پر بات چیت کی ۔
پیوٹن کےان بیانات کو ان کی آئندہ مدت صدرات کے لیے ان کے ویژن کے طور پر دیکھا جارہا تھا جس میں روسی صدر کو اپنی کامیابی کیلئے پرامید تھے ۔ واضح رہے کہ پیوٹن اپنی انتخابی مہم نہیں چلائی اور وہ کافی عرصے سے منظرِ عام سے غائب رہے ۔
روسی صدر نے وعدہ کیا کہ وہ اگلے چھ سالوں میں ملک سے نصف غربت کا خاتمہ کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 20 ملین روسی غربت و افلاس میں جکڑے ہوئے جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2025 میں ملک کی فی کس مجموعی پیداوار میں 50 فیصد اضافہ کردیا جائے گا۔
حکومتی نظام کو بہتر، ٹیکنالوجی میں جدت اور لوگوں معیار زندگی میں بہتری کا مطالبہ کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ روسیوں اور ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہوگی۔
روسی صدر نے کہا کہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی اور دفاعی صلاحیت کا اندازہ تو لگا لیا ہے مگر عوام الناس کی ذاتی ترقی کے لحاظ سے اندازہ لگانے میں ہم اب تک ناکام رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں عوام کی انفرادی ترقی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور ہم ایسا ضرور کریں گے۔
ڈیجیٹل ڈیولپمنٹ اور ڈیجیٹل معیشت روسی صدر کا حالیہ سلوگن ہے، روسی صدر نے محتاط انداز میں بلاک چین جیسی (آن لائن کرنسیوں) کی تخلیق کو اپنایا ہے جبکہ اس دوران وہ ویب کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس ایسا ملک بنے گا جو نئے خیالات اور اقدامات کے حوالے سے پوری دنیا کے لیے آزاد ہوگا ۔
روسی صدر پیوٹن، جن کی 2018 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی متوقع ہے اور اس طرح وہ روس پر جوزف اسٹالین سے بھی زیادہ طویل حکمرانی کرنے والے رہنما بن جائیں گے ،ان کا کہنا ہے کہ ہمیں تمام علاقوں میں عوام الناس کی آزادی میں اضافے اور ملکی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوگا۔
روس کی عدالت عظمیٰ نے قائد حزب اختلاف الیکسی ناولنی کو کرپشن کے الزامات کے باعث 2018 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں شرکت سے روک دیا تھا جبکہ یورپ کی عدالت برائے انسانی حقوق نے اس معاملے کو سیاسی قرار دیا ہے۔
روس صدرکے دسمبر سے اب تک 'اسٹیٹ آف دی نیشن خطاب کو کئی بار ملتوی کیا گیا۔
گزشتہ ماہ جب روسی صدر دو ہفتے منظرِ عام سے مسلسل غائب رہے تو ان کے ترجمان نے بتایا کہ وہ نزلہ زکام میں مبتلا ہیںجبکہ انتظامیہ کا بھی یہی اصرار تھا کہ ان کی طبعیت ناساز ہے ۔