• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
قائداعظم محمد علی جناح نے 11ستمبر1947یعنی پاکستان بننے کے محض 27دن بعد جو تاریخ ساز تقریر کی تھی وہ قائداعظم کی وفات سے پہلے ہی غائب کردی گئی تھی اور اگر وہ کہیں پر موجود تھی تو بھی اس پر آج تک عمل درآمد کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اگر اس تقریر کو قائداعظم کی آخری خواہش ہی سمجھ کر پاکستان پر لاگو کردیا جاتا تو بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی آج پاکستان کی یہ حالت ہوتی آج پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا اور اس کی ساری دنیا میں عزت ہوتی انہوں نے اس تقریر میں نومولود ملک کو صحیح ڈگر پر چلانے اور اس کی سمت کا تعین کردیا تھا انہوں نے اس میں کوئی فلسفہ پیش نہیں کیا بلکہ یہ کہا تھا کہ پاکستان میں امن و امان کو برقرار رکھا جائے گا، تمام شہریوں کے جان و مال کا مکمل تحفظ کیا جائے گا، تمام شہریوں کو رنگ و نسل اور مذہب و عقائد سے بالاتر ہو کر تمام حقوق حاصل ہوں گے۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہوگی۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان میں رشوت خوری، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور اقربا پروری نہیں ہوگی! یہ گائیڈ لائن انہوں نے اس لئے دی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ متحدہ انڈیا میں نسلی اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا اور وہاں جو برائیاں موجود تھیں وہ انہیں پاکستان میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی ان کے افکار و نظریات بھلا دیئے گئے جس کا نتیجہ ہم ملک کے دولخت ہونے، کئی مارشل لاؤں کا سامنا کرنا، جمہوریت کا ستیاناس ہونے، کرپشن، اقربا پروری اور دیگر برائیوں کی صورت میں دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اقلیتوں اور غریبوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے چند خاندان اپنے پیٹ بھر رہے ہیں، ملک میں سیاسی افراتفری ہے، آنے والی گھڑی کا پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہوگا؟ بلیک مارکیٹ والے جب چاہیں ڈالر کی قیمت بڑھا اور روپے کی قدر میں کمی کرکے کھربوں روپے کما لیں اور ملک کو اربوں ڈالر کا چونا لگا دیں۔ اس کے اثرات یہ بھی ہیں کہ اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان مسلسل تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت سوائے ترکی اور چین کے کوئی اور ملک نظر نہیں آتا جو اہم امور پر پاکستان کی عالمی فورمز پر سپورٹ کرے۔ کسی بھی اسلامی ملک کو پاکستان کی خارجہ پالیسی پسند نہیں ہے ایک طرف انڈیا کشمیر میں نہتے شہریوں پر ظلم اور جنگ بندی لائن پر کشمیریوں اور پاکستانیوں کو شہید کر رہا ہے اور امریکہ، سعودی عرب، ایران اور دوسرے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط بنا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے ولی عہد امریکہ یاترا میں اربوں ڈالرز کے معاہدے کررہے ہیں مسلمان ممالک کا کچھ پیسہ مسلم ممالک کے کام آنے کی بجائے بڑی طاقتوں سے اسلحہ و بارود کی صورت میں موت کا سامان خریدنے پر استعمال ہورہا ہے پاکستان کے سفارتی تعلقات سعودی عرب اور ایران کے ساتھ کمزور ہو چکے ہیں ان میں سے ایک امریکہ و اسرائیل اور دوسرا بھارت کے ساتھ زیادہ خوش ہے۔ امریکہ کے ساتھ دوستی بڑھانے کا ایک مطلب یہ بھی تو ہے کہ اسرائیل کے ساتھ حالات درست رکھے جائیں تاکہ ایران کو قابو میں رکھا جا سکے۔ اگر پاکستان کی اقتصادی حالت درست ہوتی، ملک کے اندر دہشت گردی نہ ہوتی، مارشل لاؤں نے ملک کو کھوکھلا نہ کردیا ہوتا، کرپشن اور چور بازاری نہ ہوتی تو پاکستان عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرسکتا تھا اور ایران اور سعودی عرب کو سفارت کاری کے ذریعے ایک میز پر لا سکتا تھا مگر پاکستان کی عاقبت نااندیش قیادتوں نے مرحلہ وار اس ملک کو پستیوں کی طرف دھکیلا۔ قائداعظم کے اصولوں اور 11ستمبر 1947کی تقریر کو فراموش کردیا گیا آج 23مارچ ہے، اس دن 1940میں لاہور میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی۔ اس قرارداد کو قائداعظم کی موجودگی میں منظور کیا گیا، اس میں پاکستان بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس وقت کے سارے لیڈروں نے اس قرارداد کی تمام شقوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جس کے نتیجے میں صرف سات سال کے اندر اندر پاکستان بن گیا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اس قرارداد پر مکمل عمل درآمد کیا گیا، اسی طرح اگر قائداعظم کی مذکورہ تقریر پر عمل کیا جاتا تو آج یقیناً صورتحال مختلف ہوتی تاہم اقوام کی زندگی میں 70/75سال زیادہ بڑا عرصہ نہیں ہوتا ہم آج بھی قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو خوشحال بنانے کے لئے ان کے افکار پر عمل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم سرخرو نہ ہوں!
تازہ ترین