• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غیرآئینی مطالبہ سامنے، نگراں حکومت سےمتعلق شبہات بڑھ گئے

کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیونیوزکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘‘میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ میں عام انتخابات ہوں گے اور عوام اپنے نمائندے منتخب کریں گے،مگراس عمل سے پہلے ایک بار پھر سے بداعتمادی کی فضا پیدا ہورہی ہے، ایک بار پھر سے غیرآئینی مطالبہ سامنے آرہا ہے جس سے انتخابات خاص طور پر نگراں حکومت کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں اور غیر یقینی وبے چینی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، نگراں حکومت کیلئے بھی سیاستدان سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں بلکہ جوڈیشل مارشل لاء لگانے کا مطالبہ آرہا ہے، اب تک کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا مگر عمران خان کے قریبی ساتھی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ عام انتخابات کیلئے ملک میں جوڈیشل مارشل لاء لگادیں،اس سے پہلے بھی شیخ رشید اسمبلیوں کی مدت اور حکومت کے خاتمے کیلئے کئی پیشن گوئیاں کرچکے ہیں مگر وہ درست ثابت نہیں ہوئیں البتہ اس بار شیخ رشید نے عدلیہ کو انتظامی بلکہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کو کہا ہے ،آئین اس حوالے سے واضح ہے پھر شیخ رشید نے یہ بات کیوں کی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے شیخ رشید کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مارشل لاء سے با ت کرنے والا شخص ہی جوڈیشل مارشل لاء کی بات کرسکتا ہے، نگراں حکومت کے قیام کیلئے آئین میں واضح طریقہ کار موجود ہے، شیخ رشید تمام تر تنقید کے باوجود اپنی بات پر قائم ہیں، شیخ رشید نے آج ویڈیو پیغام میں جیوڈیشل مارشل لاء سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیوڈیشل مارشل لاء کا مطلب ہے کہ چیف جسٹس نوے یا 120دنوں کیلئے شفاف نگراں حکومت کا انتخاب کریں، شیخ رشید نے یہ بات اب کہی ہے مگر سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی بار بار جوڈیشل مارشل لاء کی باتیں کرتے رہے ہیں۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے چیمپئن اپنے گریبانوں میں جھانکیں، یہ سب مارشل لاء کی پیداوار ہیں جس سے انہیں اب نفرت ہے، موجودہ حکمران مارشل لاؤں کی نرسریوں میں جوان ہوئے ہیں، یہ سب جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں، خورشید شاہ نے میرے خلاف بیان دیا، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، خورشید شاہ کس وقت پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈر تھے، آصف زرداری تو رضا ربانی، خورشید شاہ، اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر سے نفرت کرتا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ کیا شیخ رشید کا یہ بیان آئین و قانون کے مطابق ہے، کیا آئین چیف جسٹس کو یہ اختیار دیتا ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے، آئین پاکستان میں نگراں حکومت کی تقرری کا طریقہ کار موجود ہے، آئین کے آرٹیکل 224کی شق ایک کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 60دن کے اندر اندر قومی و صوبائی اسمبلیوں کا عام انتخابات ہوگا، اسی آرٹیکل کی شق دو میں لکھا ہے کہ اپنی مدت مکمل کرنے پر قومی یا صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کی صورت میں صدر یا پھر گورنر جیسی بھی صورت ہو نگراں کابینہ کا تقرر کرے گا مگر شرط یہ ہے کہ صدر نگراں وزیراعظم کا تقرر جانے والی اسمبلی کے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرے گا، آج کی صورتحال میں دیکھا جائے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ہیں، اسی طرح آئین کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر گورنر جانے والی اسمبلی کے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرے گا، اس شق میں مزید لکھا ہے کہ نگراں صوبائی اور وفاقی کابینہ کے اراکین کا تقرر نگراں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ہوگا، آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ نگراں وزیراعظم کی تقرری صدر کریں گے اور اس کا انتخاب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت سے کریں گے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر نگراں وزیراعظم کے انتخاب پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہیں ہوسکے گا تو کیا ہوگا، اس حوالے سے بھی آئین واضح ہے، آئین کے آرٹیکل 224 الف میں واضح طور پر لکھا ہے کہ رخصت ہونے والی قومی اسمبلی کے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر کسی بھی شخص پر بطور نگراں وزیراعظم اتفاق نہیں ہوتا تو انفرادی طور پر نامزد کردہ دو دو نام قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی کو بھیجے جائیں گے، یہ کمیٹی رخصت ہونے والی قومی اسمبلی یا سینیٹ یا دونوں سے آٹھ اراکین پر مشتمل ہوگی، اس میں حکومت اور حزب اختلاف کی مساوی نمائندگی ہوگی، یہی طریقہ کار صوبوں میں بھی اختیار کیا جائے گا مگر صوبائی پارلیمانی کمیٹیاں چھ چھ اراکین پر مشتمل ہوں گی اور آئین کے مطابق یہ کمیٹیاں بھی تین دن کے اندر نگراں وزیراعظم اور نگراں وزیراعلیٰ کے نام کو حتمی شکل دیں گی، اگر ان چھ دنوں کے اندر نگراں وزیراعظم کا فیصلہ نہیں ہوتا تو اس حوالے سے بھی آئین میں ہدایات موجود ہیں، آرٹیکل 224میں لکھا ہے کہ اگر تین دن میں پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو پھر نام الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں گے جو دو دن میں حتمی فیصلہ کرے گا، نگراں حکومت کیلئے یہ طریقہ کار آئین میں موجود ہے جس کے تحت آٹھ دن کے اندر نگراں وزیراعظم یا نگراں وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ وجود میں آجائے گی، آئین اس حوالے سے واضح ہے تو پھر بھی عدلیہ کو مداخلت کی دعوت کیوں دی جارہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے بھی نگراں وزیراعظم کی تقرری اسی آئینی طریقہ کار کے ذریعہ ہوئی، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا جس کے بعد دونوں کے تجویز کردہ نام پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجے گئے، پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی تو الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعظم کیلئے جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کے نام کا اعلان کیا اور وہ وزیراعظم بن گئے، اس بار بھی اس آئینی طریقہ کار کے تحت ایسا ہوسکتا ہے پھر کیوں غیرآئینی باتیں کی جارہی ہیں،اہم بات یہ ہے کہ نگراں حکومت کے اختیارات کے حوالے سے بات ضرور ہورہی ہے، آئین کے تحت نگراں حکومت کی ذمہ داری روزمرہ کے امور نمٹانا ہوتی ہے مگر آئین نگراں حکومت کو واضح اختیار نہیں دیتا، نگراں حکومت کا کام صاف اور شفاف انتخابات کیلئے اقدامات کرنا ہوتا ہے، اگر اسمبلی مدت پوری کرے تو نگراں حکومت کی مدت 60دن ہوگی، اگر اسمبلی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل ہوجائے گی تو نگراں حکومت کی مدت 90دن تک ہوسکتی ہے، اس حوالے سے آج نواز شریف نے کہا کہ سیاستدانوں کو بیٹھ کر نگراں سیٹ اپ کا فیصلہ کرنا چاہئے، اچھا ہوگا کہ نگراں حکومت کے اختیارات کے حوالے سے بھی آئینی ترمیم کرلی جائے، سوال پیدا ہورہا ہے کہ نواز شریف اس وقت نگراں حکومت کے اختیارات کی بات کیوں کررہے ہیں، کیا انہیں ڈر ہے کہ نگراں حکومت کے دوران کچھ ہوجائے گا، کیا اس وقت ممکن ہے کہ نگراں حکومت کے اختیارات کیلئے قانون سازی کی جاسکے، بہرحال عدلیہ بھی واضح کرچکی ہے کہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گی، بارہ مارچ کو چیف جسٹس ثاقب نثار کے اہم ریمارکس سامنے آئے، سرکاری اشتہارات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین و قانون کے اندر رہ کر کوشش کریں گے کہ اس مرتبہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے، 1970ء کے بعد انشاء اللہ آئندہ عام انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے، آئندہ عام انتخابات سے قبل بیوروکریسی میں ردوبدل کے ساتھ ان کے تبادلے دوسرے صوبوں میں بھی کردیں گے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ انتخابات اب کچھ ہی دور ہیں لیکن پھر بھی غیریقینی کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے، نگراں حکومت کے حوالے سے بھی تحفظات پیدا کیے جارہے ہیں، جوڈیشل مارشل لاء کی باتیں کی جارہی ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ دس دنوں کے دوران سینیٹ کے دواہم عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، دس دن پہلے بارہ مارچ کو پیپلز پارٹی نے جوڑ توڑ کے ذریعہ سینیٹ میں متحدہ پلیٹ فارم سے اپنا ڈپٹی چیئرمین بنوایا اور اب پیپلز پارٹی کی نامزد کردہ شیری رحمن کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا ہے، پیپلز پارٹی اس حوالے سے تعریف کی مستحق ہے کہ سینیٹ میں پہلی دفعہ کوئی خاتون اپوزیشن لیڈر بنی ہیں۔سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا کہ پاکستان کا آئین موم کی ناک ہے، جس کو جس وقت ضرورت ہوتی ہے اپنے مطابق ڈھال لیتا ہے، آئین میں سترہویں ترمیم کے بعد اٹھارہویں ترمیم میں یہ ٹھپہ لگایا گیا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر نگراں حکومت بنائیں گے، اگر اتفاق نہیں ہوگا تو کیا نگراں حکومت تین سال کیلئے لگے گی، چیف جسٹس صاحب چاروں صوبوں میں نگراں حکومت میں سابق چیف جسٹس لگادیں اور مرکز میں وہ خود ہوں، چیف جسٹس صاحب مرکز میں آرٹیکل 199کے تحت فوج کو ہدایت کریں کہ ہر صورت میں شفاف الیکشن ہوں۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے چیمپئن اپنے گریبانوں میں جھانکیں، یہ سب مارشل لاء کی پیداوار ہیں جس سے انہیں اب نفرت ہے، موجودہ حکمران مارشل لاؤں کی نرسریوں میں جوان ہوئے ہیں، یہ سب جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں، خورشید شاہ نے میرے خلاف بیان دیا، ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، خورشید شاہ کس وقت پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈر تھے، آصف زرداری تو رضا ربانی، خورشید شاہ، اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر سے نفرت کرتا ہے، نواز شریف پنجاب میں اور آصف زرداری سندھ میں نگراں وزرائے اعلیٰ اپنے لوگ لگائیں گے تاکہ انتخابات میں ٹھپے لگائیں، خیبرپختونخوا میں غیرجانبدار نگراں وزیراعلیٰ آئے گا۔ شیخ رشید نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے زندہ ہے ورنہ سب لیٹے ہوئے لوگ ہیں، ضیاء الحق کو کلیئرنس نواز شریف نے دی تھی، نواز شریف نے ہی جونیجو کو نکالا تھا، نواز شریف کو ججوں نے بحال کیا تھا، مارشل لاء سے وہ لوگ ڈرے ہوئے ہیں جو مارشل لاء کے گملوں سے پیدا ہوئے، مشاورت کا لفظ نائیلون کی جراب کی طرح ہر سائز میں فٹ ہوجاتا ہے،نگراں حکومت کیلئے اصل پھڈا پنجاب میں ہوگا، پنجاب میں محمود الرشید نہیں مانتا تو یہ اس کی بات نہیں مانیں گے۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومت نئی حلقہ بندیوں، مردم شماری اوربجٹ جیسے معاملات کو طول دے گی تو کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، نواز شریف کا رونا دھونا ہی ختم نہیں ہورہا ہے، نواز شریف کے کیس کا فیصلہ ہوجائے تو پتا چلے گا وہ کیا چاہتے ہیں، شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں، یہ لوگ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کے کاروبار کی سیاست کررہے ہیں ،میں وقت سے پہلے بول پڑتا ہوں جس پرا نہوں نے طوفان کھڑا کردیا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ مجھ پر کوئی حملہ آور ہوگا تو اسے سیاسی طریقے سے نیست و نابود کردوں گا، ایسا سیاسی کھلاڑی ہوں جو اپنی طاقت سے مخالفین سے ٹکراتا ہوں، سیاست کو اس مقام پر پہنچادیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو جوتیاں مار رہے ہیں کیا اس وقت کا انتظار ہے جب گولیاں ماریں گے، جو اتنے بڑے مجمع میں جوتی مار سکتا ہے وہ گولی بھی مار سکتا ہے، پاکستان کو آئین کی اصل روح کی ضرورت پڑی تو سہارے ڈھونڈے گئے۔ شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف مجھے ایک سیٹ کے لیڈر کا طعنہ دیتے ہیں وہ پنجاب میں نگراں حکومت کیلئے تحریک انصاف کو موقع نہیں دیں گے، میں ملک میں سازش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، شام کو ٹی وی ٹی وی کھیلتا ہوں، جلسہ کرنے کیلئے بھی کم از کم ایک دو کروڑ روپے چاہئیں، اس ملک میں لوگ نو ، نو کروڑ روپے کا جلسہ کرتے ہیں، نواز شریف ووٹ سے پہلے اپنی عزت بڑھائیں، وہ نااہل، نالائق، کرپشن میں ملوث ہیں اور کہتے ہیں ووٹ کی عزت بڑھاؤ، نواز شریف نے جو محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا تھا کیا وہ ووٹ کی عزت بڑھائی تھی،یہ وہ نگراں حکومت چاہتے ہیں جس میں انتظامیہ ان کے ہاتھ میں ہو، تمام پولنگ اسٹیشنز کنٹرول میں ہوں۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 2018ء میں شفاف انتخابات کا انعقاد ملک کی سلامتی کی ضمانت ہوگا، نگراں وزیراعظم کیلئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جسے فوج،عوام اور سیاسی جماعتیں قبول کریں لیکن ایسا شخص نایاب ہے، ملک کا سانحہ ہے یہاں شفاف اور نیک آدمیوں کی تعداد بہت کم ہے، نگراں حکومت کے انتخاب میں غلطی ہوئی تو ملک جمہوریت کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں چلا جائے گا، یہ بے اختیار حکمران لانا چاہتے ہیں جس سے ان کو فائدہ ہو، اگر تحریک انصاف اور شہباز شریف کی انڈراسٹینڈنگ ہوگئی اور نگراں کیلئے نام کمیٹیوں میں نہیں گئے تو یہی سب لوگ بعد میں کہیں گے کہ ہاتھ ہوگیا، پچھلے چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا، وہ جو پہلے ہی مرنے کے دن پورے کررہا ہوتا ہے وہ کمپنی کی مشہوری کیلئے نگران بن جاتا ہے، اس صورتحال میں وہی ہوتا ہے جس کا انجام آج دیکھ رہے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی سازش نہیں ہورہی ہے، میں خانہ کعبہ کی چھت پر گیا ہوں اس کو سامنے رکھ کر حلف دیتا ہوں کوئی سازش نہیں ہے، پاکستان کا مسئلہ دو نمبر کی لیڈرشپ ہے، یہاں کاروباری لوگوں نے سیاست بطور سرمایہ کاری اور منافع کیلئے شروع کی ہوئی ہے، ن لیگ کو چار دفعہ حکومت ملی مگر غریب کا حال ابھی بھی خراب ہے۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے اس وقت عوام کیلئے قابل قبول کردار ادا کیا ہے، عدلیہ اگر منصفانہ آدمی کا انتخاب نہیں کرسکتی تو اسلام کے نام پر پانچ سال بعد اکٹھے ہونے والے لوگ بھی اسلام کے بجائے اسلام آباد کے لالچی ہیں، جیوڈیشل مارشل لاء کی جگہ جیوڈیشل ٹیک اوور یا جیوڈیشل فیصلہ کا لفظ استعمال کریں، جیوڈیشل کُو اس الیکشن میں اپنا کردار ادا کرے اور فوج پولنگ باکس کی بھی حفاظت کرے، یہاں بدمعاش معزز ہوگئے اور لوٹ مار کی دولت والے عزت پاگئے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ میڈیا کو اپنی رائے دینے اور کسی سیاستدان پر تنقید کرنے کا پورا حق ہے، میڈیا کا احترام ہر سیاستدان پر لازم ہے نچاہے میڈیا اس کا کتنا بڑا مخالف ہو، میڈیا نے لیڈی ڈیانا کا جنازہ اتنی دیر نہیں دکھایا جتنی دیر چوہدری افتخار کا جلوس دکھایا، اس ملک کا وزیراعظم کہتا ہے پانچ ججوں کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دو، اس ملک میں اربوں روپے کے چور ہیں، عمران خان کے چار حلقے کھل جاتے تو ملک بحران سے نہ گزرتا، 2013ء کے الیکشن کی عدالتی انکوائری پر کیوں گئے، کیا وہ جسٹس آپ کی خالہ کا بیٹا لگتا تھا جس کے پاس ساری پارٹیاں گئیں، میں اس وقت اس کا حامی نہیں تھا، قوم کو بتانا چاہتا تھا کہ آرٹیکل 199کے تحت ملک میں جیوڈیشل مارشل لاء لگایا جائے اور چیف جسٹس فوج اور احتساب عدالتوں کو احکامات دیں ،شفاف انتخابات کیلئے ہمہ گیر برابری کا پروگرام ہو جس میں ہر شخص کو ووٹ کے استعمال کا شفاف حق حاصل ہو۔سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب نے واضح کردیا کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعاون چند دنوں کیلئے تھا، تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی سے کم نشستیں ہیں، تحریک انصاف نے پچھلے تین چار سال کے دوران پارلیمنٹری بزنس میں سنجیدگی سے کوئی حصہ نہیں لیا، پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کے زیادہ روابط نہیں ہیں، عمران خان کا فوکس پارلیمنٹ سے باہر رہا ہے، سینیٹ انتخابات میں بھی عمران خان سرگرم نظر نہیں آئے یہاں تک کہ ووٹ ڈالنے بھی اسمبلی نہیں آئے، پیپلز پارٹی اور سینیٹ میں دیگر اپوزیشن جماعتیں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ تحریک انصاف کو دینے کیلئے تیار نہیں تھیں۔

تازہ ترین