کراچی(نیوزڈیسک) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک صحافی سے ملاقات میں کہا کہ دعا ہے میرے فیصلوں سے نیک ، ایماندار شخص آجائے، سب سے زیادہ اپنے ادارے یعنی عدلیہ کی وجہ سے بے بس ہوں، ہائیکورٹ کے ججوں سے کہاکہ خدا کے واسطے کام کریں، کاش اللہ تعالیٰ اس ملک کو حضرت عمر فاروقؓ جیسا کوئی حکمران دے دے، وہ اپنے کندھوں کا سارا بوجھ اتار کر اقتدار میں آئے،حلقہ بندیوں کا کام اگر نگراں حکومت کے کندھوں پر آ گیا تو نظریہ ضرورت زندہ ہو جائیگا، احتساب سب کا الیکشن سے پہلے ہوگا یابعد بتا نہیں سکتاجب بھی ہوگا غیر جانبدار ہوگا، الیکشن کمیشن سےملتارہتا اور کہتا رہتا ہوں کاش ایک مرتبہ قوم کا شکوہ دور کردیں۔سینئر صحافی جاوید چوہدری نے حال ہی میں چیف جسٹس سےملاقات کی جس کا احوال صحافی نے اس طرح بیان کیاکہ ’’میری 19؍ مارچ 2018ء کو چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سے ملاقات ہوئی، یہ ملاقات ون آن ون تھی اور یہ چیف جسٹس کے آفس میں ہوئی اور تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی، چیف جسٹس نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کی میرے بارے میں کیا رائے ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں آپ کو 2ذریعوں سے جانتا ہوں، آپ 1997-98ء میں فیڈرل لاء سیکریٹری تھے، میں نے اس وقت آپ کی جرأت کے چند واقعات سنے تھے، آپ نے میاں نواز شریف کی بیڈ گورننس سے دل برداشتہ ہو کر عہدہ چھوڑ دیا تھا اوردوسرایہ کہ مجھے ٹیلی ویژن پر آپ کی چند تقریریں دیکھنے کا اتفاق ہوا، مجھے محسوس ہوا آپ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ بے بس ہیں‘‘ چیف جسٹس نے میری آبزرویشن سے اتفاق کیا۔ان کا کہنا تھا ’’میں سب سے زیادہ اپنے ڈپارٹمنٹ (جوڈیشری) کی وجہ سے بے بس ہوں۔ میں نے کل ہائی کورٹ کے ججوں سے کہا‘ملک کو ہائی کورٹ کے ایک جج کا ایک دن 45؍ ہزار روپے میں پڑتا ہے‘ اس میں اگر آٹھ چھٹیاں بھی شامل کر لی جائیں تو یہ مالیت ساٹھ پینسٹھ ہزار روپے بن جاتی ہے مگر ایک جج اوسطاً روزانہ ایک اعشاریہ چار فیصلے کرتا ہے‘ یہ شرح انتہائی پست ہے‘ میں نے ججوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کہا‘ خدا کے لیے کام کریں‘ یہ ملک مزید ناانصافی‘ مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔میں نے عرض کیا ’’آپ پر اعتراض کیا جاتا ہے آپ اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں‘ آپ ایگزیکٹو کے کاموں میں دخل دے رہے ہیں‘‘ چیف جسٹس نے اطمینان سے میری بات سنی اور فرمایا ’’میں آپ کو اختیار دیتا ہوں آپ جب اور جہاں محسوس کریں میں اختیارات سے تجاوز کر رہا ہوں آپ مجھے فون کریں‘ میں پوری قوم سے معافی مانگ لوں گا لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کیا عام آدمی کو صاف پانی نہیں ملنا چاہیے؟آپ راول لیک چلے جائیے ، لیک میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں‘ فیکٹریوں‘ مرغی خانوں اور باڑوں کا گند جارہا ہے اور یہ پانی پورے راولپنڈی کو سپلائی ہوتا ہے‘ کیا گورنمنٹ کے کسی ادارے نے کبھی اس پانی کی پڑتال کی‘ کیا اس کی صفائی کا سسٹم دیکھا! آج تک وہاں کوئی نہیں گیا‘ کیا راولپنڈی کے لوگ انسان نہیں ہیں؟ آپ اسپتالوں کو بھی دیکھ لیں‘ وہاں کیا ہو رہا ہے‘ پنجاب حکومت نے لاہور کے اسپتالوں کا فضلہ اٹھانے کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دے دیا جس کے دونوں سربراہ ان پڑھ بھی ہیں‘ ناتجربہ کار بھی اور یہ اسپتالوں کے فضلے کی سنگینی سے بھی واقف نہیں ہیں‘ میں نے ان کو بلا کر پوچھا‘ آپ نے یہ فضلہ جلانے کے لیے بھٹیاں کہاں لگائی ہیں؟ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ میں جانتا ہوں یہ دونوں فرنٹ مین ہیں‘ ان کے پیچھے کوئی اور ہے اور وہ کوئی اور ہر مہینے ریاست کے کروڑوں روپے کھا رہا ہے‘ اس بے ایمانی نے لاہور شہر میں مہلک بیماریوں کے سیکڑوں بم فکس کر دئیے ہیں‘آپ پتہ کریں علی کون ہے اور یہ ٹھیکہ اس کے پاس کیوں ہے؟میں نے وزیراعلیٰ سندھ کو بلا کرپینے کا پانی دکھایا اور ان سے کہا‘ آئیے آپ اور میں دونوں ایک ایک گلاس یہ پانی پی لیتے ہیں‘وزیراعلیٰ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ کراچی میں کچرے کے انبار لگے ہیں‘ گندے نالے بند پڑے ہیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی‘ ہم جج بھی آخر انسان ہیں‘ ہم بھی پاکستانی ہیں‘ہم خلاء میں نہیں رہ رہے‘ کیا ہم آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں‘ کیا ہم ملک کو تباہ ہونے‘ ملک کو ٹوٹنے دیں‘ آپ بتائیں ہم کیا کریں؟‘‘ وہ خاموش ہو کر میری طرف دیکھنے لگے۔میں نے عرض کیا ’’سر حکومت اور سرکاری اداروں میں کیپسٹی نہیں ہے‘ آپ زور لگائیں گے تو یہ رہا سہا سسٹم بھی ٹوٹ جائے گا‘ یہ امپروو نہیں ہو گا‘‘ چیف جسٹس جذباتی ہو گئے‘ انھوں نے دل پرہاتھ رکھا اور کہا ’’آپ میری بات لکھ لیں‘ پھر ان لوگوں کو یہ سسٹم امپروو کرنا پڑے گا‘ میں بالکل پیچھے نہیں ہٹوں گا‘ ان لوگوں کو عام لوگوں کا حق دینا ہوگا‘ میں تاریخ میں جسٹس کارنیلس اور جسٹس حمود الرحمن بن کر زندہ رہنا چاہوں گا‘ میں خاموش نہیں بیٹھوں گا‘ مجھے دھرنا دے کر بیٹھنا پڑا تو میں بیٹھوں گا لیکن میں بیورو کریسی اور سیاستدانوں دونوں سے کام کروا کر رہوں گا‘ یہ نہیں ہو سکتا لوگ مرتے رہیں اور یہ لوگ اپنی جیبیں‘ اپنے پیٹ بھرتے رہیں‘‘۔وہ رکے اور بولے ’’آپ پنجابی ہیں‘ آپ الجھی ہوئی ڈور اور کیچڑ میں پھنسے گڈے کی اصطلاح جانتے ہیں‘ پنجاب میں جب گڈا کیچڑ میں پھنس جاتا ہے تو امیر لوگ اپنا سامان اتار کر دوسری سواری پر بیٹھ کر چلے جاتے ہیں‘ درمیانے لوگ سائے میں بیٹھ جاتے ہیں اور کمی اس کو دھکا لگاتے رہتے ہیں‘ پاکستان ایک ایسا گڈا بن چکا ہے۔ہمارا مراعات یافتہ طبقہ اپنا اپنا سامان اتار کر دوسرے ملکوں میں جا رہا ہے‘ بیورو کریسی سائے میں آرام کر رہی ہے اور عوام بے چارے اس پھنسے ہوئے گڈے کو دھکا لگا رہے ہیں‘ میں پہلے دو طبقوں میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں‘ میں نہ تماشا دیکھوں گا اور نہ ہی اپنا سامان اتار کر باہر جاؤں گا‘ میں اور میری نسلیں اسی زمین میں دفن ہوں گی‘ یہ ملک الجھی ہوئی ڈور بھی بن چکا ہے‘ ہمارے لاہور میں جب ڈور الجھ جاتی ہے تو پورا پِنا پھینک دیا جاتا ہے‘ ہم الجھے ہوئے سسٹم کی الجھی ہوئی ڈور ہیں‘ اگر ہماری ایک آدھ نسل اس الجھاؤ کو ختم کرنے میں ضائع بھی ہو جائے تو ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے‘ ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے‘‘۔میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ پر کوئی دباؤ ہے‘‘ چیف جسٹس نے قسم کھائی اور کہا ’’مجھے آج تک کسی شخص‘ کسی طاقت نے کسی فیصلے کے لیے اپروچ نہیں کیا‘ کوئی یہ ہمت بھی نہیں کرے گا اور اگر کسی نے کبھی یہ جرات کی تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا‘‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن پھر عدالتوں کے فیصلے کنٹروورشل کیوں ہو رہے ہیں‘ میاں نواز شریف آپ سے بار بار کیوں پوچھ رہے ہیں‘ مجھے کیوں نکالا‘‘۔چیف جسٹس نے پوری سنجیدگی سے جواب دیا ’’دنیا کا ہر شخص ہر عدالتی فیصلے پر اعتراض کر سکتا ہے لیکن کسی شخص کو ملک کے کسی ادارے کی بے عزتی کا حق حاصل نہیں‘ آپ کو صدر بش اور الگور کا الیکشن یاد ہو گا‘ امریکا کی سپریم کورٹ نے 2001ء میں صدر بش کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا‘ یہ فیصلہ آج تک کنٹروورشل ہے۔قانون کے ماہرین اور ججز آج بھی کہتے ہیں‘ ہمیں فیصلے سے پہلے فلاں ثبوت بھی دیکھنا چاہیے تھا‘ ہمیں فلاں نقطے پر بھی توجہ دینی چاہیے لیکن الگور نے نہ صرف وہ فیصلہ قبول کیا بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر چلا گیا‘ اس نے اپنے سیاسی کیریئر کی قربانی دے دی لیکن سپریم کورٹ کی حرمت پر حرف نہیں آنے دیا‘ وہ بھی جلسے کر سکتا تھا‘ وہ بھی سپریم کورٹ کے خلاف عوامی ریفرنڈم کرا سکتا تھا اور وہ بھی عوام سے پوچھ سکتا تھا کیا تم سپریم کورٹ کے خلاف میرا ساتھ دو گے مگر اس نے لیڈر ہونے کا حق ادا کر دیا‘ وہ چپ چاپ گھر چلا گیا اور پارٹی نے نیا لیڈر چن لیا‘ آپ ہمارے فیصلوں پر اعتراض کریں‘ یہ آپ کا حق ہے لیکن آپ ادارے کی بے عزتی نہیں کر سکتے‘ آپ کو کوئی قانون‘ کوئی ضابطہ سپریم کورٹ کے خلاف کمپین کی اجازت نہیں دیتا‘ یہ زیادتی ہے‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’میاں نواز شریف کا کیا مستقبل ہے؟‘‘ چیف جسٹس نے جواب دیا ’’میاں صاحب جانیں اور احتساب عدالت جانے‘ یہ وہاں خود کو بے گناہ ثابت کردیں‘ ان کے ساتھ انصاف ہو گا‘‘ میں نے پوچھا ’’سر آپ کرنا کیا چاہتے ہیں۔آپ کا گول کیا ہے؟‘‘ وہ فوراً بولے ’’میں فری اینڈ فیئر الیکشن کرانا چاہتا ہوں اور اکراس دی بورڈ احتساب چاہتا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’کیا آپ یہ کر لیں گے‘‘ انھوں نے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا ’’سو فیصد‘ میں ملک میں ایک بار سو فیصد فری اینڈ فیئر الیکشن کرا دوں گا‘ میں الیکشن کمیشن سے ملتا رہتا ہوں‘ میں ان سے بھی کہتا رہتا ہوں آئیے ہم کم از کم ایک بار یہ شکوہ دور کر دیں پاکستان میں شفاف اور آزاد الیکشن نہیں ہو سکتے‘ ہم سو فیصد آزاد اور شفاف الیکشن کرائیں گے‘ تمام پارٹیوں کو برابر موقع ملے گا‘ جو جیت جائے گا وہ حکومت بنائے گا تاہم الیکشن میں چند رکاوٹیں ضرور موجود ہیں‘ حلقہ بندیوں کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا‘ مجھے خطرہ ہے یہ ذمہ داری اگر نگران حکومت کے کندھوں پر آ گئی تو ایک بار پھر نظریہ ضرورت زندہ ہو جائے گا اور یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔میری خواہش ہے حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے یہ مسئلہ حل کر لے تاکہ الیکشن میں تاخیر نہ ہو‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن سر احتساب الیکشن سے پہلے ہو گا یا بعد میں‘‘ وہ بولے ’’یہ ایک مشکل سوال ہے‘ میں سردست اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا لیکن آپ یہ بات نوٹ کر لیں ملک میں جب بھی احتساب ہو گا غیرجانبدار ہو گا‘ یہ نہیں ہو سکتا ہم ایک پارٹی کو پکڑ لیں اور دوسری پارٹیوں کو چھوڑ دیں‘ حساب ہو گا تو سب کا ہو گا‘ جواب دیں گے تو سب دیں گے‘‘۔میں نے عرض کیا ’’اور آپ الیکشن کے بعد کیا دیکھ رہے ہیں‘‘ چیف جسٹس نے بڑی دل سوزی سے جواب دیا ’’کاش اللہ تعالیٰ اس ملک کو حضرت عمر فاروقؓ جیسا کوئی حکمران دے دے، وہ اپنے کندھوں کا سارا بوجھ اتار کر اقتدار میں آئے، زمین پر بیٹھ جائے اور ستر برسوں سے ترسے ہوئے لوگوں کا ہاتھ تھام لے‘ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ مجھے ایسے فیصلوں کی توفیق دے دے جن کے نتیجے میں کوئی نیک‘ ایماندار اور کمپی ٹینٹ شخص سامنے آ جائے‘ یہ ملک واقعی ملک بن جائے‘‘۔میں نے آخر میں اجازت مانگی‘ چیف جسٹس صاحب نے کہا ’’ آپ پہلے اور شاید آخری صحافی ہیں جس سے میں مل رہا ہوں‘ آپ بس یہ یاد رکھئے گا‘ یہ میرا ملک ہے‘ میں اور میرے بچوں نے یہاں رہنا ہے‘ میرا ایجنڈا صرف اور صرف پاکستان ہے‘ میں پاکستان پر کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا‘ میں آج کے بجائے تاریخ میں زندہ رہنا چاہوں گا‘ میں پیچھے نہیں ہٹوں گا اور اگر میں ہٹا تو آپ مجھے میرے یہ الفاظ یاد کرا دیجیے گا‘ میں آپ اور پوری قوم کا مجرم ہوں گا‘‘۔