ترقی یافتہ ممالک میںجیلیں’’ بگڑے بچوں‘‘ کی اصلا ح اور جرائم کی بیخ کنی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں صورت حال اس کےقطعی برعکس ہے۔ہمارے ملک کی جیلیں قیدیوں کے ذہنوں میں مثبت تبدیلی لانے کی بجائے جرائم کی نرسریاںاورمجرموںکی پرورش گاہیں بن گئی ہیں۔
کراچی میں واقع دو جیلیں،سینٹرل جیل اور لانڈھی جیل ، جو ’’بچہ جیل‘‘ کے نام سے معروف ہے،وہاں قیدیوں کو منشیات کا عادی بنانے سے لے کر انہیں فروخت کرنے تک کی سہولت موجود ہے۔ ان جیلوںمیں رشوت اوراقرباء پروری کا دور دورہ ہے۔ بااثر شخصیات کی پشت پناہی اور جیل حکام کو مالی نذرانےپیش کرنے والےسنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کومبینہ طور سے ہر قسم کی سہولتیں و مراعات دی جاتی ہیں ۔
ان کے مقابلے میں غریب اور کسی بڑی شخصیت تک رسائی نہ رکھنے والے معمولی جرم میں ملوث قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ ان سے خدمت گار، جاروب کشی، باتھ رومز کی صفائی اور دیگر مشقتیں لی جاتی ہیں۔
سندھ کی تمام جیلوں میں انتظامی امور ایک ہی مافیا کے زیرکنٹرول ہے جس کے باعث تمام جیلوں کے حکام کا آپس میں مضبوط رشتہ استوار ہے۔ اگر کوئی ایمان دار افسر جیل کے معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ مافیا اس پر عرصہ حیات تنگ کردیتی ہے اور اس کے لیے اس قسم کے حالات پیدا کردیتی ہے کہ وہ اپنا تبادلہ کرانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔جیلوں میں قیدیوں پر، تشددکے واقعات ،منشیات فروشی ،سیاسی اثررسوخ ،جیسی اطلاعات زبان زد عام ہیں۔
کراچی سینٹرل جیل کے ذرائع کے مطابق، یہاں گزشتہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جیل حکام کی صورت میں انتہائی طاقتور مافیا کا راج ہے ۔ گزشتہ دنوں ڈیفنس کے علاقے میں کارروائی کے دوران پولیس نے عدیل نامی ملزم کو گرفتار کیا جو آئس کے نشے کی لت میں مبتلاہونے کےعلاوہ اس کی خرید و فروخت کے کاروبار میں بھی ملوث تھا۔
اونچے طبقے کے رہائشی علاقے میں اس نشے کو فروغ دینے میں اس نوجوان کا بہت گھناؤنا کردار ہے اور بے شمار لڑکے اور لڑکیاں اس آئس کےنشے کی لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
عدیل جب گرفتار ہوا تو اس نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ اسے اس نشے کی لت سینٹرل جیل میں اس وقت لگی جب وہ پہلی مرتبہ گرفتار ہوکر یہاں آیاتھا۔ رہائی کے بعد سے وہ جیل میں موجود مافیا کے توسط سے طویل عرصے سے یہ کاروبار کررہا تھا، لیکن اب پکڑا گیا ۔
ایک سرکاری رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ کراچی کی دو جیلوں میں سندھ کی دیگر 25 جیلوں کے مقابلے میں گنجائش سے 3 گنا زائدقیدی ہیں۔یہ رپورٹ محکمہ جیل کے حکام نے مرتب کرکےصوبائی وزارت داخلہ کو بھیجی تھی۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل، حیدرآباد کی جیل کے بعد صوبے کی دوسری قدیم ترین جیل ہے، جو 1899 میں تعمیر کی گئی تھی۔
اس میںصرف 2400 قیدیوں کے رکھنے کی گنجائش ہے لیکن اس وقت یہاں6174 قیدی موجود ہیں ۔اس جیل میں 1156 سنگین مجرم ،012 1عام مجرم اور 144 سزائے موت کے قیدی اور 4975 کا ٹرائل جاری ہے ۔اسی طرح ضلع ملیر کی لانڈھی جیل میں 4278 قیدی موجود ہیں جب کہ یہاں 1600 افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ اس جیل میں غیر ملکی قیدیوں کی تعداد سندھ کی دیگر جیلوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہےکیوں کہ یہاں پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی ماہی گیروں کو رکھا جاتا ہے۔
اسی طرح کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں قائم خواتین کی 4 جیلوں میں گنجائش سے کم قیدی موجود ہیں۔ سندھ کی مختلف جیلوں میں قیدی رکھنے کی مجموعی گنجائش 12245 ہے تاہم یہاں 20308 قیدی موجود ہیں، جن میں 4255 مجرم، 489 سزائے موت کے قیدی، 15615 ایسے قیدی جن کا ٹرائل جاری ہے اور 429 جیودیشل ریمانڈ پر ہیں۔
ملیر جیل اور سینٹرل جیل جہاں بغیر اثر ورسوخ کے قیدی اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں، وہیں بااثر قیدی شاہانہ طریقے سے رہ رہے ہیں۔اس کی مثال اس وقت سامنے آئی جب ایک رپورٹ میںعدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ بعض اثر و رسوخ کے حامل قیدی، جیل میں کم اورشہر کے سرکاری ونجی اسپتالوں میں زیادہ رہتے ہیں ،جس پر سپریم کورٹ کے احکامات پر،شرجیل انعام میمن ،شاہ رخ جتوئی سمیت دیگرکئی بااثرملزمان کو اسپتالوں سے ڈسچارج کراکے،جیل بھیج دیا گیا۔
جیل مینوئل کے مطابق بیماری کے دوران قیدی کا صرف سول اسپتال میں ہی علاج ہونا چاہیےبلکہ ان کی بیماری کی روزانہ کی رپورٹس عدالتوں میں پیش ہونا لازمی ہے،لیکن ان قیدیوں کے بارے میں عدلیہ کو لاعلم رکھا جاتا ہے۔
اسپتالوں سے واپس جیل بھیجنے کے بعد بھی ان ملزمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ سیاسی دباؤ اوربھاری رقوم کے عوض جیل میں بھی انہیں وی آئی پی سہولتیں حاصل ہیں۔ ان کی بیرکس علیحدہ ہیں جن میں موبائل فون ،ایئرکنڈیشن، ٹیلی ویژن،کمپیوٹر،،فریج سمیت تمام جدید سہولتیں میسر ہیں ۔
جیل اہل کاروں کی فرمائش پررقوم کا بندوبست نہ کرنے والے قیدیوں کی حالت زار انتہائی ابتر ہے۔بیماری کی صورت میں جیل میں موجود اسپتال میں زائدالمیعاد ادویہ ، ناقص علاج اورطبی عملے کی جانب سےمناسب توجہ نہ ملنےکے باعث گزشتہ دو برس کے عرصےمیںتقریباً 36 قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔جیلوں کو صحیح معنوں میں اصلاح خانے بنانے کے لیے جیل مینوئیل میں اصلاحات کی ضرورت ہے جو صرف عدالت عظمیٰ کے احکامات سے ہی ممکن ہو سکتی ہیں۔