• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:قاری عبدالرشید…اولڈہم
23 مارچ کی تاریخ ہر سال تحریک قیام پاکستان کے حوالے سے بڑی یادیں ساتھ لے کر آتی ہے،لاہور کے اقبال پارک میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع میں شیر بنگال مولوی فضل الحق مرحوم نے تقسیم ہند کی جو قرارداد پیش کی وہ 23 مارچ 1940کا دن تھا،یہی قرار داد آگے چل کر قرارداد پاکستان کہلوائی اور اسی کی یاد میں ہر سال پاکستان میں 23 مارچ کا دن سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے،اس قرارداد کی منظوری نے برصغیر کے مسلمانوں کی منزل کا تعین کردیا ،اور سات سال کے مختصر عرصے میں پاکستان ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے 'منصئہ شہود 'پر جلوہ گر ہو گیا، 1940سے 1947تک کا دور تحریک قیام پاکستان کا حتمی اور فیصلہ کن دور ضرور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کو صرف ان سات سال کے عرصے میں پیش نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ تحریک صدیوں پر محیط نظر آتی ہے، تاریخ کے اوراق پلٹیں تو نظر آئے گا کہ اس کی جڑیں بڑی ہی گہری تھیں اور معلوم ہو گا کہ اس کا آغاز تو برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا،مسلمانوں نے آکر اسلام کا عادلانہ نظام متعارف کروایا ،اپنی ثقافت سامنے لائے، اعلی اخلاق و کردار کا بہترین نمونہ بن کر زندگی گزاری جس کی بدولت لوگوں کے سینے 'نورایمان سے روشن ہو گئے،نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی بےجان تہذیبیں اسلامی تہذیب و تمدن کے آگے ڈھیر ہوتی چلی گئیں،پھر ایک وقت وہ آگیا کہ پورے برصغیر میں ’’اسلام‘‘ کی شمع روشن ہو گئی اور لوگوں کے بے نور سینے 'نور اسلام 'سے جگمگا اٹھے، اب جن شخصیات کے وجود بامسعود سے یہ سب کچھ ممکن ہوا ان کا ذکر نہ کرنا محسن کشی کے زمرے میں آتا ہے، ہم 712ء میں محمد بن قاسمؒ کی آمد اور ان کے ہاتھوں راجہ داہر کی شکست فاش کے بعد سندھ کا باب الاسلام کہلوانا اس کو قیام پاکستان کی بنیاد کی پہلی اینٹ قرار دیں تو حق ہو گا، پھر سلطان محمود غزنویؒ اور شہاب الدین غوریؒ، شیخ احمد مجدد الف ثانیؒ،شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، شاہ عبدالعزیزؒ ،شاہ احمد شھیدؒ بریلوی،شاہ محمد اسماعیل شہیدؒاسی طرح دوسرے اکابرین کی خدمات تھیں جواس عمارت کی تعمیر میں اپنے اپنے وقت میں وافرحصہ ڈالتے رہےاور عمارت (پاکستان )کی بنیادیں مضبوط تر ہوتی چلی گئیں، یہاں تک کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر پھر ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ انگلستان کا گورنر جنرل 1857کی جنگ سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیتا ہے کہ ہمارے 'مخالف اصل مسلمان ہیں 'اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا اپنے مذہب اور اس کی تعلیم کے ساتھ مضبوط تعلق تھا، اب مسلمانوں کو اس مخالفت سے روکنے کیلئے ایک نظام تعلیم مرتب کر دیا جاتا ہے،جس کا مقصدلارڈ میکالےکے نزدیک یہ قرار پاتا ہے کہ اس تعلیم کے ذریعے سےایسی جماعت تیار کی جائے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر فکر و عمل کے اعتبار سے انگلستانی(عیسائی )ہو، ہندوستان پر قبضے کے بعد یورپ کا سکولی نظام بڑے بڑے شہروں تک پھیل چکا تھا،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے علاج باالمثل کے طور پر قاسم العلوم و الخیرات،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ میدان عمل میں کود جاتے ہیں اور دیوبند کی بستی میں ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھتے ہیں یہی دارالعلوم آگے جا کر 'دارالعلوم دیوبندکے نام سے چہاردانگ عالم میں جانا جاتا ہے،اب اس دارالعلوم کی تعلیم کا مقصد مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہےکہ 'جو رنگ ونسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر دل و دماغ کے لحاظ سےوہ اسلامی ہوں ،اب آپ تحریک پاکستان کو 712ء سے لے کر 1940کے عرصے میں دیکھیں اور غور کریں تو ہندوستان میں اسلام کی بقااور مسلم نشاۃ ثانیہ کی بنیاد جب رکھی گئی تو اس میں مسلمانوں کے قائدین علمائے کرام کے کردار کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی خدمات چڑھتے سورج سے زیادہ روشن و تابناک دکھائی دیں گی۔ہندوستان کے مسلمانوں نے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر جب اپنے لئے علیحدہ وطن کی تحریک شروع کی تو اس تحریک قیام پاکستان میں دارالعلوم دیوبند سے فیض حاصل کرنے والے سپوتوں نے کیا کردار ادا کیا اور کیسی والہانہ خدمات سرانجام دیں،ان کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں، 1945کو شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے دارالعلوم دیوبند میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ میری صحت مجھے مزید سیاسی کام جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن اسلامیان ہند کیلئے علیحدہ وطن کی تحریک سے علیحدہ رہنا میرے لئے ممکن نہیں اگر پاکستان کے حصول کیلئے مجھے اپنا خون بھی دینا پڑا تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا، علماء دیوبند کا پاکستان کے ساتھ اخلاص کا یہی وہ جذبہ صادق تھا جو کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒپر واضح تھاجس کی بدولت پاکستان کیلئے علماء دیوبند کی خدمات کے اعتراف میں ان کا حق سمجھتے ہوئے جب پاکستان بن گیا اور اس کی پہلی پرچم کشائی کا جب مرحلہ آیا تو ڈھاکہ میں علماء دیوبند کے چشم و چراغ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور کراچی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کی پرچم کشائی کروائی گئی ، قائد اعظم نے اس تعلق اور اعتماد کو مزید تقویت یوں پہنچائی کہ جب قائد اعظم بیمار ہوئے تو اپنا جنازہ پڑھانے کی وصیت جس شخصیت کیلئے کی ان کا نام نامی اسم گرامی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ہے،کیا اب وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم نیا پاکستان نہیں بلکہ وہی پرانا پاکستان جس کا مطالبہ 23 مارچ 1949ء کی قرار داد میں کیا گیا تھا وہ قوم کے حوالے کرکے اللہ تعالی اور شہدا تحریک پاکستان کے آگے سرخرو ہو جائیں ،نظریہ پاکستان نفاذ اسلام کا تحفظ کرنے والی دینی جماعتوں کو بھی اب اختیار کے ساتھ اقتدار دے کر آزمانا چاہئے۔
تازہ ترین