• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرحدی تجارتی معاہدے کی آڑ میں دیگر بھارتی سامان بھی لائے جانے کا انکشاف

اسلام آباد (مہتاب حیدر)پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی کے ذریعے سرحدی تجارتی معاہدے کی آڑ میں پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ دیگر سامان کی اسمگلنگ کا بھی انکشاف ہوا ہے،تفصیلات کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی کے ذریعے سرحد پار تجارت کی آڑ میں کشمیر کے دونوں طرف اربوں روپے کے پھل ،سبزیاں اور کئی دیگر اشیا ملک کی تمام مارکیٹوں میں ٹیکس اور ڈیوٹی کے بغیر ہی غیر قانونی طریقے سے پہنچائی جارہی ہیں۔حال ہی میں پاکستانی مارکیٹوں میں بھارتی کیلا وافر مقدار میں آیا ہے لیکن حالیہ طور پر ہی 6 باتیں ایسی معلوم ہوئی ہیں کہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کچھ نقصانات ہیں جس کے باعث اس پر ملک میں پابندی ہونی چاہیے ۔تازہ پیشرفت میں شعبہ پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی )نے حال ہی میں پاکستان کسٹم کو 14 مارچ 2018 کو ایک خط میں لکھ کر بتایا کہ پاکستان میں ایل او سی تجارت کے ذریعے لائے جانے والے پھلوں اور سبزیوں میں بائیو سیکیو رٹی رسک موجود ہے ۔اس لیے پاکستان کو 34(a)کسٹم جنرل آرڈر سی جی او 2002/12کے تحت ختم کرنا چاہیے۔وزارت تجارت سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ پاکستان اور بھارت نے کشمیر کے دونوں طرف مقامیوں کے فائدے کیلئے ایل او سی پر سرحد پار تجارت کیلئے اتفاق کیا تھا اور ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ کشمیر کے دونوں طرف سے پھلوں اور سبزیوں کو لین دین کے نظام کے تحت ڈیوٹی فری کی اجازت دی جائیگی ۔اس معاہدے کے تحت بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر جبکہ پاکستان کے آزاد جموں و کشمیر سے پھلوں اور سبزیوں کے صرف28 آئٹمز کی اجازت ہے۔حکام کاکہنا ہے کہ اس کے غلط استعمال سے پاکستان کی تمام مارکیٹوں میں ڈیوٹی اور ٹیکسوں کے بغیر بھارتی سامان کی اسمگلنگ کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے اور ہماری مقامی مارکیٹوں میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے ۔کسٹم حکام کے مطابق اس لین دین کے تجارتی معاہدے کا مقصد کشمیر کے دونوں اطراف لوگوں کو فائدہ پہنچانا تھا لیکن اب یہ سالانہ بنیادوں پر اربوں روپے کے سامان کی اسمگلنگ کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے ۔کسٹم افسر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کبھی ہم اس بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو سڑکوں کو بلاک کرکے امن و امان کی صورتحال خراب کردی جاتی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی چیز واہگہ بارڈ یا سمندری راستے سے ٹیکس اور ڈیوٹی ادائیگی کرکے لائی جائے تو کسٹمز کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔حکام کاکہنا تھا کہ اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ اس سے قومی خزانے کو بڑانقصان پہنچ رہا ہےاور اس سے ملک میں صحت کو بھی نقصان ہے کہ جیسے پاکستان میں بھارت سے پہنچنے والے پھلوں اور سبزیوں کے مختلف آئٹمز میں بائیو رسک پایاگیا اس لیے اس پر فوری پابندی لگنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی کپڑے ،کچھ ادویات اور کئی دوسرے آئٹمز ایل او سی کے ذریعے پاکستان میں آرہے ہیں،اس لیے یہ سچ نہیں کہ صرف پھل اور سبزیاں اس راستے سے ملک میں لائی جارہی ہیں ۔

تازہ ترین