• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردن میں ایک ہفتہ

پچھلے ہفتے راقم کو اردن کے شہر عمان میں ایک علمی کانفرنس برٹش کیمبرج سسٹم پاکستان جو سال میں کئی مرتبہ پاکستان کے بجائے دیگر ممالک میں منعقد کرتی ہے اور پاکستان میں اس سسٹم سے منسلک بہت سے کیمبرج اسکول باہر جاکر شرکت کرتے ہی ۔ہمارا تعلیمی ادارہ کے این اکیڈمی تقریباً ہر کانفرنس میں نہ صرف شرکت کرتے ہیں،بلکہ بہت سی اضافی تعلیمی معلومات بھی دیگر ممالک سے آئے ہوئے اسکولوں کے مندوبین سے شیئر کرتا ہے ۔پاکستان کے حالات کے پیش نظر بہت سے ممالک کے مندوبین پاکستان آنے سے کتراتے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان میں قائم برٹش ایمبسی اپنے پاکستانی اسکولوں کو دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین سے نہ صرف تعلیمی معلومات شیئر کراتی ہے بلکہ ان مندوبین کے ویزوں ،قیام ،لیکچروں کا بندوبست بھی کرتی ہے تاکہ دنیا بھر کے تعلیمی اسٹینڈرڈ سے کسی طرح بھی پاکستان پیچھے نہ رہے ۔یاد رہے ایک زمانے تک اردن خلیجی ممالک میں سب سے پسماندہ ملکوں میں شمار ہوتا تھا ۔وہاں بھی دیگر خلیجی ممالک کی اکثریت کی طرح بادشاہت کا نظام رائج تھا ۔اردن کے بادشاہ شاہ حسین نصف صدی تک وہاں کے سیاہ وسفید کے مالک تھے ۔ضیاء الحق مرحوم جب بریگیڈیئر تھے اور اردن میں تعینات تھے تو اُن کی سربراہی میں موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد مرحوم خاقان عباسی صاحب کے پلان کے مطابق اردن کافوجی اور سول ایئر پورٹ بنایا گیا تھا ۔قوم کی معلومات کے لئےبتاتا چلوں۔ مرحوم ایوب خان کے دور میں شاہ حسین کے چھوٹے بھائی ولی عہد حسن کی شادی ہمارے بیوروکریٹ کی صاحبزادی ثروت اکرام اللہ سے ہوئی تھی۔ بعد میں شاہ حسین نے ولی عہد حسن کو ہٹاکر اپنے بیٹے شہزادہ عبداللہ کو ولی عہد نامزد کردیا ۔ان کے انتقال کے بعد سے شاہ عبد اللہ اردن کے بادشاہ بن کر اپنےعوام کی فلاح و بہبود کے لئے دن رات کام کررہے ہیں ۔چونکہ شاہ عبداللہ نے تمام تعلیم امریکہ میں حاصل کی تھی ۔اسلئے ان کا رجحان بھی امریکی تعلیم کی طرف ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جرمن، برٹش نظام تعلیم بھی ساتھ ساتھ اردن میں رائج ہے ۔اس وقت تعلیم کے معاملے میں اردن دیگر خلیجی ممالک سے جو بہت امیر کبیر ہیں سے بہت آگے ہے ۔یہاں تک کہ پڑوسی خلیجی ممالک کے طلباء اضافی تعلیم کے لئے اردن کا رُخ کرتے ہیں ۔تقریباً 25سال بعد جب اردن جانے کا اتفاق ہوا آج وہ تعلیم کے معاملے میں ہم سے بہت آگے جاچکا ہے ۔ عمان یونیورسٹی اور اُس کے کورس دیکھ کر بڑا رشک آیا۔بڑی بڑی عمارتوں میں ہر ملک کی تعلیمی یونیورسٹیاں بھری پڑی ہیں ۔اردن کی مادری زبان تو عربی ہے مگر وہاں کثرت سے انگریزی اور فرانسیسی بولی جاتی ہے۔وہاںنہ تیل ہے نہ گیس جو عرب ممالک سے خصوصاً عراق سے لیتے ہیں ۔مگر اب اُس کے اسرائیل کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہوچکے ہیں ۔ایک نیا معاہدہ تیل اور گیس کا اسرائیل سے ہوچکا ہے ۔چاردن کے قیام کے دوران ہمارا دریائے اُردن جس کو بحرمردار (Dead Sea) بھی کہتے ہیں جانا ہوا ، اُس کی مٹی بھی بدن پر ملی۔ جس سے بقول اردن عوام کے کہ اس چکنی مٹی میں گندھک ملی ہوئی ہے ۔جسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں وہ دریا میں بیٹھتے ہیں۔ سمندر ساکن ہے کوئی ڈوب نہیں سکتا ہر سال لاکھوں سیاح یہاں آتے ہیں ۔اور اس سمندری مٹی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ اس سمندر کے دوسری طرف اسرائیل ہے جس کو عراق ،شام ،اُردن سمیت لبنان اور مصر نے تسلیم کرلیا ہے ۔حالات بتاتے ہیں کہ بہت جلد سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلینگے۔ اُردن کے شہروں میں سینکڑوں صحابہ کرامؓ مدفون ہیں جن میں سپہ سالار حضرت عبیدہ بن جراحؓ حضرت معاذ بن جبلؓ اور ان کے صاحبزادے کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں ۔ راقم نے فاتحہ خوانی کی، قبروں سے خوشبو آرہی تھی جو ایک معجزہ تھی ۔یہ اصحاب کرام اُس زمانے میں طاعون کی وبا کے سبب انتقال کرگئے تھے ۔اردن میں اس وقت فلسطین ،شام ،لبنان کے مہاجرین اکثریت سے آباد ہیں۔ اردنی حکومت نے ان کو اقامے بھی دے دیئے ہیں تاکہ وہ نوکریاں اور کاروبار کرسکیں ۔حکومت بنیادی تعلیم اور علاج معالجہ کی مفت سہولت دیتی ہے۔یہاں اصحاب کہف کا غار بھی ہے اور ٹوٹی پھوٹی شداد کی جنت کے بھی آثار پائے جاتے ہیں ۔ایک بہت بڑی پہاڑی پر فاتح فلسطین سلطان صلاح الدین ایوبی کافوجی قلعہ بھی ہے جو فلسطین کی حفاظت کے لئے انہوں نے بنوایا تھا تاکہ بیرونی حملوں سے محفوظ رہیں ۔یہاں حضرت خضرکی مسجد بھی ہے ۔عوام کا خیال ہے کہ وہ بہاں کہیں مد فون ہیں ۔ایک اہم ذریعہ معاش کھیتی باڑی کا نظام ہے جہاں اسرائیل کی طرح قطرے قطرے پانی سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔ہماری طرح کھیتوں میں پانی نہیں چھوڑا جاتا بلکہ قطرہ قطرہ پانی دینے کے لئے پائپ لائنوں میں باریک سوراخ ہوتا ہے جس سے 95فیصد پانی کی بچت ہوجاتی ہے اسرائیل اور اردنی افراد اس دریائے مردار کے کناروں سے ایک دوسرے کے ملک میں آجاسکتے ہیں۔ ۔صرف ایک باڑ کی بارڈر ہے جو اردن اور فلسطین کو جُدا کرتی ہے ۔اکثر اردنی مسلمان اسرائیل کی مقبوضہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھنے جاتے ہیں۔جوایک گھنٹے کی مسافت کے فاصلے پر واقع ہے ۔فلسطینی مسلمان صرف جمعہ پڑھنے جاسکتے ہیں وہ بھی بوڑھے مرد اور عورتوں کو اجازت ہے ۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے ۔لہذا جگہ جگہ بڑی بڑی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں تاکہ فلسطینی آجانہ سکیں ۔سیاحوں کے لئے حکومت نے بہت مقامات اور خوبصورت پہاڑی سلسلے بنارکھے ہیں علاقہ پطرہ بھی بہت خوبصور ت دلکش بنا رکھا ہے۔ایک چھوٹی پہاڑی پر حضرت موسی کی قبر بھی ہے ۔ سبزیاں ،فروٹ اور سیاح اردن کا ذریعہ آمدنی ہیں ۔بڑے بڑے اسپتال اور میڈیکل کالجوں کی بھی بھر مار ہے ۔خصوصاً عراق اور خلیجی ممالک میں کثرت سے ادویات ایکسپورٹ کی جاتی ہیں ۔بادشاہت کے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی ہے ۔عوامی پارلیمنٹ بھی ہے جو عوام کی بھلائی کے لئے بہت کام کرتی ہے ۔البتہ بادشاہ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے ۔سعودیہ کی طرح دیگر شہزادے حکومت کا حصہ نہیں ہوسکتے وہ صرف کوئی فلاحی ادارہ یا کاروباری ادارہ چلاسکتے ہیں ۔موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے سردیوں میں برف باری بھی ہوتی ہے ۔گرمی زیادہ نہیں پڑتی اور بارش بھی بہت ہوتی ہے ۔جس سے پورا ملک ہرا بھرا رہتا ہے ۔کھانے وہی عربوں کی طرح ہیں ۔عمان شہر میں 5اسٹار ہوٹلوں اور مالز بھرے پڑے ہیں ۔غیرملکی سیاحوں سے چالیس دینار وصول کئے جاتے ہیںجو ڈالر اور پونڈسے بھی زیادہ مہنگاسکہ ہے پھر بھی سیاحوں سے ہوٹل ،ریسٹورنٹ سارا سال بھرے رہتے ہیں ۔پولیس ہر بڑے علاقے شروع ہونے سے پہلے کیمپ میں نظر آتی ہے ۔ملک میں پوری طرح امن وامان ہے لہذا سیاح آسانی سے گھوم پھرسکتے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین