چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے نوجوان کومبینہ جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقابلے میں شریک تمام پولیس اہلکاروں کو طلب کر لیا اورنوجوان کی والدہ کو مفت قانونی امداد دینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پولیس کب تک ماؤں کی گودیں اجاڑتی رہے گی۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے لاہور رجسٹری میں ہفتہ وار چھٹی کے باوجود عدالتی کارروائی کی، چیف جسٹس نے بیگم کوٹ کی رہائشی صغریٰ بی بی کی فریاد پر ان کے18سالہ بیٹے کی پولیس مقابلےمیں ہلاکت کا نوٹس لیا۔
خاتون نے روتے ہوئے عدالت کو بتایاکہ ان کے گھر پر قبضہ کرانے کے لیے پولیس نے ان کا18 سال کا بیٹا مار دیا، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر شاہ نے بتایا کہ مقابلے کی2 جوڈیشل انکوائریاں ہو چکی ہیں، پہلی انکوائری میں خاتون کے پیش نہ ہونے پر یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا ،تاہم سیشن جج کے حکم پر دوسری جوڈیشل انکوائری کی گئی جو خاتون کے حق میں آئی ۔
عدالت نے خاتون کو قانونی امداد دینے کے لیے بیرسٹر سلمان صفدر کو وکیل مقرر کر دیا اورایڈیشنل آئی جی ابو بکر خدا بخش کو معاونت کے لیے طلب کر تےہوئےخاتون کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے ملزموں کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ کا لائسنس نہ ہونے پر دلائل دینے سے روک دیا اور مزید کارروائی 7 اپریل تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے قصور کےقصبے چونیاں میں پولیس مقابلےمیں ارسلان شاہد نامی نوجوان کی ہلاکت کی جوڈیشل تحقیقات کابھی حکم دے دیااور سیشن جج قصور کو تحقیقات کرکے7اپریل کورپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
ارسلان شاہدکی والدہ نے بتایا کہ 2017ءمیں اس کے بیٹے کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔