نئی ریلیز ہونے والی پاکستانی اینیمیٹڈ فلم’’ٹِک ٹاک‘‘ کی سب سے بڑی’’کام یابی‘‘ یہ ہے کہ جو اس فلم کو مکمل دیکھ کر اٹھتا ہے، وہ فلم ختم ہوتے ہی’’ٹِک ٹاک ‘‘ کی ڈیمانڈ کرتا ہے تاکہ وہ دو یا تین گھنٹے ریوائنڈ جا کراپنا ماضی سدھار لے اور ٹکٹ کے پیسے بچالے اور کچھ بھی کرے، لیکن یہ فلم دیکھنے کی غلطی نہ کرے۔
کچھ سمجھ میں آیا!نہیں نا تو یہی آپ کا حال فلم دیکھ کر ہوگا۔فلم کی کہانی کیا ہے ؟غالباَ یہ سمجھنے کے لیے’’ ٹائم مشین‘‘ استعمال کر کے سالوں پہلے سے آئن اسٹائن یا نیوٹن کو بلانا ہوگا یا فلم اگر ایک مہینے پہلے ریلیز ہوجاتی تو ’’اسٹیفن ہاکنگ‘‘ پر دنیا کے مزید اسرار و رموز کھل جاتے۔
خیر ابھی بھی اس فلم کی مدد سے ’’سی ایس ایس‘‘ کرنے والوں کا امتحان لیا جاسکتا ہے اور جس کے 100میں سے33نمبر بھی آجائیں وہ پاس ۔ فلم کی کہانی کو سمجھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے۔ ہفتے کی دوپہر کراچی کے بڑے سینما میں ہمارے علاوہ پانچ یا غالبا چھ لوگ اور تھے ، لیکن وہ بچے اور بڑے اچھے خاصے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود سر کھجاتے رہے ۔ ہماری ناقص رائے میں اس فلم کے اسکرپٹ کے ساتھ اِس وقت ہالی وڈ کے اسپیلبرگ یا جیمز کیمرون بھی شاید انصاف کرنے میں ناکام ہوجائیں۔ فلم کی کہانی میں پاکستان ، تقسیم سے پہلے کا برٹش انڈیا اور 19ویں صدی کا برطانیہ ہے۔
کہانی میں کیوں کہ ’’سسپنس‘‘ اور ’’ٹوئسٹ ‘‘بھی ہیں، انھیں چھوڑ کر فلم کی’’ کہانی‘‘ سمجھانے کی’’ کوشش‘‘ کرتے ہیں، لیکن اس کوشش میں ’’غلطیوں‘‘ کی گنجائش کا فی حد تک موجود ہے۔ کہانی 2017کراچی سے شروع ہوتی ہے، جب اسکول کے دو بچے دانیہ اور احسن غلطی سے ’’ ٹائم مشین‘‘ میں داخل ہوجاتے ہیں، اس کے بعد وہ 1940 کے لاہور،1978کے کراچی پھر اچانک1965 پھر کچھ ہی منٹ میں 1966کے کراچی، اس کے بعد ایک لمبی الٹی قلابازی جو دونوں کو 1894میں لے جاتی ہے، یہاں سے فلم کے سارے کردار1998کے چاغی چلے جاتے ہیں جہاں وہ ’’ٹائم لوپ ‘‘ میں پھنس جاتے ہیں۔
ارے یہی نہیں ابھی 2082کا سفر باقی ہے ، جس کے بعد پھر 2017 کا لاہور اور دی اینڈ ایک نئے زمانے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس دوران ٹائم مشین کی اس کہانی میں ٹائم ماسٹر،ٹائم لوپ، ٹائم لائن ،اور ٹائم بیم کی سوئیوں کی ٹک ٹاک سر چکرا دیتی ہے، یہی نہیں ڈی این اے اور کلوننگ بھی آپ کا امتحان لیتی ہے۔
فلم دیکھنے والوں بچوں اور بڑوں کو پاکستان کی تاریخ کے کچھ واقعات اور ہیروز سے ملوانے کی کوشش بھی ہے ، یقینا اس کوشش کے پیچھے نیت پر کسی کو شک نہیں، لیکن کہانی اسکرپٹ اوراسکرین پلے سمجھ سے باہراوپر سے ٹریٹمنٹ اور اینمیشن کا معیار نہ ہونے کی وجہ سے فلم کے منفی پہلو بہت زیادہ ہیں۔
فلم کا سب سے مثبت پہلو قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح سے غیر رسمی ملاقات تھی ۔ فلم کے مزید مثبت پہلؤوں میں بیک گراؤنڈ میوزک ، ٹائٹل سونگ اور احسن خان اور غلام محی الدین کی آوازیں ہیں۔ علی خان کے تلفظ میں مسائل تھے، جو صحیح ہوسکتے تھے ۔ماریہ میمن کی آواز اور انداز دانیہ کے کردار میں جچا نہیں، لیکن انھوں نے کوشش پوری کی۔
اپنی آواز کی ’’لمیٹیشن ‘‘ کی وجہ سے وہ تاثر نہیں چھوڑ سکیں، جو اینیمیشن فلموں میں درکار ہوتا ہے۔ فلم کا ایک اور مثبت پہلو پاکستان کے قومی کھیل کے ہیروز کو کرکٹ ہیروز پر فوقیت دینا تھا، کیوں کہ 1978میں ہاکی اسٹارز زیادہ مشہور اور فالو کیے جاتے تھے ، لیکن آہستہ آہستہ اس کھیل کو تباہی کے دہانے تک پہنچادیا گیا۔
فلم کا مجموعی لُک، اینمیشن، پروڈکشن سالوں پُرانی نظر آئی ۔ فلم کے ٹریلر سے ہی فلم نہ دیکھنے کااعلان کرنے والے ایک دوست نے اس اینمیشن کا برسوں پُرانے دانت صاف کرنے والے پاؤڈر کے ٹی وی ایڈ سے موازنہ کیا تو بات دل کو لگی اور صحیح لگی۔ فلم کی بدقسمتی ہے کہ یہ فلم پاکستان میں’’ اللہ یار دی لیجنڈآف مار خور‘‘ جیسی معیاری اینیمیٹڈ فلم کے صرف 50دن بعد ریلیز ہوئی۔
وہ فلم اب بھی سینما گھرو ں میں ٹکی ہوئی ہے، لیکن اِس ٹِک ٹاک کا اگلا ہفتہ بھی مشکل میں نظر آرہا ہے ۔دونوں فلموں کے انیمیشن ،ٹریٹمنٹ اور پروڈکشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اسی طرح بزنس میں بھی فرق صاف واضح ہے۔اُس فلم میں کرداروں ، لوکیشن ، درخت ،پہاڑ اور بہتاپانی پوری فلم میں اسکیچز،ڈیٹیل،کلر کریکشن،اینیمیشن،فائٹ سین، کیمرا اینگلز،ساؤنڈ ایفیکٹس عالمی معیار کے تھے، لیکن یہاں بالکل اُلٹ، وہاں صرف ’’چکو میاں‘‘ یعنی ننھے تیندوے کے کریکٹر کی انیمیشن کچھ کمزور تھی، لیکن وہ کمزورانیمیشن یہاں کے حسن، دانیہ، گوبو،کے کے اور ٹائم ماسٹر پر بھی بھاری تھی۔ یہاں تو کریکٹرز کے نہ بال مناسب تھے ، نہ آنکھیں، کپڑے، چہرہ، رنگ اور ہاتھ نہ چال نہ فائٹ سب بہت ہی ہلکا اور کمزور تھا۔
دونوں میں فلموں کے موازنے میں ایک پہلو میں ٹِک ٹاک بہت آگے رہی اور اس کے لیے ان کو شاباش بھی، وہ یہ کہ اِس فلم میں کسی بھی ایسے لفظ یا جملے کا استعمال نہیں کیا گیا جو بچوں کے لیے یا فیملی کے لیے غیر مناسب ہو۔
فلم ٹک ٹاک کی کہانی جیسے اوپر بتایا گیا ، مشکل نہیں فلم میں ایک ساتھ بروس لی کا ایکشن، رجنی کانت کا چشمہ پہننے کا انداز، سلطان راہی کا گنڈاسا چلانے کا انداز اور تو اور ہالی وڈ کی میٹرکس کا مشہور فائٹ سیکوئنس بھی ایک ہی انداز میں بھگتادیا گیا۔