فن اداکاری فنون لطیفہ کی لطیف ترین صنف ہے۔ اداکار اپنے فن کے ذریعے شائقین تک کہانی نویس کے خیالات کو کردار کے مکالموں کی مدد سے پہنچاتا ہے۔ یہ اداکاری کے فن کا ہی کمال ہے کہ شائقین کو اکثر اوقات اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ جس کردار کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ افسانوی ہے۔
اداکار اپنے فن سے شائقین کے سامنے نئی دنیا پیش کرتا ہے۔ فن اداکاری مشکل کام ہے۔ اداکاری محض آواز کے ذریعے مکالموں کو صوتی اثرات کے زیروبم کے سا تھ ادا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اداکاری میں چہرے کے تاثرات اور جسم کی حرکات و سکنات کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
مزید یہ کہ اداکاری تنہائی میں خودکلامی کے ذریعے پرفارم کرنا نہیں ہوتی بلکہ اداکاری میں ایک فنکار کو اپنے ساتھی فنکار یا فنکاروں کے مقابل پرفارم کرنا ہوتا ہے اس لیے اس میں ایکشن اور ری ایکشن بھی لازمی اجزاء ہوتے ہیں۔
اداکاری کے فن کے تقاضے ہر میڈیم کے مطابق بدلتے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، فلم، تھیٹر اور ایڈورٹائزنگ کے لیے کی جانے والی اداکاری میں فرق ہوتا ہے۔ اداکاری میں اصناف کے مطابق تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں۔ مزاحیہ، رومانوی، المیہ، طربیہ اور ڈرامائی اداکاری اپنے تقاضوں کے حوالے سے مختلف نوعیت کی پرفارمنس کی توقع کرتی ہیں۔
فن کے حوالے سے فلموں میں کی جانے والی اداکاری واضح طور پر تین جہتوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ پہلی جہت کلاسیکی انداز کی اداکاری ہے جو کہ کردار نگاری کو حقیقی روپ عطا کرتی ہے اور اس کے ساتھ شائقین کی توجہ کو جذب کر لیتی ہے۔ اسی اداکاری میں ٹھہرائو دکھائی دیتا ہے۔ اداکاری کی دوسری جہت وہ فلمی اداکاری ہے جس میں رومانس اور ڈرامہ نمایاں ہوتا ہے۔
اداکاری کی یہ جہت کلاسیکی اداکاری کی جدید شکل ہے۔ اداکاری کی تیسری جہت خالصتاً وہ اداکاری ہے جس کا مقصد باکس آفس کی فلموں کے لیے پرفارم کرنا ہے۔ اس اداکاری کے لیے ایکشن، مزاح اور رومانوی اداکاری کے رموز سے آگاہی لازم ہے۔
دنیاکی تمام فلم نگریوں میں اداکاری کی تینون جہتوں کے حوالے سے بحث جاری رہتی ہے اور اس حوالے سے اداکاروں اور اداکارائوں کی درجہ بندی بھی کی جاتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کلاسیکی طرز کی اداکاری کرنے والے فنکاروں کو اداکاری کے درجے میں سب سے اوپر رکھا جاتا ہے۔ بالی وڈ کے صف اول کے فنکار عرفان خان بھی کلاسیکی طرز کی اداکاری کرنے والے فنکار ہیں۔
عرفان خان بالی وڈ کی پہچان ہیں۔ عرفان بالی وڈ کے علاوہ ہالی وڈ میں بھی اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ عرفان کی اداکاری ایک جادو ہے۔ عرفان اپنی اداکاری کے ذریعہ سے اپنے شائقین کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ افسانہ، کہانی یا وہم نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔
عرفان اداکاری کو مکمل فن سمجھتے ہوئے اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ اس کو سیکھنا لازمی ہے۔ اسی لیے عرفان خان نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت نیشنل سکول آف ڈرامہ نیو دہلی سے حاصل کی۔
عرفان خان اداکاری اور کردار نگاری سے انصاف کرنے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ عرفان خان کا کہنا ہے کہ اداکاری کرنے کے لیے باقاعدہ ہوم ورک کرنا ضروری ہے۔ عرفان خان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے مشکل کام کرداروں کو چننا ہوتا ہے۔ اگر فنکار اپنے لیے کسی کردار کو چن نہیں سکتا تو وہ کبھی بھی اچھے طریقہ سے پرفارم نہیں کر سکتا۔
عرفان خان کا ماننا ہے کہ انہوں نے کئی بہترین فلموں اور کئی منجھے ہوئے ہدایتکاروں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تھے۔
عرفان خان بالی وڈ کی ہنگامہ خیز اور صرف باکس آفس کے لیے بنائی گئی فلموں سے خاصے نالاں رہتے ہیں۔ عرفان کا کہنا ہے کہ فلم اندسٹری میں ناانصافی کی پالیسی ہے۔ میڈیا بھی فن سے مکمل آگاہی نہیں رکھتا۔ عرفان خان اپنے انٹرویوز میں اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ عرفان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے نتیجہ میں فن اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ اداکاری محض عجیب حرکتیں کرنے یا اچھل کود کا نام نہیں ہے۔
اداکاری کا فن تخلیق کاروں کی ادبی تخلیقات کو عوام تک بہترین انداز میں پہنچانے کا نام ہے۔ عرفان اس رجحان کی بھی مذمت کرتے ہیں جس کے باعث اداکاروں کو سو کروڑ یا دو سو کروڑ یا اس سے بھی زیادہ بزنس کے حوالے سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
عرفان فلم کے کاروبار اور فلم کی دنیا کو مسٹری سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سو کروڑ کی دوڑ نے فلم کی دنیا سے اس کے سراب کا حسن چھین لیا ہے۔ فلم کے کاروبار کی پیش گوئی نہیں ہو سکتی اور یہ ہی اس کا اصل حسن ہے۔ عرفان فلم اندسٹری کے دوغلے پن سے بھی ناراض ہیں۔
عرفان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ نئے ہدایتکاروں اور فلمسازوں کی حوصلہ افزائی کی ہے لیکن اکثر ہدایتکار اور فلمساز کامیابی حاصل کرنے کے بعد بالی وڈ کے ان ناموں کو فلموں میں کاسٹ کرنے میں ترجیح دیتے ہیں جو کہ صرف باکس آفس کے لیے پرفارم کرتے ہیں۔
عرفان خان فلم سلام ممبئی میں اپنی اداکاری کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میرا نائر ہندوستانی معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں سے بخوبی واقف ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سینما میں حقیقت کو پیش کرتی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے سلام ممبئی کو سو بہترین فلموں میں شامل کیا ہے۔ عرفان خان نے فلم میں خط لکھنے والے کا کردار نبھایا ہے۔ سلام ممبئی کو بہترین فارن لینگوئج کی فلم کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
عرفان خان اپنی اداکاری کے لیے کئی ایوارڈز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 2011میں عرفان کو پدما شری ایوارڈ سے نوازا گیا جوکہ ہندوستان میں سب سے بڑا اعزاز ہے۔
عرفان نے ہالی وڈ کی فلم لائف آف پی میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔عرفان خان 2013 میں بننے والی فلم پان سنگھ تو مار میں پرفارم کرنے کو اپنی زندگی کا یادگار تجربہ قرار دیتے ہیں۔ عرفان کا کہنا ہے کہ بائیو گرافیکل فلمیں کسی بھی آرٹسٹ کا حقیقی امتحان ہوتی ہیں۔ پان سنگھ تو مار کی شوٹنگ کے دوران عرفان کو کئی مرتبہ زخمی بھی ہونا پڑا۔ اس حوالے سے عرفان کا کہنا ہے کہ اداکاری کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ایک اداکار کو اپنے کام کے حوالے سے مکمل تندہی کے ساتھ خود کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ عرفان خان کا ہر کردار جاندار دکھائی دیتا ہے۔ لنچ باکس، پیکو اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ہندی میڈیم میں عرفان نے اپنی پرفارمنس سے شائقین کے دل موہ لیے ہیں۔
عرفان اپنے ساتھی اداکاروں کو کھل کر پرفارم کرنے کا موقع مہیا کرتے ہیں۔ ہندی میڈیم میں پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے عرفان کے ساتھ پرفارم کیا ہے۔ عرفان خان صبا قمر کی اداکاری کی صلاحیتوں کے معترف بن چکے ہیں۔
اکیاون سالہ عرفان اب تک چھیاسی سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ حال ہی میں عرفان کی نیورو اینڈ کرائن ٹیومر کی بیماری میں مبتلا ہونے کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے بالی وڈ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
عرفان اپنی نوعیت کے منفرد فنکار ہیں جس نے فلمی اداکاری کو حقیقی معنوں میں نیا مقام عطا کیا ہے۔ عرفان کے تمام شائقین ان کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔