راشد بلوچ
ہم اپنے گردو پیش پرنظر دوڑائیں تو چہار سو رنگارنگ سوانگ اور تماشے چشم بینا کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔کہیں یہ تماشہ کارزار سیاست میں بپا ہے تو کہیں کرپشن کی دنیا میں نت نئے تماشے رچائے جا رہے ہیں۔جب یہی بے ایمان سیاستدان باہم شیرو شکر ہوتے ہیں تو اسی مملکت خدادادکے جسم کو یوں بھنبھوڑتے ہیں کہ اس کے جسم پر زرہ بھر بھی ماس نہیں رہنے دیتے اور اپنا الو خوب سیدھا کرتے ہیں، مگر یہی لٹیرے جب آپس کی چپقلشوں کے باعث ایک دوسرے کے درپئے آزار ہوتے ہیں تو پھر ایسی ایسی ہوش ربا کہانیوں سے پردے اٹھاتے ہیں کہ انسانیت بس نوحہ کناں ہی رہ جاتی ہے اور حیرت کی آنکھ خیرہ ہو جاتی ہے۔
ان ’’رہنماؤں ‘‘کی زبانیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی ایسی زہر افشانی کرتی ہیں‘مگر مجال ہے جو حکمت کا ایک کلمہ بھی ان کے زبان مبارک سے نکل جائے۔آتش برساتی آنکھیں‘جھاگ اگلتی زبان‘سراپا غیظ وغضب ۔یہ ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ناخدا جن کے ناتواں ہاتھوں میں ہم نے اپنی تقدیر کی باگیں پکڑائی ہیں۔
کرپشن کی بہتی گنگا میں دن رات اشنان کرتے یہ بے رحم سیاست کے دیوتا تماشہ کرنے اور تماشہ لگانے میں ایسے یکتائے روزگار ہیں کہ ان کے مثل چراغ لےکر دھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی ۔ سب اپنی اپنی ڈفلی اٹھائے اپنے اپنے مقاصد کی صلیب لٹکائے خودفریبی کی زرہ بکتر زیب تن کئے آرام سے عیش کر رہے ہیں۔غریب عوام مرتی ہے تو مرے ان کی بلا سے!خدایا یہ کیسے عفریت ہیں ان کی پیاس کب مٹے گی؟انھیں اور کتنی جانوں کا خراج دینا پڑے گا اور کتنے گھر یہ اجاڑیں گے۔
یہ سیلاب بلا کب ٹھہرے گا۔علم ودانش سے عاری بیان بازی اور کھوکھلے نعرے بازی میں یہ ایک دوسرے سے بڑھ کے ہیں، مگر عمل کی جب باری آتی ہے تو یہ سب اور قسم کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔نہ خدا خوفی نہ آخرت کا ڈر۔سود وزیاں سے یکسر فراموش ہمارے ارباب ،عقل کی کسوٹی نہ جانے کس طاق پر رکھ کر بھول گئے ہیں۔
ایک اور تماشہ عقائدو افکار کی دنیا میں ہو رہا ہے یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ مذہبی جماعتوں کے جھنڈے تلے یہ تماشہ پورے کرو فر کے ساتھ جاری ہے۔لاکھوں کے مجمعے سے گلا پھاڑ پھاڑ کر بے مغزو بے معنی تقریریں کرتے اہل قبا وصاحبان دستار جو نہ زمانے سے ہم آہنگ ہونے کا سلیقہ رکھتے ہیں نہ ہی دور جدید کے تقاضوں سے باخبر۔یہ کروز وبیلسٹک میزائیلوں کا مقابلہ بد دعاؤں سے کرنے نکلے ہیں۔یہ ڈرونز اور سپر سانک طیاروں کا مقابلہ خچروں پہ بیٹھ کر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔خود بھی بدنام ہوتے ہیں اور اپنے کرتوتوں سے اسلام کے نام پر بھی دھبے لگاتے ہیں۔
یہ لوگ نیٹو سپلائی روکنے کے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں، مگر شراب‘چرس افیون‘بھنگ‘چھالیہ پان گٹکا کی سپلائی روکنے کی بات کبھی ان کےذہن میں نہیں آئی۔
ارباب سیاست ومذہبی رہنماؤں کے ساتھ اہل صحافت کے ہاں بھی ہڑبونگ مچی ہے،نہ کوئی نظم وضبط ہے اور نہ کوئی محاسبہ۔ریٹنگ کے شوق میں چینل مالکان جو مرضی دکھاتے پھریں قطع نظر اس کے کہ عوام ان مناظر سے نفسیاتی مریض بن گئےہیں، جذبات نے دلوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔قوم نہیں گویا اک بے سمت بھیڑ ہے جو ہوا کے رخ پر بے رخ اور بے سمت اور بغیر کسی منزل کا ادراک کئے بس چلے جا رہی ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات کا پھندا ہماری گردنوں پہ شکنجے کس رہا ہے۔دشمن تاک میں ہے اور ہم بے خبر۔واقعات تیزی کے ساتھ پہلو بد ل رہے ہیں۔قدرت بار بار ہمیں متنبہ کر رہی ہے‘مگر مصلحتوں کے شکار ہمارے ارباب حل وعقد غفلت کے لحافوں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔عوام دو وقت کی روٹی سے ہنوز فارغ نہیں ہوئے تو ایسے میں خود فریبی کے دام میں آکر بڑے بڑے نعرے لگانا صرف خود کو دھوکہ دینا ہے‘اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
بے رحم اور آئینہ دکھانے والی تاریخ کی گواہی یہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنی پروا نہیں کرتی تو قدرت بھی دست شفقت اس کے سر سے اٹھا لیتی ہے۔
بھیڑیں، اگر خود ہی دیوانہ وار بھیڑیئے کی طرف دوڑیں تو گڈریا آخر کب تک ان بے پروا بھیڑوں کی حفاظت کرے گا۔سوچیے قبل اس کے کہ ہمارا افسانہ ہی ادھورا رہ جائے اور پچھتانے کے لئے بھی وقت نہ ملے۔