بلوچ رہنما اختر مینگل کا سپریم کورٹ میں آنا اور اپوزیشن رہنماؤں کا ان کے چھ نکات سے مکمل اتفاقِ رائے کرنا پاکستانی عوام کیلئے ایک خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ان تمام لوگوں کیلئے سوالیہ نشان بھی ہے جو سپریم کورٹ کی کچھ کمزوریوں کو اچھال کر اس کی ان تمام خدمات کو عوام کی نظروں سے اوجھل کر دینا چاہتے تھے جو اس عظیم ادارے کے عظیم ججوں نے کرپشن کی روک تھام اور قانون کے احترام کے ضمن میں سخت اقدامات کے ذریعے انجام دی تھیں اور انجام دے رہے ہیں۔ یہ اسی امیج کا نتیجہ ہے کہ اختر مینگل اور انکے ساتھیوں نے ریاستی اداروں میں سے صرف سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ، تاہم اب سپریم کورٹ کی ذمہ داریاں پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہیں اور اسے اس اعتماد پر پورا اترنا ہو گا جس اعتماد کا اظہار بلوچ رہنماؤں نے ان پر کیا ہے۔ ان کے مطالبات صرف ان کے مطالبات نہیں ہیں بلکہ پورے پاکستان کی آواز ہیں اور ان آوازوں میں سب سے اونچی آواز پنجاب کی ہے۔
یہاں خصوصی طور پر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی اس کومٹ منٹ کا ذکر ضروری ہے جو پاکستان کی مظلوم قومیت بلوچوں کے ساتھ روزِ اوّل سے سامنے آتی رہی ہے۔ میاں صاحب کی اس کومنٹ منٹ کا دلی اعتراف خود بلوچ قیادت کے اس اعتماد کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے جس کا اظہار وہ میاں صاحب کے حوالے سے کرتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی حصے میں آباد مظلوموں کیلئے آواز اٹھانا اور ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا، دراصل پاکستان سے محبت کی عملی شکل ہے۔ ہم ایک اکائی ہیں اور اس اکائی میں رخنہ ڈالنے والے پاکستان سے دوستی کا حق ادا نہیں کر رہے۔ نواز شریف کی بنیادی پہچان پاکستان سے ان کی بے پناہ محبت ہے اور ان کی یہی محبت بلوچستان کے حوالے سے سامنے آتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بلوچوں کے حقوق کے لئے انہیں کسی بھی حد سے آگے جانا پڑے وہ جائیں گے، پاکستانی عوام بجا طور پر میاں نواز شریف سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں اور مجھے یقین ہے اس ضمن میں انہیں مایوسی نہیں ہو گی!
بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران خواجہ سعد رفیق نے ، جنہیں میں مسلم لیگ (ن) کا قیمتی اثاثہ سمجھتا ہوں، ایک بہت اہم بات، بہت سلیقے سے، بین السطور کہی اور وہ یہ کہ اب دونوں طرف سے ”سیز فائر“ ہو جانا چاہئے کیونکہ مرنے والوں کا تعلق کسی بھی گروہ، قبیلے یا صوبے سے ہو ، وہ بہرحال انسان ہیں اور پاکستانی ہیں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا تاہم مجھے امید ہے بلکہ دعا ہے کہ بلوچستان میں امن و سلامتی کی صبح جلد سے جلد طلوع ہو۔ گمشدہ افراد بازیاب ہوں، قتل و غارت گری کا سلسلہ بند ہو، بلوچوں کی جعلی قیادت کی جگہ ان کی صحیح قیادت کو سامنے آنے کا موقع دیا جائے، انہیں قومی دھارے میں لایا جائے اور ان کے غصب شدہ حقوق انہیں واپس دیئے جائیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے اگر اپوزیشن جماعتیں ایک متحدہ لائحہ عمل بنائیں اور سیاست چمکانے کی بجائے ملک بچانے کے جذبے سے جدوجہد کا آغاز کریں تو ان کا یہ عمل پاکستان سے سچی دوستی کا اظہار ہو گا ورنہ وطن سے محبت کے سب دعوے سطحی اور کھوکھلے ہیں۔ اس ملک کے ”رحمان ملک“ تو پیدا ہی حقائق کا منہ چڑانے کیلئے ہوئے ہیں، خدانخواستہ ملک پر کوئی ابتلاء آئی تو یہ ”رحمان ملک“ اپنے اپنے ملکوں کو واپس روانہ ہو جائیں گے ، ہم لوگوں کا کیا بنے گا جن کا جینا مرنا اسی دھرتی سے وابستہ ہے۔ اس کا عروج اور اس کا زوال ہمارا عروج اور ہمارا زوال ہے لہٰذا متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ ”متحدہ عوام“ کو بھی وطن کی سالمیت اور استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ گھر میں بیٹھے رہنے اور منہ زبانی اظہار خیال سے بلوچوں کے زخم نہیں بھریں گے زخم صرف مرہم رکھنے سے بھرا کرتے ہیں۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے حسن ظن رکھتے ہیں۔ آج تک جتنے بھی آرمی چیف آئے ہیں، یہ ان سب سے زیادہ پڑھے لکھے، کافی حد تک غیر سیاسی، متحمل مزاج اور دانشور قسم کے آرمی چیف ہیں، ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات کے ضمن میں بعض بہت اچھے کام بھی ہوئے ہیں چنانچہ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ بلوچوں کو مطمئن کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔ یہاں ”کوششوں“ کا لفظ مناسب نہیں، انہیں تو صرف حکم دینا ہے اور بلوچوں کی ان تمام شکایات کا ازالہ ہو جائے گا جن کا اظہار وہ فوج کے حوالے سے کرتے ہیں بلکہ ان کی تقریباً تمام شکایات کا محور فوج اور اس کے ماتحت کام کرنے والے ادارے ہی ہیں۔ بلوچستان ہی نہیں ، پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی گم شدہ افراد کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے، جو ادارے یہ کام کرتے ہیں، وہ اپنی طرف سے حب ِ وطن کے تحت کرتے ہیں، خدا کے لئے انہیں اس سے باز رکھیں کہ ان کی وطن سے یہ محبت اس ریچھ کی طرح ہے جس نے اپنے سوئے ہوئے مالک کے چہرے پر بیٹھی مکھی مارنے کے لئے مالک کے منہ پر اپنا پنجہ مارا جس کے نتیجے میں مکھی اور مالک دونوں ہلاک ہو گئے تھے۔ بلوچستان پاکستان کی جان ہے، مجھے علم ہے ہم سب کو اس سے محبت ہے ، بس اتنا ہے کہ ہماری محبت اور ریچھ کی محبت میں فرق ہونا چاہئے۔