• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرہ خان اور اُن کے ’’ڈیجیٹل‘‘ جہادی بھائی

ماہرہ خان اور اُن کے ’’ڈیجیٹل‘‘ جہادی بھائی

یار سُنا ہے کہ کوئی ماہرہ نامی اپنی دیسی لڑکی پھر کش لگاتے ہوئے دیکھی گئی ہے۔۔۔۔۔ہاں وہ اپنا نیٹ کیفے والاہے نا’بابو‘وہ بھی بتا رہا تھا۔اپنی سگریٹ سُلگاتے ہوئے اُس نے کہا ’’توبہ ہے بھائی کیا ہوگیا ہے آج کل کی لڑکیوں کو ‘‘۔

خیر یہ توبات تھی دو دوست کے درمیان ۔۔۔مگر گذشتہ دن سے جو’’ڈیجیٹل بحث ‘‘چل رہی ہےاُس نے ہمارے ملک کے ’’کی بورڈاور ڈیجیٹلائزڈ‘‘غیرت مند بھائیوں کو ایک دفعہ پھر ایک’’ پلیٹ فارم‘‘پر یکجا کردیا ہےکہ جیسے کوئی قومی سلامتی اور امن قونصل کے اجلاس کے لیے عوامی رائے مانگی ہو۔

مجھے تو کرکٹ کی طرح کے وہ پرستار شدت سے یاد آرہے ہیں کہ کوئی تو کہدے’’میری سگریٹ ، میری مرضی‘‘۔

معاملہ تو سنگین ہے بھائی یہ وہی ماہرہ ہے جوپہلے بھی تمباکو نوشی کرتے دیکھی گئ تھی۔

ہم ایشائی لوگوں کا مزاج ایسا ہےکہ پردیس جائے تو کسی سیاہ فام کے ساتھ ایشین لڑکی دیکھ لے تو مزاج جلتا ہے مگر اس کے برعکس اپنے کسی دیسی سیاہ مرد کے ساتھ گوری دیکھ کے تو دل باغ باغ کرجاتا ہے۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہماری انگنت غیرت میں سے ایک غیرت کا جُڑتا تعلق’’ صنفِ نازک‘‘سے بھی ہےجیسے کہ قندیل بلوچ، وینا ملک،میرا ہو یا متہیرا۔

ہماری غیرت کا پیمانہ ہر گز گوارہ نہیں کرتا کہ اِن میں سے کوئی بھی مختصر لباس میں تصویر کھینچوائے، سگریٹ نوشی کرے یا اپنی مرضی کی ویڈیو بنا کر پوسٹ کرے۔

تم اگر مجھ کو نہ چاہو تو کوئی بات نہیں

تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی

گویا تخمیہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ان تمام حرکات و سکنات کا تعلق ہماری عزت سے جُڑا ہے جیسے کہ ہماری عزت ان خواتین کے ہاتھ میں ہو  اور یہ جب چاہیں مختصر لباس پہن کر ہمیں بنا لباس کردے۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا بریگیڈ ہے جو اپنی قومیت ،شہریت یا مذہب کے بارے میں اِس قدر نازک ہےکہ ہماری کوئی اداکارہ کسی رنبیر کے ساتھ یا کسی پارٹی میں سگریٹ نوشی ہر گز نہیں کر سکتی ۔۔۔ہاں اگر اپنے ادکار کسی غیر ملکی اداکارہ کے ساتھ’’ ڈرنک‘‘بھی پیئے تو خوشی سے دل باغ باغ ہوجاتا ہےکیونکہ یہ ہماری ’’سائیکی‘‘ ہے۔

بہرحال بات ماہرہ خان جیسی کی نہیں بات ہمارے اُس منافقت بھری کارروائی کی ہے جس میں ہم خود کو پارساثابت کرنے لے لیےدوسروں پر کیچڑ اُچھالتے ہیں ہمیں پہلے اپنے گریبان میں جھاکنا چاہیے کے ہم خود کتنے پانی میں ہیں اور اس لاحاصل بحث کو پیچھے دخیلنے کی ضرورت ہے ورنہ کہی ایسا نہ ہو جا ئے کہ روزےبخشوانے کے چکر میں نماز گلے پڑ جائے۔

تازہ ترین