• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغرب والے روس کی گستاخی پر مائل انتہائی دغا باز ہیں!

مغرب والے روس کی گستاخی پر مائل انتہائی دغا باز ہیں!

تحریر:چارلس مور

اگست 1991میں ،ماسکو میں تین روزکے دوران دوبار حکومت کاتختہ الٹ دیا گیا تھا۔پیرکے روز،سخت گیر کمیونسٹوں نے اصلاح پسند صدر گوربا چوف کی حکومت الٹ دی۔بدھ کے روز،بورس یلسن ، روسی فیڈریشن کے منتخب صدر، نے ان کمیونسٹوں کا تختہ اقتدارالٹ دیا۔ انہوں نے گوربا چوف کو بحال کرایا لیکن موثرطورپر اختیارات خود کو منتقل کردیے۔

میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا سوویت یونین واقعی ٹکڑوں میں بٹ رہا ہے،اس لیے اس ہفتہ کو میں بغیر ویزے کے ماسکو پروازکرگیا۔میں نے فرض کرلیا کہ اگر سوویت نظام اب بھی کارگرہے تو میرا ویزانہ ہونے پر مجھے مختصروقت کے لئے زیرحراست رکھا جائے گا اوربعدازاں سیدھا واپس گھر بھیج دیا جائے گا۔

ماسکو کے ہوائی اڈے پر ،مجھے باضابطہ طورپر روکا اورمیرے اقدامات کا سراغ لگایا گیا ،حفاظتی حصارمیں لیا گیا۔یہ سمجھتے ہوئے کہ میں بس تھوڑی دیر میں لندن جانے والی کسی پروازمیں دھکیلا جانے والا ہوں،میں زمین پر بیٹھ گیا اوریہاں سے اٹھ کر جانے سے انکار کردیا۔کچھ دیر کے بحث مباحثے کے بعد،یہ روسی حکام مجھے واپس ایک دفترلے گئے ،تھوڑی دیر غورکیا،اوراس کے بعد مجھے ماسکوکا ٹرانزٹ ویزادیا گیا،اوراس کے ساتھ مجھے روس کی بے دلی سے لگان دینے والی ریاست لتھوانیا کے فضائی سفر کی بھی اجازت دے دی گئی جس کی میں نے درخواست کی تھی جبکہ ریاست لتھوانیا اس وقت روس سے حاصل کی جانے والی آزادی کو مکمل طورپر باضابطہ بنانے کی جدوجہد کررہی تھی۔ 

اس طرح مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ سوویت یونین اب کسی کام کا نہ رہا۔خوف کی بنیادپر قائم ایک انتظامی طرزحکومت ،1917سے لے کر تاوقت،اب خوف زدہ کرنے کی طاقت کھوچکی تھی۔اس لیے یہ مکمل طورپر طاقت کھوچکی تھی۔

سوویت یونین کابکھرجانا یعنی اس کا خاتمہ دنیا کی تاریخ میں ایک خوش کن لمحہ تھا،لیکن یہ ایک طویل عمل کا حصہ بھی تھا جو بہت سے روسیوں کے لئے صدمہ پہنچانے والا تھا۔سوویت روس کی ’’آٹھ رکنی کمیٹی‘‘،جس نے یکم آگست کو حکومت کے خلاف بغاوت کی قیادت کی،نے ’’سوویت عوام کے نام اپیل جاری کی‘‘۔ سوویت مخالف طاقتوں کی وجہ سے ،انہوں نے کہا ،’’لاکھوں سوویت عوام کے لئے زندگی اپنی چین وسکون اورخوشی و رعنائی کھوچکی ہے۔‘‘یہ سب لوگ’’ایک متحدخاندان‘‘ کی طرح تھے۔۔۔۔جو آج خود اپنے گھر میں بے خانماں ہیں‘‘۔

ایسے سخت گیر نظریات رکھنے والوں کو مقدریہی خسارہ تھا ،لیکن انہوں نے جو کچھ کہا وہ گونج اٹھا۔ولادی میرپوتن،کے جی بی میں اپنے کیرئیر کے بعدسینٹ پیٹرزبرگ کی نئی جمہوری سیاست میں داخل ہوئے،لگتا ہے کہ ایسا ہی محسوس کیا گیا۔وہ خوفزدہ دکھائی دیئے تھے کیونکہ روسی حکام نے 1989میں مشرقی جرمنی کی سرحد وں کا کنٹرول کھودینے کے عمل کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا،روس میں کثیر جمہوریت کی ترقی ضائع ہوگئی، جتھہ بندی اورطاقتوراورمالدارچوروں کا اقتدارپھلتا پھولتا گیا ،اور’’روسی دنیا‘‘کاروایتی احساس پارہ پارہ ہوگیا۔

ہوسکتا ہے کہ وہاں اب بہت بڑی تعدادمیں کمیونسٹ باقی نہیں رہے ہوں ،لیکن وہاں اب بھی بہت بڑی تعدادمیں ایسے روسی موجود ہیں جو اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں ۔ان کے ان احساسات کو بیان کرنے کے لئے روسی لفظ’’اوبیدا‘‘استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنی:’’بے عزتی‘‘اور’’ہتک کا احساس‘‘دونوں کا احاطہ کرتے ہیں۔جناب پیوتن اس احساس’’اوبیدا‘‘ کا امیدوارہیں جو درحقیقت اس کاعملی مجسمہ ہیں۔

اوردوسری جانب ہم،مغربی دنیا،اس روسی ہتک عزت کے احساس کا مرکزی ہدف ہیں۔ 1975میں ،سوویت یونین نے ہیلسنکی فائنل ایکٹ پر دستخط کیے تھے،جوعلاقائی سرحدوں کو،تنازعات کا پرامن طورپر حل کرنا اورانسانی حقوق اوراسی طرح دیگر کو برقراررکھتا ہے۔ بعدازاں وہ اس بات پر راضی ہوگئے ، جبروتخویف کے تحت،کہ ہیلسنکی اصولوں کو بعدازسردجنگ کے یورپ کو بھی منظم کرنا چاہئے۔ 

لیکن درحقیقت وہ 1945 میں یالتا ایگریمنٹ کے ساتھ وابستہ رہے جس میں اسٹالن نے مشرقی یورپ کا مکمل کنٹرول سوویت لوگوں کے لئے محفوظ اس لیے جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم آزادمنڈیوں ،جمہوریت کو برقراررکھنے کی جانب بڑھ اورسابقہ دورمیں روس کی مکمل دسترس میں رہنے والے ملکوں کے قومی امنگوں کو تحفظ دے رہے ہیں ،اس وقت بہت سے روسی لوگ ہمارے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ انتہائی دغابازلوگ ہیں جو دنیا میں ان کے حصے کو اپنی نوآبادیات بنارہے ہیں اوران کی تہذیبوں کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔ 2014میں یوکرین کے روس نوازصدر،وکٹریانوکووچ کو اقتدارسے بے دخل کیے جانے کے وقت سے لے کر اب تک ،جناب پیوٹن اس طرح کے احساسات کا استحصال کرتا آیا ہے جو ان کی سیاست کا اہم اورلازمی حصہ ہے۔

روس جسے دغابازی یا منافقت کہتا ہے ،اس کی ایک برطانوی مثال یہ ہے کہ 2015میں لندن کے روسی سفارتخانے نے ہمیں جن51روسی افرادکی فہرست دی تھی ان سب کو ملک بدرکرنے سے ہماری جانب سے انکار ہے۔ہم اپنے اس عمل کوان ستائے ہوئے لوگوں کی آزادیوں کا تحفظ گردانتے ہیں ،جبکہ اس کا تو ذکر ہی کیا کہ ہم لندن میں بعض بڑی امیر کبیر شخصیات رکھتے ہیں۔

دوسری جانب روس اس طرزعمل کو اپنے اٹل دشمنوں کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنے کے طورپر دیکھتا ہے اوراسی لیے وہ اسے چھوٹی جنگی کارروائیوں کے طورپر قابل جوازقراردیتا ہے،جیسا کہ رواں ماہ کے دوران ایک اتوارکو بعدازدوپہر سیلیسبری کے پارک میں ایک بنچ پر اس کا مظاہرہ کیا گیا۔ہم سوچتے ہیں کہ وہ ہم پر حملہ کررہے ہیں:وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ تو صرف بدلہ لے رہے ہیں۔جناب پیوٹن کا پلٹ کر ہم پروارکرنا ایک عجیب یا غیر معمولی عمل ،لیکن یہ جارحیت اورحجت پر مشتمل کا ایک موثر مرکب ہے

مسٹرپیوٹن کی پلٹ کر ہمارے خلاف لڑائی عجیب اورغیرمعمولی ہے لیکن یہ جارحیت اور حیل وحجت کا ایک موثر مرکب ہے۔جب وہ ایک آپریشن کا آغازکرتے ہیں،مسلح،منظم اوربغیر کسی نشان یا علامت کے’’سبزوردی میں ملبوس نقاب پوش(روسی مسلح دستہ)کرائمیا،اس موقع پر فائرنگ ایم ایچ 17پروازکو مارگرانا،ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مداخلت،سیلیسبری میں زہردیئے جانے کا یہ واقعہ،ان کے لئے یہ دونوں باتیں اہم ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ کارروائی روس نے کی ہے اوریہ کہ خود اعتراف نہیں کرتا جو کچھ اس نے کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کا طنزیہ لہجہ۔

اس بارے میں شیخی بگھارنے والی معلومات کا افشا،بطورمثال ،اس میں کیمیاوی عناصر شامل ہیں،کو طعن وملامت کے ساتھ خلط ملط کردیا تاکہ اس حوالے سے شواہد پیش کیے جائیں۔میں بتاتا رہا ہوں کہ جیل میں زیادہ ترجرائم پیشہ افرادبیک وقت اپنی بے گناہی کے لئے احتجاج کرتے ہیں اوربڑےولن ہونے کا دعویٰ فخریہ اندازمیں کرتے ہیں۔مسٹرپیوٹن ممکنہ طورپر ایسے ہی ہیں۔’’پکڑلیں مجھے اگرآپ پکڑسکتے ہیں‘‘،وہ کہہ رہے ہیں کہ ہوشیارہوجائیں جوکہ ہم عمومی طورپرکرنہیں سکتے۔ 

مغرب بھر میں،روس کاایک طویل مشاہدہ ہے کہ یہ کس قدرآسان ہے(اوراکثرسستا بھی)کہ شخصیات،تھنک ٹینکس ،ویب سائٹس ،پریشر گروپس، شیل کمپنیاں خریدی جاسکتی ہیں۔جب میں ان برسوں میں ماسکو ایئرپورٹ پر گیم کھیلا کرتا تھا،اس وقت میں کم ازکم وہ ترکیبیں استعمال کرتا ھا،جسے اب میں نے پہچاننا کیونکہ یہ پیوٹن کی’’نشاۃ ثانیہ بذریعہ دوبدولڑائی‘‘ کی ایک‘کلیدی چال ہے۔جبکہ روس مغربی طاقت اوران کی کامیابی سے نفرت کرتے ہیں،یہ ہماری کمزوریوں کو بھی دیکھتا ہے اوران کی آزمائش بھی کرتا ہے۔

ہم اپنی سماجی آزادیوں کے حوالے سے اس قدرمغروریا خودبین ہیں، مال ودولت کے اس قدر وہم اندیشہ میں مبتلا ہیں،اس قدرمقروض اورحد سے بڑھ کر فلاح وبہبود ،ویب (سائٹس) پر بولے جانے والے جھوٹ کے انتہائی شوقین ہیں،کہ ہم اپنی سیکورٹی کو نظراندازکرتے ہیں۔

چند برس پہلے ،روس نے یہ جان لیا کہ کس قدرکمزوربرطانوی دفاعی محاذ کمزورہوگئے تھے اوراس لیے ہماری فضائی حدود اورسمندری راستوں کی خلاف ورزی شروع کردی تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ ہم اس کے ردعمل میں کیا کریں گے۔اس وقت،وہ یہ اندازہ لگانا چاہتا ہے کہ کیا بریگزٹ (برطانیہ کی یورپی یونین سے اخراج کا عمل)ہمیں مضبوط بنارہا ہے یا صرف پتوارکے بغیر ہیں ۔اس لیے،خداکا شکر ہے،تھریسامے کے اقدامات نے متذکرہ بالا(روس)کو اشارہ دے دیا ہے۔

مغرب بھر میں،روس نے اس بات کا طویل مشاہدہ کیا ہے کہ یہ کس قدرآسان (اوراکثراوقات سستا)سوداہوسکتا ہے کہ افراد،تھنک ٹینک ،ویب سائٹس ،پریشرگروپ ،شیل کمپنیوں کو خرید لیا جائے۔اسے یہ بھی علم ہوگیا ہے کہ سیاسی حوالے سے ایسے اہم لوگ موجود ہیں،جیسا کہ جیریمی کوربن،جوایک پینی(سب سے چھوٹا برطانوی سکہ)لیے بغیر وہی کچھ کہیں گے جو یہ(روس) چاہتا ہے۔دیکھیں کہ کس قدرچابکدستی سے مسٹرکوربن حالیہ روسی پروپیگنڈاکی کوئی بھی بات دہراتا ہے جیسا کہ یہ خودان کا اپنا بیان ہو۔

رواں ہفتے کی خاص بات ان(کوربن)کا وہ مطالبہ ہے کہ برطانوی ادارے روسی حکام کو مبینہ ’’نووی چوک‘‘نامی موادکا ایک نمونہ بھیجیں تاکہ وہ ازراہ کرم اس بات کی جانچ کرسکیں کہ کیا یہ ان کا ہی تھا۔ انہوں نے جب یہ بات کہی تواس پر وہ (روسی حکام) لازماًکتنے ہنسیں ہوں گے۔

ہمارے ہاں ایک ایسا احساس پایا جاتا ہے جس میں ہم سے نفرت کرنے کے لئے روسیوں کو حق بجانب قراردیا جاتا ہے۔سردجنگ کے خاتمے پر اپنی کامیابی سے سرشارہونے کے دوران،ہم نے بلاشبہ اس شکست خوردہ(سوویت یونین)کے جذبات کو یکسر نظراندازکردیا اورطاقت واقتدارکی رفاقت میں دائمی حقائق کو کم ترین سطح پراندازہ لگایا تھا۔

ہم دغابازیا منافقت کرنے والے بھی ہیں:ہم مستقل طورپر یہ کہتے ہیں کہ روسی سرمایہ کتنا گندہ ہے اورپھر انہیں صاف کرنے کے لئے ہم لانڈری بیگ بھی مہیا کرتے ہیں۔

اس موخرالذکر نکتے کے حوالے سے لازمی طورپر بہت کچھ کیا جانا چاہئے جو ہم کرسکتے ہیں:مسٹرپیوٹن اوردولت واقتدارکے آمیزے ’’کاک ٹیل‘‘کے لئے ان کے دوستوں کو بے نقاب کرنا اورانہیں لندن کو بطوراپنے ایک بڑے پیالے کے طورپر استعمال کرنے سے محروم کردینا ۔

زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کو روسیوں کو خاموش کردینے کے لئے ایک نئی حکمت عملی تلاش کرلینی چاہئے جس کے ذریعے ان کے قانونی دائرہ اثر تک محدود کرکے ان کو تنہا چھوڑدیا جائے۔ہوسکتا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کے ذہن میں بھی یہ کچی سوچ موجود ہو اگرچہ یہ امتیازکرنا مشکل ہے۔ 

ولادی میر پیوٹن کو اس کا علم نہیں کہ آیا انہیں دوسری بارگزشتہ اتوارکو انہیں معقول ہونے کی وجہ سے منتخب کیا گیا ہے۔وہ(پیوٹن)خیال کرتے ہیں کہ ان کی کامیابیاں ہماری شکست ہیں۔ان کاروس کے ساتھ تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ اسلامی نظام کا اسلام کے ساتھ تعلق ۔ہم ان کا ذہن تبدیل نہیں کرسکتے۔

ہم جو کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ یہ کہ خاموشی کے ساتھ کوشش کریں کہ ان کے غیر ملکی مہم جوئی کے راستے میں اس دن تک روڑے اٹکائیں جب روسی عوام اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ وہ انہیں غریب اور دنیا سے الگ تھلگ کررہے ہیں ۔مغرب کو اس امرکا اعتراف کرنے اور اسی کے مطابق اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین