• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) وہ ادارہ ہے جو حکومتی افسران کو 20 ویں گریڈ میں پروموشن کیلئے اہم ٹریننگ کورسز منعقد کرتا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے گزشتہ 10 سالوں سے ان افسران کی ٹریننگ کورسز میں پاکستان میں صنعتی ترقی، بڑے درجے کی صنعتکاری (LSM)، سی پیک جیسے اہم موضوعات پر پریذنٹیشن اور کورس کے شرکاء کی رپورٹس کے جائزے کیلئے مدعو کیا جارہا ہے۔ NIM میں اسپیکر کا خطاب کورس کے شرکاء کی جانب سے دیئے جانے والے گریڈز پر ہوتا ہے اور ایک اچھے اسپیکر کے لئے کم از کم 85 فیصد مارکس حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن اوسطاً 95 فیصد مارکس حاصل کرنے والے اسپیکر کو مدعو کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں 23 ویں سینئر مینجمنٹ کورس کے اعلیٰ افسران کو میں نے پاکستان میں صنعتی ترقی اور بڑے درجے کی سرمایہ کاری پر اہم پریذنٹیشن دی تھی جبکہ گزشتہ ہفتے 100 سے زائد سینئر مینجمنٹ اور مڈکیریئر افسران کو سی پیک اور اوبور پر طویل پریذنٹیشن دی گئیں۔ اس بار میرے ساتھ وزارت منصوبہ بندی کے وفاقی سیکریٹری شعیب صدیقی بھی شریک اسپیکر کی حیثیت سے موجود تھے۔ سی پیک کا منصوبہ وزارت منصوبہ بندی کے تحت آتا ہے۔ شعیب صدیقی نہایت پروفیشنل اور ایماندار بیورو کریٹ ہیں، وہ کمشنر کراچی رہ چکے ہیں اور میرے اور فیملی کے قریبی دوست ہیں۔ اوبر اور سی پیک پر قومی پالیسیاں بنانے والے اعلیٰ افسران کے ساتھ 3 گھنٹے جاری رہنے والی پریذنٹیشن اور سوال جواب کے سیشن کو آج اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
میں نے اپنی پریذنٹیشن میں شرکاء کو بتایا کہ چین نے 2014ء میں طویل عرصے کی ریسرچ کے بعدمعاشی ترقی کے ایک بڑے پروگرام ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ (OBOR) کا آغاز کیا جس کے تحت 65 ممالک کو سڑکوں، ریلوے، ایئرپورٹ، سی پورٹس، آپٹک فائبر کے ذریعے علاقائی روابط سے منسلک کرنا تھا جبکہ اسکیم کے تحت انفرااسٹرکچر کے علاوہ خطے کے ممالک میں معاشی و صنعتی ترقی کیلئے اسپیشل اکنامک زونز (SEZs) بھی قائم کرنے تھے۔ چین دنیا میں اسپیشل اکنامک زونز کا ماسٹر مانا جاتا ہے۔ چین نے ان زون کے ذریعے دنیا میں 66 ملین ملازمتیں پیدا کیں جس میں سے 30 ملین چین میں پیدا کی گئیں۔ چین کا Shenzen اکنامک زون دنیا کیلئے رول ماڈل ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اسپیشل اکنامک زون کا تجربہ کامیاب نہیں رہا اور ملک میں اسپیشل اکنامک زون کی کامیاب مثالیں نہیں۔ حکومت نے 2012ء میں اسپیشل اکنامک زون ایکٹ منظور کیا تھا اور سی پیک کے تحت ملک میں 9 اسپیشل اکنامک زونز منظور کئے گئے ہیں۔ چین نے ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کے تحت 2013ء میں ازبکستان کے ساتھ 15 ارب ڈالر، 2014ء میں قازقستان کے ساتھ 37 ارب ڈالر، 2015ء میں پاکستان کے ساتھ 46 ارب ڈالر جو بڑھ کر 62 ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ 2016ء میں بنگلہ دیش کے ساتھ 24 ارب ڈالر کے مجموعی 138 ارب ڈالر کے معاہدے کئے۔ دنیا کے 65 ممالک کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ملانے کے عظیم منصوبے کے تحت اپریل 2015ء میں چین نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا عظیم منصوبہ پاکستان میں شروع کیا جس کے تحت ابتداء میں 46 ارب ڈالر کے منصوبوں جس میں 34 ارب ڈالر متبادل توانائی اور 12 ارب ڈالر انفراسٹرکچر اور گوادر پورٹ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے کئے گئے۔ میں نے شرکاء کو وضاحت دی کہ 46 ارب ڈالر کی متبادل توانائی کے مختلف منصوبوں میں 34 ارب ڈالر پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر چینی کمپنیوں اور بین الاقوامی بینکوں کے ساتھ سرمایہ کاری کررہا ہے جبکہ 12 ارب ڈالر حکومت چائنا کا انفرااسٹرکچر اور گوادر پورٹ کے منصوبوں کیلئے حکومت پاکستان کو 2.25 فیصد سود پر (ECA) کریڈٹ فراہم کیا گیا ہے۔ توانائی کے مختلف منصوبوں سے مجموعی 16000 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا ہوگی جس میں جون 2018ء تک Early Harvest منصوبوں سے 10,000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جس سے ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی جبکہ باقی 6000 میگاواٹ بجلی کے طویل المیعاد منصوبے 2030ء تک مکمل ہوں گے۔
چین اپنی 80 فیصد پیٹرولیم مصنوعات مڈل ایسٹ سے ہمروز کے سمندری راستے امپورٹ کرتا ہے اور اسے اس راستے میں امریکی بحری بیڑہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو چین کی نیشنل سیکورٹی کے نقطہ نظر کے منافی ہے جبکہ گوادر پورٹ اور سی پیک راہداری کے راستے امپورٹ کرنے میں چین کو اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں۔ چینی کارگو کی پہلی آزمائشی شپمنٹ لٹمس ٹیسٹ کے طور پر 13 نومبر 2016ء کو پاک چین راہداری سے بلوچستان کے راستے سی پیک راہداری اور گوادر پورٹ کے ذریعے کامیابی سے بحفاظت بھیجی جاچکی ہے۔ اس وقت چین کو وسط سے یورپ اشیاء بھیجنے کیلئے ٹوٹل 19132 میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس میں سینٹرل چین سے شنگھائی پورٹ تک 2625 میل زمینی راستہ اور شنگھائی پورٹ سے یورپ تک 16560میل کا بحری فاصلہ ہے جس میں تقریباً 50 دن لگتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد یہ فاصلہ کم ہوکر صرف 2295 میل رہ جائے گا جس میں زمینی فاصلہ 1750 میل اور سمندری فاصلہ 545 میل ہے اور اس کو طے کرنے میں صرف 17 دن لگیں گے۔ اس کے علاوہ شنگھائی سے ہیمبرگ بھیجنے میں 40 فٹ کنٹینر پر تقریباً 3000 ڈالر فریٹ لگتا ہے جبکہ اس شپمنٹ کو گوادر پورٹ سے بھیجنے میں فریٹ صرف ایک ہزار ڈالر رہ جائے گا۔ اسی طرح ایک 40 فٹ کنٹینر ابوظہبی سے شنگھائی بھیجنے کی لاگت دو ہزار ڈالر ہے اور اس کو شنگھائی پہنچنے میں 16 دن لگتے ہیں۔ سی پیک کا راستہ کھلنے کے بعد فریٹ کی لاگت اور وقت صرف ایک تہائی رہ جائے گا جس سے چین کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا جبکہ پاکستان کو سوئس کنال کی طرح اپنی تجارتی راہداری سے اربوں ڈالر کی ٹرانزٹ فیس حاصل ہوگی۔
چین اپنی پیداواری لاگت اور اجرتوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی صنعتیں جس میں زیادہ لیبر درکار ہے، کو دوسرے ممالک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ چین کے ویسٹرن صوبے کاشغر اور گوادر پورٹ کے مابین انفرااسٹرکچر بن جانے کے بعد چین کیلئے ان صنعتوں کو پاکستان میں سی پیک اسپیشل اکنامک زونز میں منتقل کرنا آسان ہوگا جس سے پاکستان میں بے شمار نئی ملازمتوں اور ایکسپورٹ کے مواقع پیدا ہوں گے۔ میں نے شرکاء اور شعیب صدیقی کو بتایا کہ سی پیک منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرتے وقت حکومت کو مقامی صنعتوں کو تحفظ اور مقابلاتی سکت برقرار رکھنا ہوگی، نہیں تو ہماری مقامی صنعتیں بند ہوجائیں گی۔ مثال کے طور پر گوادر اسپیشل اکنامک زونز جس میں زیادہ تر چینی کمپنیوں کو لائسنس ملے ہیں، 23 سال کی انکم ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے جبکہ ملک کے دوسرے زونز میں سرمایہ کاروں کو 10 سال کی انکم ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔ میں نے ان کی توجہ چین سے ڈیوٹی فری خام مال بالخصوص اسٹیل اور سیمنٹ کی سستی امپورٹ کی طرف دلائی جو ہماری سیمنٹ اور اسٹیل کی صنعتوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ میں نے شرکاء کو وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چین پاکستان میں نئی صنعتوں میں چینی ورکرز اور قیدی لانا چاہتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں چین کے نئے سفیر سے میری ملاقات میں انہوں نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ چین میں مزدوروں کی اجرتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کم از کم اجرت 302 ڈالر ماہانہ تک پہنچ گئی ہیں جبکہ پاکستان میں کم از کم اجرت 150 ڈالر ماہانہ ہے لیکن پاکستانی مزدوروں میں پیشہ وارانہ ہنرمند صلاحیتوں کی کمی ہے جس کو ہنرمندانہ تربیت دے کر اور چینی زبان سکھاکرپورا کیا جاسکتا ہے۔ میں نے شرکاء کو مشورہ دیا کہ وہ قومی اہمیت کے اس عظیم منصوبے کو متنازع بنانے کی ہر کوشش ناکام بنادیں کیونکہ بھارت اور امریکہ پہلے ہی سی پیک منصوبے سے خوش نہیں۔ہمیں چین دوستی اور اس کی نیت پر ہرگز شک نہیں کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ میں اپنے آئندہ کالم میں شریک اسپیکر شعیب صدیقی کی پریذنٹیشن اور سی پیک پر سینیٹر مشاہد حسین سید اور وفاقی وزیر حاصل بزنجو سے حالیہ ملاقات میں غیر رسمی گفتگو قارئین سے شیئر کروں گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین