• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!

روشنیوں کا شہر کراچی اب مکمل طورپر ادبی ،سماجی ،ثقافتی ،کھیلوں اور فلموں کی سرگرمیوں کا حب بن چکا ہے۔ جہاں نظر پڑتی ہے، تہذیب وثقافت پروان چڑھتی نظر آتی ہے، کھبی ’’پاکستان سپر لیگ ‘‘کے فائنل کے موقع پر کراچی عالمی میڈیا اور شہرت یافتہ فن کاروں اور کھلاڑیوں سے جگمگا اُٹھتا ہے۔ 

تو دوسری جانب ناپااکیڈمی میں انٹرنیشنل تھیٹر اینڈ میوزیکل فیسٹیول میں فن کاروں کی دل چُھولینے والی پرفارمنس جاری ہے، تو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں دبئی کا ڈراما کام یابی سے پیش کیا جارہا ہے، یہ تو کچھ بھی نہیں ہے اور اب آگے آگے دیکھیے !! 

پاکستان اور بھارت کے نامور فن کاروں نے کراچی میں ڈیرے ڈال لیے ہیں، اتوار کی شب عالمی شہرت یافتہ گائیک استاد راحت فتح علی خان نجی یونی ورسٹی میں آواز کا جادو جگارہے تھے، تو دوسری جانب بین الاقوامی شہرت یافتہ صُوفی سنگر عابدہ پروین فریئر ہال میں نغمہ سرا تھیں۔نئی نسل کے پسندیدہ گائیک عاطف اسلم اور علی ظفر کے کانسرٹس بھی کراچی میں ہورہے جاری تھے، یہ تھیں کراچی کی تازہ ترین ثقافتی سرگرمیاں اور اب کراچی فلم سوسائٹی کے تحت ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی رُوداد پیش خدمت ہے۔ 

چار روزہ فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے بھارت ،جرمنی ،اٹلی اور دیگر ممالک کے فلم ساز ،ہدایت کار ،موسیقار اور دلوں پر حکمرانی کرنے والے فن کار کراچی پہنچے،جن میں بھارت کی سب سے مقبول اور مہنگی ترین فلم’’ باہو بَلی‘‘کے ہدایت کار ایس ایس راجا مَولی، بالی وڈ فلموں کی نامور اداکارہ نندیتا داس ،بھارت کی درجنوں فلموں کی کام یاب ہدایت کار وِشال بھردواج اور گلوکارہ ریکھا بھردواج ، بھارگوی دلیپ کمار ،ہرش نارائن،ونے پاٹھک،انجم راجا بلی، سوبھاش کپور،بھرم آنند سنگھ وغیرہ شامل تھے۔ فیسٹیول 29مارچ 2018سے شروع ہوکر یکم اپریل 2018کی شام شان دار اور پُروقار تقریب کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ 

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!
اداکارہ نندیتا داس

فیسٹیول میں93ممالک سے 210شاٹ فلمز،ڈاکیومنٹریز اور فیچر فلمز کا انتخاب کیا گیا، جن کی اسکریننگ چار دن تک کراچی کے چار اہم مقامات پرکی گئیں۔ فیسٹیول کے پہلے روز زبردست گہماگہمی دیکھنے میں آئی، ایک جانب بھارتی اور پاکستانی فن کار’’ فلم ڈپلومیسی اور کراس بارڈر کولابریشن‘‘کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کررہے تھے، جن میں معروف پاکستانی ہدایت کار عاصم رضا ،بھارتی اسکرین پلے رائٹر انجم راجا بلی،بھارتی اداکارہ نندیتا داس ، فلم ساز ہرش نارائن اور پاکستانی اور بھارتی فلموں کی اداکارہ سجل علی نے دل کھول کر گفتگو کی ۔ اسی روز شام کے وقت Nueplexسینما میں بھارتی اور پاکستانی فن کاروں کا میلہ دیکھنے کو ملا۔ اس موقع پر نوجوان ہدایت کار عاصم عباسی کی نئی فلم ’’کیک‘‘کا پریمیئر بھی رکھا گیا تھا۔ 

بھارتی فلم سازوں اور فن کاروں نے پاکستان فلم انڈسٹری کے نوجوانوں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے فلم کی تعریف کی ۔پاکستانی اور بھارتی فن کار ایک دوسرے سے گُھل مل گئے ،بات چیت کی جارہی تھی۔ فن کار فلم سازی کے نئے تجربات پر گفتگو کرتے رہے اور یہ سلسلہ فلم شروع ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی تادیر جاری رہا ۔

اب سنیئے فلم فیسٹیول کے دوسرے دن کا احوال ،گورنر سندھ محمد زبیر نے بھارت سمیت دیگر ممالک سے آئے ہوئے فن کاروں اور ہنرمندوں کے اعزاز میں گورنر ہائوس میں پُروقار ظہرانے کا اہتمام کیا، جس میں فیسٹیول کے بورڈ میں شامل ممبران اور دیگر فن کاروں نے بھی شرکت کی۔ 

اس موقع پر گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول شہر کے مثبت امیج کو مزید اجاگر کرنے میں انتہائی معاون ثابت ہوا ہے۔ فیسٹیول میں دنیا بھر سے فلمی صنعت سے وابستہ افراد کی شرکت نے کراچی کی رونقوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ کراچی قومی معیشت میں ریڑھ ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!
اداکار گلوکار، علی ظفر

گورنر سندھ کا مزید کہنا تھا کہ فن کار بہت حساس ہوتا ہے اور فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، تھکے ہارے ، مایوس،بوجھل اور پریشانیوں میں گہرے انسانوں کو خوشیاں دینے والے یہ فن کار اپنی صلاحیتوں سے معاشرتی رویے ،ناانصافیوں ،ناہمواریوں ، خرابیوں اور برائیوں کو نہایت خوب صورتی سے اُجاگر کرتے ہیں کہ بعض اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ زندگی کا کوئی حقیقی واقعہ ہے، جس کا تعلق اس فن کار سے ہی ہے، جو اسکرین پر نظر آرہا ہے۔ 

گورنر سندھ نے مزید کہا کہ 2013سے 2018کے حالات بالکل مختلف ہیں ۔فلم فیسٹیول کے کام یاب انعقاد کی وجہ سے شہر کا مثبت امیج دنیا بھر میں سامنے لایا گیا۔ فیسٹیول میں شرکت کرنے والے ہنرمند رات گئے تک جاری رہنے والے معاشی ،اقتصادی ،تجارتی ، کاروباری ،ثقافتی، سیاسی،ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا خود بھی جائزہ لے رہے ہیں۔کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن گیا ہے۔ 

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!

اس کے اصل حقائق سے شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد کو آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ ڈائریکٹرز ،پروڈیوسرز، رائٹرز اور فن کار دنیا کے ہرممالک اور ہر شہر سے واقف ہیں ۔ شہر کے پُرفضا مقامات ،ڈراموں اور فلموں کے لیے آئیڈیل ہیں۔ ماضی میں بھی کراچی میں بننے والے ڈراموں اور فلموں نے دنیا بھر میں زبردست شہرت حاصل تھی۔

ایک مرتبہ پھر کراچی دوبارہ فلمی صنعت کے لیے مرکز بن گیا ہے۔ فیسٹیول کے دوسرے روز کی تقریبات کے سلسلے میں دو پینل ڈسکشنز کا اہتمام کیا گیا ۔ پہلا پینل ڈسکشن’’جونرا بسٹرز‘‘کے عنوان سے تھا، جس میں فلم ’’شاہ‘‘کے ڈائریکٹر ،رائٹر اور پروڈیوسر عدنان سرور ،اینی میٹڈ فلم ’’ٹِک ٹاک‘‘کی پروڈیوسر ثنا توصیف،نامور اداکارہ عتیقہ اوڈھو،’’باہو بَلی‘‘کے ڈائریکٹر ایس ایس راجا مَولی ،اداکارہ نندیتا داس اور بھارتی اداکار وِنے پھاٹک نے فلم انڈسٹری کے مختلف ادوار اور اس دوران پیش آنے والی تبدیلیوں پر تفصیلی گفتگو کی، لیکن یہاں فلم فیسٹیول کی انتظامیہ نے پاکستان کے نامور فن کاروں اور فلم سازوں کو نظر انداز کیا ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان سے جاوید شیخ ، ندیم، غلام محی الدین، ہمایوں سعید، شان،صبا قمر،ماہرہ خان اور مہوش حیات کو مدعو کیا جاتا تاکہ دونوں ملکوں کی فلمی صورتِ حال کا صحیح عکس سامنے آتا ۔فیسٹیول کی انتظامیہ سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ انہوں نے فیسٹیول کے سیشن کے لیے ثقافتی اداروں کا انتخاب کرنے کے بجائے نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کیا، اگر فیسٹیول کے سیشن آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ، ’’ناپا اکیڈمی ‘‘، پاکستان امریکن کلچرل سینٹر اور انڈس ویلی میں منعقد کیے جاتےتو اُس کے شان دار نتائج سامنے آتے ۔فلم فیسٹیول کے دوسرے دن کا دوسرا پینل ڈسکشن ’’فرام اِسکرپٹ ٹو اسکرین اینڈ بی اونڈ‘‘کے عنوان سے ہوا، جس میں معروف فلمی صحافی کامران جاوید، امین فاروقی، طاہر موسیٰ اور بھارتی فلم ہندی میڈیم کے مصنفہ زینت لاکھانی اور اس فلم کے ڈائریکٹر سکت چوہدری نے شرکت کی ۔

فلم فیسٹیول کے دوسرے دن شام کے وقت پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فیسٹیول میں شریک ہنرمندوں اور فن کاروں کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام مو ہٹہ پیلس میں کیا، جس میں سندھ گورنمنٹ کے اعلیٰ افسران اور سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی۔

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ فلم فیسٹیول کے ذریعے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پرکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہم نے ہمیشہ نئے ٹیلنٹ کو اُجاگر کیا ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ آج پاکستان کی فلم انڈسٹری ترقی کررہی ہے اور بھارت کے فلم ساز اور ہدایت کا ربھی پاکستان آکر ان کے کام کو پسند کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کراچی فلم سوسائٹی کی صدر سلطانہ صدیقی ،ڈاکٹر عشرت حسین ،جاوید جبار ، شرمین عبید چنائے ودیگر اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

فلم فیسٹیول کے تیسرے دن دو پینل ڈسکشنز بعنوان ’’فلمز فار چینج ،سوشلی موٹیویٹڈ کانٹنٹ ان سائوتھ ایشین فلم انڈسٹری‘‘اور ’’دی فیوچر آف میوزک اینڈ لیرکس‘‘کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں ہدایت کار جامی، سبھاش کپور، وِشال بھردواج ، آصف نورانی، سلطان ارشد، ریکھا بھردواج ، ڈاکٹر عمر عادل ،ارشد محمود اور پاکستانی اور بھارتی فلموں کے نامور اداکار اور گلوکار علی ظفر نے اپنے دلی جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔ 

فیسٹیول میں فلم ’’کیک‘‘کے علاوہ مزید 7فلموں کے پریمیئرز بھی ہوئے جن میں ’’دی ویلی‘‘،’’لالہ بیگم‘‘،’’مومل رانو‘‘،’’زراب‘‘،’’دی سانگ آف اسکارپینز‘‘،’’کچھ بھیگے الفاظ ‘‘، ’’دی وِشنگ ٹری‘‘اور اینی میٹڈ فلم ’’ٹِک ٹاک‘‘وغیرہ شامل تھیں۔ فیسٹیول میں بھارت کی مقبول اداکارہ نندیتا داس نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں 9برس بعد پاکستان آئی ہوں ، میں نے محسوس کیا کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ میں نے فلم ’’کیک‘‘دیکھی تو وہ مجھے بہت اچھی لگی ۔ 

پاکستان فلم انڈسٹری کے نئے ہدایت کار اور پروڈیوسرز محنت اور لگن سے کام کررہے ہیں۔ فن کارکسی بھی ملک کا ہو جب تک اُسے مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا، کام یابی نہیں ملتی۔ بالی وڈ میں بھی کئی مسائل چل رہے ہیں، ایک زمانے میں جب میری فلم ’’فراق‘‘ریلیز ہوئی تو اُس کے بعد مجھے سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ 

میرے گھر کے باہر ایک ماہ تک پولیس نے پہرہ دیا۔ میری جن فلموں پر بھارت میں پابندی لگ جاتی ہے۔جن کی DVD پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آسانی سے مل جاتی ہے۔ میں شروع سے ہی کمرشل فلموں میں کام کرنے کے قائل نہیں رہی، ہمیشہ بامقصد فلموں کو ترجیح دی۔ برِصغیر کے عظیم رائٹر سعادت حسن منٹو دونوں ملکوں کے ہیں، اسی لیے تو پاکستان اور بھارت میں اُن کی زندگی پر فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ 

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!

میں نے بھی اُن کی زندگی پر فلم بنانے کی کوشش کی ہے، جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ کراچی کئی بار آئی ہوں، میں نے ایک زمانے میں کئی دن پاکستان میں گزارے۔ جیو کے ساتھ ایک فلم کی تھی، جس کا نام ’’رام چند پاکستانی‘‘تھا ۔ اُس کی شوٹنگ کے دوران لوگوں نے جس محبت اور پیار سے نوازا، اُسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔کراچی کے لذیذ کھانے بہت شوق سے کھاتی ہوں ۔ گوشت سے بنے ہوئےلذیذ کھانے مجھے بہت پسند ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں پاکستان فلم انڈسٹری میں بہت بدلائو نظر آیا ہے اور یہ آہستہ آہستہ ترقی کرتی جارہی ہے ۔ 

پاکستان کے فن کاروں میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے میری خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے فن کار ایک دوسرے کی فلموں اور ڈراموں میں زیادہ سے زیادہ کام کریں ۔پوری دنیا میں سینما میں نت نئے تجربات کیے جارہے ہیں اور کوئی بھی پروڈیوسر ، ڈائریکٹر رِسک لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تمام فلم ساز صرف پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ عوام کو کیا پسند ہے ، فلموں بینوں کے کیا مسائل ہیں ، کون سی فلم دل میں اُتر جاتی ہے، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ،ایسی فلمیں نہیں بنائی جارہی ہیں جو معاشرے کی سچی عکاسی کرتی ہوں۔‘‘

فلم فیسٹیول میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز سپر ہٹ فلم ’’باہو بَلی‘‘کے ہدایت کار ایس ایس راجا مَولی رہے۔ انہوں نے چار روز تک مختلف ملاقاتوں میں بڑی محبتوں اور چاہتوں کا اظہار کیا، وہ کراچی آکر بہت خوش دِکھائی دے رہے تھے ۔اُن کا کہنا تھا کہ میں پاکستانیوں کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے میری فلموں کو پسند کیا،یہاں کی مہمان نوازی کے بارے میں جیسا سُنا تھا ، اس سے بھی اچھا محسوس کررہا ہوں۔ 

یہاں کے لوگ بہت محبتی اور آرٹ کے دیوانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نان ویجیٹرین ہوں، کراچی کے کھانے بہت مزے کے ہیں، کراچی آنا ایسے ہی لگا، جیسے حیدر آباد سے ممبئی آگیا ہوں۔کراچی اور ممبئی میں کوئی فرق نہیں لگا۔ اپنی نئی فلم میں اپنے پہلے ہیرو کے ساتھ دوبارہ کام کر رہا ہوں۔ 1980سے پہلے پاکستان کی فلموں کی تعریف بہت سنی تھی، یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں کی فلم انڈسٹری کو زوال ہوا، لیکن خوشی ہے کہ اب یہاں بہت سنجیدگی سے کام ہورہا ہے۔ 

پہلی بار پاکستان کا وزٹ کیا ہے، یہاں کے نوجوان فلم میکرز میں جنون دیکھا ہے، کام یابی کے لیےمحنت کے ساتھ سچائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ راحت فتح علی خان اور علی ظفر اچھے فن کار ہیں۔مجھے ہندی اور اردو بولنا نہیں آتی، لیکن تھوری بہت سمجھ لیتا ہوں۔‘‘

پاکستانی اور بھارتی فن کاروں کا میلہ!!

فیسٹیول کے آخری دن بہت گہما گہمی دیکھنے میں آئی، فیریئر ہال میں رنگا رنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب سمیت ان گنت فن کاروں اور ہنر مندوں نے شرکت کی۔تقریب تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب نے فن کاروں میں ایوارڈز بھی تقسیم کیے، جن میں علی ظفر، فہد مصطفٰی،ندیم بیگ، مہوش حیات، ہانیہ عامر، رانا کامران وغیرہ شامل تھے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان مین پہلی مرتبہ فلم پالیسی بنائی، اس سلسلے میں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ہم نے فلم پالیسی کا تمام فن کارون کے مشوروں کے بعد اعلان کیا تھا۔

فیسٹیول کے سلسلے میں ہماری حکومت نے بھر پور معاونت کی، ہم نے ہمیشہ فن و ثقافت کو فروغ دیا۔‘‘ بعد ازاں عالمی شہرت یافتہ سنگر عابدہ پروین نے تقریب میں عارفانہ کلام پیش کیا۔عابدہ پروین کی پرفارمنس رات سوا ایک بجے شروع ہوئی، جب تک تقریب کے مہمانوں کی تعداد آدھی رہ گئی تھی۔بہر حال چار روز تک جاری فلم فیسٹیول اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اتوار کی شب عابدہ پروین کی دل چھولینے والی پرفارمنس کے ساتھ اختتام پزیر ہوا۔

تازہ ترین