• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھا حقیقت کی کھوج یا تلاش کرتے جنگلات میں نکل گیا برسوں مارا مارا پھرتا رہا لیکن کئی داناؤں کا استفسار ہے کہ بدھا کس سچائی یا گاڈ کی تلاش میں نکلا تھا؟ وہ تو اس کے کمرے میں موجود تھا، لہٰذا عصرِ حاضر کے ہر ماڈرن بدھا کی خدمت میں التماس ہے کہ بھوکے پیاسے رہ کر جنگلوں میں مارے مارے پھرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ وہ اپنے گھر کے کسی محفوظ گوشے میں بیٹھ کر پورے سکون اور انہماک کے ساتھ انٹرنیٹ یا اوریجنل پرنٹڈ میٹریل کا مطالعہ کرے انشاء اللہ حقائق تک پہنچ کر نروان پا جائے گا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ فی زمانہ سچ میں جھوٹ کی اتنی زیادہ آمیزش کردی جاتی ہے کہ عام انسان کے لئے دونوں میں حد فاصل یا روزِ روشن جیسا قطعی برہان و فرقان واضح کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی بندہ اس بات پر تل جائے کہ وہ اصل روٹس تک ضرور پہنچے گا تو ہمارا دعویٰ ہے کہ قدرت اس کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی۔
وطنِ عزیز کی موجودہ صورتحال پر غور کرتا ہوں تو آج یہاں ہر معاملے میں کنفیوژن اس قدر شدید دکھتی ہے کہ عام آدمی دوراہے یا چوراہے پر کھڑے اپنے الجھاؤ کو سلجھاؤ میں نہیں بدل پاتا۔ اُسے سمجھ نہیں آتی کہ وطنِ عزیز میں اس وقت جمہوریت نافذ العمل ہے یا غیر اعلانیہ و نادیدہ آمریت مسلط ہو چکی ہے۔ کیا یہاں کبھی کہیں جمہوریت فی الحقیقت تھی بھی؟ کیونکہ خالص آمریت کا تسلط تو سب کو دکھائی دیتا ہے مگر جب جمہوریت اپنی بلندیوں پر ہوتی ہے تب بھی طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہوتا ہے۔ اصل فیصلے کہیں اور سے صادر ہوتے ہیں جو انہیں مانتا ہے وہ جان کی امان پاتا ہے جو چوں چرا کرتا ہے وہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتا ہے۔
درویش جیسا ملامتی صوفی تلملا اٹھتا ہے اے میرے قائد کیا آپ نے یہ ملک اس لئے بنایا تھا کہ ہم گوری چمڑی سے کالی چمڑی کے مستقل غلام بن کر رہ جائیں مولوی غلام، قاضی غلام، چوہدری غلام، کاروباری غلام، سیاسی غلام، صحافی غلام، سرکاری غلام، کھلاڑی غلام، اناڑی غلام۔ خاندانِ غلاماں زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔
ملامتی صوفی کی جبر کے خلاف ہمیشہ جنگ رہی ہے وہ چلاتا ہے کہ اس ڈھکے ظلم کے خلاف اٹھو، زور زور سے چلاؤ کہ احتجاج زندگی کی علامت ہے، مردے کو پھٹے پر ڈال دو، چاہے چارپائی پر لٹا دو اس بیچارے نے تو کبھی چوں چرا نہیں کرنی کیونکہ اس میں ہل چل چھوڑ ہل جل کی بھی استطاعت نہیں ہوتی ۔ البتہ سوال یہ ہے کہ ایک اکیلے کے احتجاج سے کیا ہوتا ہے اس کے لیے تو عوامی ریلا یا جتھہ درکار ہے مگر جب کنفیوژن شدید تر ہو تو ریلا یا جتھہ کہاں سے آئے گا؟ یہاں تو سب سے آسان کام قوم میں کنفیوژن پھیلانے کا رہ گیا ہے۔ اس مبینہ ٹارگٹ کے حصول کو آسان بنانے کے لئے پاپولر نعروں کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے پہلے جمہوریت کا راگ الاپنے والی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے مذہبی نوعیت کے نعروں سے کام چلا لیا جاتا تھا۔ جب سے اس غبارے کی ہوا کم ہوئی ہے تو کرپشن کے پاپولر نعرے نے اس کی جگہ لے لی ہے سوائے دو مقدسات کے یہاں ہر بندہ کرپٹ ہے جو جمہوریت، آئین یا پارلیمنٹ کی بات کرے وہ مہا کرپٹ ہے۔ ایبڈو کا ’’منصفانہ‘‘ شکنجہ اب نیب کا روپ دھار چکا ہے نام میں کیا رکھا ہے اصل بات تو کام میں ہے ۔
آج ارادہ تو معروف چوہدری صاحب پر خامہ فرسائی کا تھا مگر پہلے کی طرح اب کے بھی یہ ٹوٹ گیا شاید ارادوں کے ٹوٹنے سے ہی ہم نے حقیقت کو پہچان لیا، لیکن اندر خانے اس نوع کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ یہاں میراث پن کی راہیں تو کشادہ ہیں البتہ اگر حکیم حاذق بن کر پورے تہذیبی تقاضوں کے ساتھ نشتر زنی کرنی ہوتو اس کی ممانعت ہے چاہے پھوڑا کتنا ہی خطرناک کیوں نہ بن چکا ہو لہٰذا آج آزادی اظہار کے بیانیے تک محدود رہتے ہوئے عرض ہے کہ جب تک جبر کی عملداری کے ساتھ آزادی اظہار مفقود رہے گی تب تک ہمارے سماج میں کسی ملامتی صوفی کے ابا جان بھی جمود کی طاقت کے سر نہیں چڑھ سکتے۔
کہنے کو یہاں آئین پاکستان نافذ العمل ہے جس کے مطابق دیگر تمام ادارے منتخب سویلین اتھارٹی کا حکم ماننے کے پابند ہیں لیکن کھلے بندوں پوری ڈھٹائی سے سویلین منتخب اتھارٹی کی ہدایات کی پروا نہیں کی جاتی جو شدت پسند گروہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے قومی املاک کو توڑتے ہیں پورے سسٹم کو کئی ہفتوں تک مفلوج کیے رکھتے ہیں انہیں باقاعدہ کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اس جمہوری مملکت میں آئین قانون اور جمہوریت کا کس قدر مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی شہ رگ پر جب چاہے انگلی رکھی جا سکتی ہے۔ اگر منتخب حکومت کے بازویوں مروڑ ے جا سکتے ہیں تو جب کمزور کئیرٹیکر حکومت آئے گی تو نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا جاسکے گا۔ پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے میڈیا کے سامنے جس نوع کی کالز سنائی تھیں ان کا جائزہ لیا جا سکا نہ کسی کارروائی کیلئے اقدام اٹھایا جاسکا۔
وطنِ عز یز کے تمام سنجیدہ طبقات کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ ہر لمحہ بیرونی ظلم و ستم کا رونا رونے کے بجائے یہ سوچیں کہ خود اپنے ملک کے اندر روا رکھی گئی زیادتیوں کا مداوا کیسے کر سکتے ہیں ہمارے نشریاتی ادارے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے جبر کے خلاف شکایت لے کر جائیں تو کہاں جائیں؟ آزاد عدلیہ کی آزادی سب کے سامنے ہے۔ منتخب حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی ملک میں سفیر کی تعیناتی سے بھی قاصر ہے ۔ یہی وہ حالات ہیں جب جبر کے ہاتھوں بے بس لوگ عالمی سطح پر اپنی آواز اٹھانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف اسے ملک دشمن پروپیگنڈے کا نام دیا جاسکتا ہے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ بے بس اور مجبور لوگ اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کیلئے کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں وہ انصاف کیلئے کہاں جائیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین