• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 جب اسٹیو جابس کی کہانی

ضروری نہیں کہ آپ ایپل پروڈکٹس استعمال کرتے ہوں یا آپ کی جیب میں آئی فون ہو لیکن یہ بات یقینی ہےکہ آپ نےاسٹیو جابس کا نام ضرور سن رکھا ہوگا۔ اسٹیو جابس امریکی بزنس مین، موجد اور ایپل کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انہیں اپنی کمپنی سے نکالا گیااور پھر دوبارہ سربراہ بنایا گیا اوراس کے بعد اسٹیو جابس نے کمپنی کو دنیا کی امیر ترین کمپنی بنا دیا ۔ 

ان کے ایجاد کردہ میوزک پلیئر یا iPOD کی نوجوان نسل دیوانی بن گئی اور جابس نے اربوں ڈالر کمائے۔ اسٹیو جابس جب بھی کوئی نئی پروڈکٹ کی رُو نمائی کرنے جارہے ہوتے تو چاہتے تھے کہ وہ ٹائم میگزین کے سرِ ورق کی زینت بنے یا سی این این پر اُس کی اسٹوری چلے۔

ایپل نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق کمپنی نے مجموعی طور پر88 ارب 30 کروڑ امریکی ڈالر کمائے۔اگرچہ کمپنی کی کمائی میں 13 فیصد اضافہ دیکھا گیا، تاہم یہ کمائی ان اندازوں سے کم نکلی، جس کے امریکی کاروباری اداروں نے اندازے لگائے تھے۔رپورٹ کے مطابق جنوری 2018 تک دنیا بھر میں ایپل کی ہر طرح کی ایکٹو ڈیوائسز کی تعداد ایک ارب 30 کروڑ تک پہنچ گئی۔جو کمپنی کے لیے ایک نیا سنگ میل ہے۔ یکم فروری کو جاری کی گئی رپورٹ میں ایپل نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں کمپنی کے شیئر کی کمائی میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جب کہ کمپنی نے اپنے منافع سے اپنے سرمایہ کاروں کو بھی 14 ارب ڈالر سے زائد کی خطیر رقم واپس بھی کی۔

اسٹیو جابس (Steve Jab,s)نے1972ء میں ریڈ کالج میں داخلہ لیا۔ وہاںجابس نے کیلی گرافی اور آڈیٹنگ کی کلاسوں میں شرکت کی۔وہ ایک لااُبالی، بے حد شرارتی اور ہٹ دھرم لڑکا تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے قانون شکنی کا ارتکاب کیا جس پر اسے کالج سے نکال دیا گیا۔ یہاں سے اسٹیو جابس کی زندگی تعلیم سے بزنس کی جانب رُخ کرلیتی ہے۔ بزنس جو سراسر پریکٹس کا نام ہے، اسٹیو دو وجہ سے اس کام کے یے فطرتاً بہت سازگار تھے ایک، انہوں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ ایک تکمیل پسند آدمی ہے۔

جس کام کا آغاز کرتے ہیں اسے نہایت عمدگی سے جاری رکھتے ہوئے تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔چنانچہ انہوں نے اپنے والد سے یہ چیز سیکھی اور اپنی رگ و پئے میں بسالی۔ دوسرے، اسٹیو کی طبیعت ہٹ دھرم تھی، جس کا ذرا مثبت رخ یہ تھا کہ ’’اسٹیو‘‘ سوچ و فکر کے بعد ایک رائے کو اختیار کرتے اور اس پر مضبوطی سے جم جاتے۔ یوں وہ ان دو صفات کے ساتھ تجارت کے میدان میں اتر ے۔

ریڈ کالج میں آڈیٹنگ کی کلاسیں لیتے ہوئے ان کی دوستی اپنے ہم نام ’’اسٹیو واز نیک‘‘ سے ہو گئی اور انہوں نے مل کر کام کرنے اور کوئی نئی ایجادبنا نے کا فیصلہ کیا۔ اَن تھک کوشش کے نتیجے میں محنت کا پہلا شاہکار The Apple 1نام کا کمپیوٹر اور چند جدید آلات تیار کرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ ’’دی ایپل ون‘‘ وہ مقام ہے جہاں سے یہ دونوں دوست ایک نئے روپ میں دنیا کے سامنے آتے ہیں۔ یہ نکتہ ان کی کامیابیوں کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور اس کے بعد کامرانیوں کی موسلا دھار بارش ان کا مقدربنتی چلی گئی ۔

 جب اسٹیو جابس کی کہانی

1984 میں اسٹیو جابس مین ہٹن آئے تھے تاکہ ٹائم میگزین کے ایڈیٹرز کے ساتھ لنچ کرکے ایپل کے نئے میکنٹوش کمپیوٹر کا تعارف کرو اسکیں۔ وہ اُس وقت بھی تُند مزاج تھےاور ٹائم کے ایک نامہ نگار کے ساتھ اُن کارویہ جارحانہ تھا کہ اُس نے اُسے ایک ایسی اسٹوری سے زک پہنچائی تھی جس میں بہت انکشافات تھے۔ جب اسٹیوکو کوئی نئی چیز متعارف کرانی ہوتی تھی، جیسا کہ اگلا کمپیوٹر یا پکسار مووی، اُن کی مسکراہٹ بتا دیتی تھی کہ یہ ان کے اب تک کے کئے جانے والے کام میں سے بہترین کام ہے۔

جب اُن کو ایپل میں بحال کردیا گیا تو ان کی تصویر ٹائم میگزین پر شائع ہوئی۔ پھر انہوں نے اپنی مہم " مختلف سوچو" ( Think Different) شروع کی۔ اسٹیو کی استقامت بلا کی تھی ۔ وہ اپنی خلوت کو کسی کے ساتھ شریک نہ کرنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ جب وہ بارہ سال کے تھے تو ایک فریکئونسی کاؤنٹر بنانا چاہتے تھے اور اُنہوں نے نے فون بک میں بل ہیولٹ ( HP کے بانی) کو دیکھ کر اُس کو فون کیا تاکہ پرزے حاصل کرسکے۔بعد میں اسٹیو جابس نے ایک ایسی کمپنی کی تخلیق جو جدید تخلیقی صلاحیتوں سے اتنی مالا مال تھی کہ ہیولیٹ پیکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

گہری شخصیت کے حامل ایک تخلیقی انٹرپرینیور (entrepreneur ) اسٹیو جابس کی اتار چڑھائو سے بھر پور زندگی کے باوجود اپنےکمالِ فن کے جذبہ اور جارحانہ طرز نے چھ صنعتوں میں انقلاب برپا کردیا: پرسنل کمپیوٹر، animated موویز، موسیقی، فون، ٹیبلٹ کمپیوٹنگ اور ڈیجیٹل پبلشنگ۔۔ آپ اس میں ساتویں صنعت، ریٹیل اسٹورز کی شامل کرسکتے ہیں، جس میں جابس اگرچہ انقلابی تبدیلی نہیں لائے لیکن انہوں نے اُس کے بارے میں سوچا ضرورتھا۔

 اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ڈیجیٹل مواد کے لئےویب سائٹس کے برخلاف Apps کی بنیاد پر نئ منڈی کی راہیں کھولیں۔ اس راستے پر اُنہوں نے نہ صرف مصنوعات کو تبدیل کیا بلکہ، اپنی دوسری کوشش میں ایک ایسی دیرپا کمپنی بنائی، جس پر ان کی شخصیت کی گہری چھاپ تھی، اور جس میں ایسے ڈیزائنرز اور بہادر انجینیئرز بھرے پڑے تھے جو اُس کے وژن کو لے کر آگے بڑھ سکتے تھے۔ اگست 2011 میں وہ اس ادارے کے سی ای او کے عہدے سے ہٹ گئے ، جو انہوں نے اپنے والدین کے گیراج سے شروع کیا تھا اوراب دنیا کا سب سے اہم ادارہ بن چکا تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایسے راستے تلاش کررہا ہے تاکہ اپنی ایجادات کا پلڑا بھاری رکھ سکے اور جب دنیا بھر کے معاشرے یہ تگ و دو کر رہے ہیں کہ ڈیجیٹل عہد کی اختراعی اقتصادیات بنا سکیں، جابس کی شخصیت اختراع، تخیل، اور دیرپا ایجاد کیلئے مشعل راہ ہے ۔ 

وہ جانتےتھے کہ اکیسویں صدی میں اسی کی اہمیت ہوگی جو تخلیق کو ٹیکنالوجی سے جوڑے گا ، اسی لیےانہوںنے ایک ایسی کمپنی بنائی جہاں تخیلات کی راہوں کو بہترین انجینیئرنگ کے ساتھ ملایا گیا۔ وہ اور اُس کے ایپل کے ساتھی مختلف انداز میں سوچنے کے قابل ہوسکے: اُنہوں نے نہ صرف فوکس گروپ کے سہارے انتہائی جدید مصنوعات بنائیں، بلکہ ایسے نئے آلات اور سہولیات ایجاد کیں جو کہ صارف اُس وقت تک جانتا ہی نہیں تھا کہ اُسے اُس کی ضرورت ہے۔

وہ کوئی مثالی انسان نہیں تھے، کہ اُن کی پیروی کی جائے۔ غصے سے بھرپور وہ اپنے اطراف موجود لوگوں کو غصہ دلاسکتے تھے، مایوسی کی طرف دھکیل سکتے تھے۔ لیکن اُن کی شخصیت، جذبہ، اور مصنوعات ان سب کا آپس میں ربط تھا، بالکل اُسی طرح جیسے ایپل کا ہارڈویئر اور سافٹ ویئر ایک مربوط نظام کا حصہ لگتا ہے۔ ان کی کہانی نصیحت آموز ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے جو ایجادات، کردار، قیادت، اقدار کے اسباق کے ساتھ ہے اور رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین