• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

کرکٹ میچ کو حتمی انجام تک پہنچانے میں بیٹس مین کے ساتھ بالرز کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔بالرز کی کاوش کی وجہ سے فیلڈنگ کرنے والی ٹیم ہارا ہوا میچ جیت جاتی ہے، جس کی مثال 1979میں آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان میلبورن ٹیسٹ ہے۔ اس کی چوتھی اننگز میں آسٹریلین ٹیم نے تین کھلاڑیوں کے نقصان پر305رنز بنالیے تھے، اسے میچ جیتنے کے لیے صرف 76رنز کی ضرورت تھی جب کہ اس کے سات بیٹس مین باقی تھے۔ 

پاکستانی فاسٹ بالر، سرفراز نواز نے صرف ایک رن پر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے پاکستان کو فتح سے ہم کنار کرایا،یہ کر کٹ کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ اس اننگز میں انہوں نے تنہا 9وکٹیں لی تھیں۔ اسی طرح بعض دفعہ غیرذمہ دارانہ بالنگ کسی بھی ٹیم کے لیے تباہی کا باعث بن جاتی ہے، خاص طور سے محدود اوورزیعنی ٹی ٹوئنٹی اور 50اوورز کی کرکٹ میں جب بیٹس مین تیزی سے اسکور میں اضافہ کرنے کے لیے بلند و بالا شاٹ کھیل رہے ہوتے ہیں اور فیلڈنگ سائیڈ کی کوشش انہیں کم سے کم اسکور پر ،جلد سے جلد آؤٹ کرنے کی ہوتی ہے، کسی بھی بالر کا بدترین اوور میچ کا نقشہ بدل دیتا ہے۔

ذیل میں ایسے چند بالرز کا تذکرہ نذر قارئین ہے، جن کے اوورز، کرکٹ کی تاریخ کے بدترین اور مہنگے ترین اوورکہلائے اوران کی غیرضروری طوالت نے ٹیم کی شکست میں بدترین کردار ادا کیا ۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

محمد سمیع کا شمارشعیب اختر، وقار یونس اور وسیم اکرم کےبعد پاکستان کےتیز ترین بالرز میں ہوتا ہے۔کرکٹ کی ریکارڈ بک میں ان کے کئی کارنامے ثبت ہیں لیکن 2004میں ایشیا کپ کے ایک میچ میں انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا طویل ترین اوور کرایا۔اگرچہ پاکستان یہ میچ جیت گیاتھا لیکن سمیع کا اوور کرکٹ کی تاریخ کا بدترین حصہ بن گیا۔ 

محمد سمیع طویل عرصے تک اپنی تیزرفتار گیندوں کی وجہ سے حریف ٹیموں کے لیے درد سر بنے رہے، ریورس سوئنگ اور یارکر، ان کی بالنگ کا خاص ہتھیار تھے۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آخری میچ 2016میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا، جس کے بعد سے وہ قومی ٹیم سے باہر ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کے تینوں سیشنز میں وہ ایکشن میں نظر آئے اور اپنی تیز رفتار گیندوں کی وجہ سے مخالف بیٹس مینوں کو ہراساں کیے رکھا لیکن اس کے باوجودپی سی بی حکام انہیں قومی ٹیم میں شامل کرنے سے گریزاں ہیں، شاید اس کی وجہ ان کا مذکورہ طویل ترین اوور ہے۔

فاسٹ بالنگ میں سمیع نے کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں، بھارت کے خلاف ایک میچ میں ایک گیند162.3کلومیٹر یعنی 100.8میل فی گھنٹے کی رفتار سے کرائی جو کرکٹ کی تاریخ کی تیزترین گیند قرار دی گئی۔ایک ون ڈے میچ میں انہوں نے ایک گیند164کلومیٹر یعنی 101.9میل فی گھنٹے کی رفتار سے کروائی لیکن یہ غیر سرکاری میچ تھا، اس لیے ریکارڈ بک میں اس کا اندراج نہیں ہوسکا۔ 

2016میں آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، بنگلہ دیش پریمئر لیگ، پاکستان سپر لیگ اور ایشیاء کپ کے میچوں کے دوران 140میل فی گھنٹے کی رفتار سےبالنگ کرانے کا ریکارڈ قائم کیا، جس کی وجہ سے انہیں’’کراچی ایکسپریس‘‘ کا خطاب دیا گیا۔2001میں ڈبیو ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں انہوں نے آٹھ جب کہ دوسری میں 5وکٹیں لے کر پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بالر کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ ان کے اس کارنامے پرقومی ٹیم کے سابق کپتان، عمران خان نے انہیں ’’دو رحاضر کے میلکم مارشل‘‘ کا خطاب دیا۔

وہ قومی ٹیم کے واحد فاسٹ بالر ہیں جنہوں نے کرکٹ کے تینوں فارمیٹسن میں ہیٹ ٹرکس مکمل کیں۔ان خوبیوں کے باوجود ایشیا کپ میں کرایا جانے والا ایک اوور، ان کے کرکٹ کیرئیر پر بد نما داغ لگا گیا۔ 29جولائی 2004میں سری لنکا کے پریما داسا اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش سے مقابلے کے دوران بنگال ٹائیگرز نے میچ کے ابتدائی دو اوورز میں صرف چھ رنز بنائے تھے۔ محمد سمیع کا کرایا جانے والا تیسرا اوور جب شروع ہوا تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، اسے ایک روزہ میچ کا طویل ترین اوور کہہ سکتے ہیں۔اسٹرائیکر اینڈ پر حبیب البشر اور صالح تھے ۔

اس اوور میں محمد سمیع نے 7وائیڈ اور 4نوبال کرائیں، اس طرح ’’حقیقی ‘‘ گیندوں کے ساتھ ان کا یہ اوور 17گیندوں پر محیط رہا اور اس میں بنگلہ دیشی ٹیم کے اسکور میں 24رنز کا اضافہ ہوا۔اگرچہ پاکستان یہ میچ 6وکٹوں سے جیت گیا تھالیکن یہ بدترین اوور سمیع کے کیرئیر پر بدترین نقوش ثبت کرگیا۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

محمد عامرقومی ٹیم کے فاسٹ بالر ہیں جن کی تیز ترین گیندوں نےکئی میچوں میں ملک کو فتح سے ہم کنار کرانے میں مثبت کردار ادا کیا۔ لیکن برطانیہ کے ساتھ میچ میں ایک نو بال نہ صرف ان کے کرکٹ کیرئیر کی تباہی کا باعث بنی بلکہ ان سمیت تین قومی کرکٹرز کو اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں قید و بند کی سزائیں بھگتنا پڑیں۔ ان کے اس اوور نے دنیا کی نظروں میں پاکستانی کھلاڑیوں کا تشخص بھی منفی انداز میں پیش کیا۔ 26 اگست 2010 ء کو لارڈز کے میدان میں پاکستانی ٹیم ،کپتان سلمان بٹ کی قیادت میں ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی، کرکٹ کے نا قدین محمد عامر کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا رہے تھے۔ 

لیکن انگلش ٹیم کے خلاف کرایا جانے والا ان کا ایک اوور ملک و قوم کے لیے بہت برا ثابت ہوا۔ اس اوور میں اگلا پیر کریز سے خاصا آگے رکھتے ہوئے انہوں نےبال کرائی، جسے ایمپائر نے نو بال قرار دیا۔یہ کوئی معمولی نو بال نہ تھی، شام تک دنیا بھرکے ٹیلی ویژن، بریکنگ نیوز کے طور پر یہ خبر دے رہے تھے کہ، پاکستانی بالر محمد عامر نے سٹے بازوں کا آلہ کار بن کر ،میچ کیا اور نو بال کرائی۔ اس خبر نے دنیا بھر میں بھونچال برپا کردیا، جس کی لپیٹ میں کپتان سلمان بٹ، بالر محمد آصف اور محمد عامر آئے۔

اس میچ کے بعد آئی سی سی کی جانب سے تحقیقات کا آغاز ہوا اور اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا سنا کر تینوں کھلاڑیوں کو جیل بھیج دیا گیا اور ان پر ہر قسم کی کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ سزا پوری ہونے کے بعد محمد عامر پر سے پابندیاں ہٹادی گئیں، اب وہ دوبارہ بین الاقوامی میچز میں ٹیم اسکواڈ کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن ان کا مذکورہ اووران کے کیریئر کو ہمیشہ کے لیے داغ دار بنا گیا۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

جیسن محمدکے نام سے پہچانے جاتے ہیں، میڈیم فاسٹ بالر، آل راؤنڈراور ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم کے موجودہ کپتان ہیں۔2015کے کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک میچ میںان کا اوور انتہائی مہنگا ثابت ہوا۔ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ کے خلاف گروپ ’’بی ‘‘ کے نویں میچ کے دوران پروٹیز بلے باز، اے بی ڈی ویلیئراسٹرائیکر اینڈ پر کھڑے تھے۔جیسن نےانہیں اپنے اوور کی پہلی گیند کرائی جونو بال تھی، جس پرویلیئر نے چوکا مارا اور پروٹیز ٹیم کو پہلی ہی گیند پر پانچ رنز مل گئے۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسن مزید گیندیں کرانے میں احتیاط سے کام لیتے لیکن انہوں نےبدستور غیرذمہ دارانہ بالنگ کرائی۔ 

اگلی گیند پرویلیئر نے چھکا لگایا، اس طرح ایک بال پر جنوبی افریقہ کا اسکور 11رنز پر پہنچ گیا۔ اس اوور میں جیسن نے 3نو بال کرائیں جو 9گیندوں پر مشتمل رہا۔پروٹیز ٹیم نے اس اوور میں 38رنز اسکور کیے جو عالمی ٹورنامنٹ کا مہنگا ترین اوور ثابت ہوا۔ جیسن کے مذکورہ بدترین اوور نے کریبیئن ٹیم کو فتح سے دور کردیا اور جنوبی افریقہ نے عالمی ٹورنامنٹ کایہ اہم میچ، بھاری مارجن سے جیت لیا۔

برٹ وانس نیوزی لینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر،رابرٹ ہوبارڈ برٹ وانس کا انٹرنیشنل کرکٹ کیرئیر'1988سے 1989تک ایک سال کے عرصے پر محیط رہا لیکن کرکٹ کی ریکارڈ بک میں ان کا نام ایک منفی کارنامے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیےثبت ہوگیا۔ انہوں نے کرکٹ کی تاریخ کا مہنگا ترین اوور کرایا تھا۔ وانس وکٹ کیپر بیٹس مین تھے اورویلنگٹن کی ٹیم کے ساتھ فرسٹ کلاس میچز میں حصہ لیتے تھے۔ 1989میں کنٹربری کی ٹیم کے ساتھ ایک میچ کے دوران ان کی حریف ٹیم بیٹنگ کررہی تھی اور اسے دو وکٹوں پر 96رنز درکار تھے، جب کہ صرف دو اوور باقی بچے تھے، فتح ولنگٹن کی ٹیم کا مقدر نظر آرہی تھی۔ 

آخری دو اوورز میں سے پہلا اوور کرانے کےلیے ولنگٹن کے کپتان نے گیند وانس کو دی۔ وانس نے 16نو بال دیں ، ان کایہ اوور22گیندوں پر مشتمل رہا ۔ اس اوور میں مخالف ٹیم نے وانس کی بدترین بالنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھکے چوکے لگاتے ہوئے 77رنز بنائے اور اگلے اوور میں مزید 18رنز کا اضافہ کرکے فتح حاصل کرلی۔ کرکٹ کی تاریخ کا یہ مہنگا ترین اوورثابت ہوا جس نے وانس کے کرکٹ کیرئیر کا خاتمہ کردیا۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

ڈیرل ٹفی نیوزی لینڈ کے لیجنڈ کرکٹراور میڈیم فاسٹ بالربھی ایک میچ میں بدترین اوور کرانے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ ڈیرل ٹفی نے ڈبیو میچ کی پہلی ہی گیند پر وکٹ لے کر عالمی ریکارڈقائم کیا تھا۔ 2002-3میں بھارت کے خلاف ہوم سیریز میں، نصف صد کے قریب اسکور پر8حریف بلے بازوں کو پویلین واپس بھیجاجب کہ متعدد میچوں میں پانچ سے زائد وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن مختلف النوع کارناموں کے با وجودان کا کرایا جانے والا بدترین اوور، ان کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر گیا۔ 2005میں آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ میں انہوں نے نیوزی لینڈ کرکٹ کی تاریخ کا مہنگا ترین اوور کرایا۔ 

جیسے ہی میچ شروع ہوا اور کینگروز کھلاڑی بیٹنگ کے لیے آئے، کیوی کپتان نے پہلا اوور کرانے کےلیے گیند ڈیرل ٹفی کو دی۔ ان کا مذکورہ اوور19گیندو ں پر محیط تھا، جس میں 4وائیڈ اور 9نو بالز اور چھ اصل گیندیں تھیں جب کہ آسٹریلیا کی ٹیم کے اسکور میں بغیر کوئی بھی بال کھیلے16رنز کا اضافہ ہوگیا۔ان کا یہ اوور کرکٹ کی تاریخ کے بدترین اوورز ہے۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

کرٹلے ایمبروزانٹیگا سے تعلق رکھنے والےویسٹ انڈیز کے تیز ترین بالر تھے اور آئی سی سی رینکنگ میں متعدد مرتبہ اولین پوزیشن پر براجمان رہے۔ان کا کرکٹ کیرئیر 1988سے 2000تک بارہ سالوں پر محیط رہا، 1992میں ان کا انتخاب ’’وزڈن کرکٹر آف دی ائیر ‘‘ میں ہوا جب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ’’آئی سی سی ہال آف فیم‘‘ میں انہیں آل ٹائم کا بہترین کرکٹر قرار دیا گیا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود 1997میں ’’فرینک وورل ٹرافی‘‘ میں آسٹریلیا کے خلاف ایک میچ ، ان کی کارکردگی کے لیے بدنما دھبہ ثابت ہوا۔ 

اس میچ کے پہلے اوور میں ہی انہوں نے کینگروز ٹیم کے دو بلے بازوں کو آؤٹ کیا، لیکن ان کا کرایا جانے والا تیسرا اوور، 15گیندوں کا ثابت ہوا، جس میں 9نو بال شامل تھیں ، صرف یہی نہیں بلکہ جب وہ میچ کا پانچواں اوور کرانے آئے، تو اس میں انہوں نے چھ نو بال کرائیں اور ان کا مذکورہ اوور12گیندوں کا ثابت ہوا۔ فرینک وورل ٹرافی کے یہ دونوں اوورز ،ان کے کیرئیر پر بداثرات مرتب کرگئے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ناقدین کی جانب سے ان پر انگشت نمائی ہوتی رہی۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’’بد ترین اوورز‘‘

ابھیشک نائربھارتی میڈیم پیسر،فرسٹ کرکٹر تھے جنہوں نے 2009میں صرف ایک بین الاقوامی میچ میں حصہ لیا تھا، جو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا گیا تھا۔ وہ زیادہ تر ممبئی کرکٹ ٹیم کی جانب سے فرسٹ کلاس میچز کھیلتے ہیں۔ 2013میں ان کا کرایا جانے والا ایک اوور بھارتی کرکٹ کی تاریخ پرسیاہ نقش چھوڑ گیا۔ ’’دیودھرٹرافی‘‘کے ایک روزہ میچ کے دوران ساؤتھ زون کی ٹیم کےخلاف بالنگ کراتے ہوئے انہوں نے بھارتی کرکٹ کی تاریخ کاانتہائی خراب اوور کرایا۔ 

میچ کے بارہویں اوور کی پہلی گیند پر انہوں نے مخالف بلے باز کے خلاف آؤٹ کی اپیل کی لیکن اپمپائر نے اسے وائیڈ بال قرار دیا۔ اس کے بعد حواس باختہ ہوکر انہوں نے غیر ذمہ دارانہ انداز میں بالنگ کرائی۔ ان کی زیادہ تر گیندیں وائیڈ اور نو بال رہیں۔ اس اوور میں ابھیشک نے 10وائیڈ اور ایک نو بال کرائی۔ اس طرح مجموعی طور سے انہوں نے 17گیندکرائیں۔

تیناشے پنیانگارا زمبابوے کرکٹ ٹیم کے میڈیم فاسٹ بالر تھے، جو چیمپئنز ٹرافی کے ایک میچ میں اپنے بدترین اوور کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔انہوں نے کرکٹ کیرئیر کا آغاز 2004میں بنگلہ دیش کے خلاف انڈر19ورلڈ کپ کے میچ سے کیا۔ اس میچ میں انہوں نے 6کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے اہم کردار ادا کیا، جس کی بنیاد پر انہیں زمبابوبے کی قومی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اسی سال برطانیہ میں ہونے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم اسکواڈ میں شامل ہوئے۔ 

ایجبسٹن میں برطانیہ کے خلاف گروپ ڈی کے پہلے میچ میں پنیانگارا نے چیمپئنز ٹرافی کی تاریخ کا طویل اوور کرایاجو کرکٹ کی ریکارڈ بک میں بدترین اوور کے طور پر رقم ہوگیا۔ اس اوور میں انہوں نے سات وائیڈ بال کرائیں اور ان کا مذکورہ اوور 13گیندوں پر مشتمل رہا۔

ڈان وان بنگے’’ڈان لوڈے وجک سموئیل وان بنگے‘‘، ہالینڈ کے لیگ بریک بالر تھے اور بیٹس مین کے طور پر بھی کھیلتے تھے۔ انہوں نے 2002میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں سری لنکا کے خلاف ڈبیو میچ کھیلا جس میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرکےنیدر لینڈ کی قومی ٹیم میں جگہ بنالی۔ 

2006میں جنوبی افریقہ کے خلاف سینٹ کٹس کے مقام پر میچ کے دوران بنگے نے، ایک روزہ کرکٹ کا بدترین اوور کرایا۔ ان کے اس اوور میں پروٹیز بلے باز، ہرشل گبز نے لگاتار چھ چھکے لگا کر 36رنز اسکور کیے۔ اسے کرکٹ کی تاریخ کا مہنگا ترین اوور گردانا جاتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین