کہانی کب پیدا ہوئی اور کب تک جاری و ساری رہے گی، اس کا جواب اب تک کوئی نہیں دے سکا ہے، مگر دنیا میں جب تک کہانی موجود رہے گی اس وقت تک سعادت حسن منٹو کا نام زندہ رہے گا، کیوں کہ اس وقت تک منٹو کی کہانی بامعنی رہے گی۔ بلکہ اس میں نئے زاویے پیدا ہو تے رہیں گے۔
کہانیاں یا افسانے ہمیں نہ صرف معاشرے میں رائج رجحانات کے بارے میں بتاتے ہیں بلکہ یہ تاریخی واقعات اور حالات کو بیان کرنے کے لیے ایک ایسی بہترین صنف ہے جس کے ذریعے ایک افسانہ نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسی ایسی شاہکار تحریروں کو جنم دیتا ہے جن کا اثر صدیوں تک جاری رہتا ہے۔کبھی یہی افسانے تمثیل میں لکھے جاتے ہیں تو کبھی تلخ حقائق کو نرم الفاظ کا لبادہ پہنا کر بیان کیا جاتا ہے اور ایک شاہکار افسانہ قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے۔
آج کم و بیش دنیا کی ہر زبان کے ادب میں ہمیں شاہکار کہانیاں ملتی ہیں۔ اردو ادب کی خوش قسمتی رہی ہے کہ اسے اپنی کہانیوں کے ذریعے ایک طلسم کدہ تعمیر کرنے والا کرشن چندر، امرتا پریتم جیسی حقیقت نگار اور راجندر سنگھ بیدی جیسے بہترین افسانہ نگار بھی ملے۔اسی ادب نے عصمت چغتائی کے دیوانے پیدا کیے اور احمد ندیم قاسمی سے لے کر ابدال بیلا تک ایسے معتبر افسانہ نگار دیے جنہیں آج بھی بڑے احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ مگر اردو افسانے کا ذکر تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں سعادت حسن منٹو کو شامل نہ کیا جائے۔
سعادت حسن منٹو کا فن اور شخصیت آج تک موضوع بحث ہے۔ لالی وڈ میں’’منٹو‘‘بن چکی اور بالی وڈ میںزیر تکمیل ہے اور ڈرامے بھی لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ممتاز افسانہ نگار مصنف سعادت حسن منٹوپردہ سیمی کے ذریعے زندہ ہوئے ۔ان کی زندگی پر فلم کے ایک مکالمے میں منٹو کہتا ہے کہ’’میں آگ بیچتا ہوں صفیہ آگ‘‘…سرمد کھوسٹ نے اس فلم کے ذریعے منٹو کی آگ ہر طرف پھیلا دی ۔برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائی گئی فلم ’’منٹو‘‘ جیو فلمز کے بینر تلے ریلیز ہوئی ۔
منٹو جس کی تحریروں پر ساری زندگی تنقید ہوتی رہی اور پابندیاں لگتی رہیں وہ پر دہ سیمی کی زینت بنے۔’’ منٹو‘‘ کی کہانی شاہد ندیم نے لکھی تھی۔ اداکاروں میں فلم اور ٹی وی کے کئی منجھے ہوئے ستارے تھے۔ مرکزی کردار تو سرمد سلطان کھوسٹ نے کیاتھا جو خود اس فلم کے ڈائریکٹر بھی ہیں اور یہ انکی پہلی فلم تھی۔
اس فلم کا مقصد موجودہ نسل کو منٹو کی زندگی کے آخری پانچ برسوں میں درپیش مشکلات اور اس عرصے میں منظرعام پر آنے والی شاہکار تحریروں سے آگاہ کرنا تھا۔ اداکاروں میں ماہرہ خان، نمرہ بچْا، ثانیہ سعید، نادیہ افگن، سوہائے ابڑو، سویرا ندیم، یاسرہ رضوی، حنا بیات، ارجمند رحیم، فیصل قریشی، رحمان شیخ، شمعون عباسی، ہمایوں سعید، عرفان کھوسٹ، اکبر سبحانی، علی شیخ اور عدنان جعفر شامل ہیں۔
میشا شفیع، زیب، جاوید بشیر اور علی سیٹھی نے گلوکاری کی تھی۔ فلم میں غالب، شیو کمار بٹالوی اور مجید امجد کی شاعری کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔
جاوید بابر کی پیشکش ’’منٹو‘ ‘کو جیو فلمز نے پروڈیوس کیاتھا۔ فلم میں تقسیم کے بعد کی منٹو کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور اس دور سے وابستہ اہم شخصیات کو فلم کے تانے بانے میں ڈال کر پیش کیاگیا تھا، مثال کے طور پر نورجہاں۔منٹو کی زندگی میں ملکہ ترنم نورجہاں کا اہم کردار رہا ۔
فلم میں یہ رول صبا قمر نے ادا کیا تھا جبکہ منٹو کی بیوی کے روپ میں ثانیہ سعیدنظر آئی ہیں۔فلم کی دو کہانیوں ’’مداری‘‘ و’ ’پشاور سے لاہور تک‘‘میں مائرہ خان نے اپنے اب تک ادا کئے رولز سے بالکل مختلف کردارنبھائے ہیں جو یقیناً ان کے مداحوں کے لئے خوشگوار سرپرائز ہیں۔فلم میں شامل
’’محرم دلاں دے ماہی‘‘
کے ذریعے شاعر شیو کمار بٹالوی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ میشا شفیع نے گانے کوخوبصورت انداز میں گایا ہے۔ مرزا غالب کے کلام
’’آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک‘‘
کو بھی جدت کے ساتھ فلم میں شامل کیا گیا جبکہ جاوید بشیر کے
’ ’کون ہے یہ گستاخ‘‘
نے منٹو کے حوالے سے جذباتی سماں باندھ دیتا ہے۔’ ’منٹو‘‘ کا میوزک علی سیٹھی نے ترتیب دی تھی۔ منٹو ہی کے نام سے بنائی جانے والی اس فلم میں منٹو کی زندگی کی کہانی ان کے افسانوں ہی سے ترتیب دی گئی ۔اس میں ان کی کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو اور ٹھنڈا گوشت جیسے افسانوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ فلم میں منٹو کی زندگی کے وہ آخری سال دکھائے گئے ہیں جب وہ پاگل خانے میں پہنچ گئے تھے۔یاد رہے کہ منٹو نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ممبئی میں گزارا اور اس دوران انہوں نے فلمیں بھی لکھیں اور انہیں ممبئی سے بہت پیار تھا۔
پاکستان میں جب منٹو پر فلم بنانے کا اعلان کیا گیا تو انڈسٹری اور منٹو سے دلچسپی رکھنے والے یہ جاننے کے لئے بے چین تھے کہ فلم میں منٹو کا کردار کون نبھائے گا۔اس کردار کے لیے اداکار کی تلاش میں بہت مشکل پیش آ ئی تھی۔اس سلسلے میں کئی اداکاروں پر غور کیا گیا کیونکہ منٹو کے کردار کے لیے ان کے قد کاٹھ کا حامل اداکار چاہیے تھا۔سرمدسلطان یہ بھی چاہتے تھے کہ منٹو کا کردار کرنے والا اداکار منٹو کو جانتا بھی ہو اور سمجھتا بھی ہو۔
اس پر انہوں نے خود ہی یہ کردار ادا کرنے کی ٹھانی اور اس حوالے سے کئی مصنفین اور منٹو کو پڑھنے والوں سے رابطہ قائم کیا اور اس حوالے سے ان کی مدد مانگی۔ سرمد سلطان کھوسٹ کے مطابق یہ کردار نبھانا بلاشبہ ان کے لئے ایک چیلنج تھاتاہم انہوںنے اسے بخوبی نبھایا۔ اس فلم میں ثانیہ سعید نے اہم کردار نبھایا ہے جس کے حوالے سے وہ بہت پرجوش بھی تھیں۔ ثانیہ سعید کا کہنا تھا کہ کردار نہیں منٹو اہم ہے۔ اس میں میرا کردار ایک سرپرائز تھا۔’’ منٹو‘‘ کا حصہ بننے پر ہم سبھی خوش تھے، اس فلم میں پروڈکشن کے اعلیٰ معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نہایت خوبصورتی کے ساتھ چیزوں کو پیش کیا گیا۔
ثانیہ سعید نے کہا کہ سعادت حسن منٹو کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتی اور نہ ہی ملاقات ہوئی مگر رائٹر اور ڈائریکٹر نے جیسا چاہا اسے اسی طرح کرنے کی کوشش کی ۔ مجھ سمیت سارے ہی فنکاروں کے لیے یہی اہم تھا کہ سعادت حسن منٹو پر بننے والی فلم ’’میں منٹو‘‘ میں کام کیا۔
بالی وڈکی اداکارہ وہدایتکارہ نندیتا داس انڈسٹری میں ’’منٹو‘‘ کے نام سے فلم بنارہی ہیںاس میں نوازالدین مرکزی کردار کررہے ہیں۔نندیتا کاکہنا ہے کہ منٹو کا کام ہمارے دور سے مطابقت رکھتا ہے۔ نندیتا داس نے 2006 میں اپنی پہلی فلم ’’ فراق‘‘ 2002 کے گجرات فسادات کے موضوع پر بنائی اور اس کے بعد وہ ہدایتکاری کے شعبے سے لگ بھگ 8 سال تک دور رہیں، تاہم منٹو پر فلم بنانے کا خیال ان کے ذہن میں 10 سال سے موجود تھا۔اداکارہ نے منٹو کو جاننے کے طویل سفر کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے کہاکہ مجھے منٹو کی جانب کھینچنے والی چیز ان کی آزاد روح اور جرات تھی جو انہیں ہر قسم کے پرانے خیالات کے خلاف کھڑی کرتی تھی، وہ اپنے کرداروں کے بارے میں ایک نایاب حساسیت اور ہم گدازی کے بارے میں لکھتے تھے، جیسے جیسے میں منٹو کی زندگی کی گہرائی میں گئی تو مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں اپنے والد، ایک فنکار کے بارے میں پڑھ رہی ہوں، مجھے احساس ہوا کہ ان کا کام ہمارے دور سے بہت زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔