• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گوگل، فیس بُک آپ کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں؟

سہیل بلخی

آپ کو کیسا لگتا ہے، جب گھر سے نکلنے کے بعد یاد آتا ہے کہ اسمارٹ فون تو گھر ہی بھول آئے؟ یا فون تو ہے، مگر چارج نہیں یا اچانک خراب ہو گیا ہے؟ یقیناً آپ سب کچھ بھول بھال کر موبائل فون کے حصول یا اسے چارج یا ایکٹیویٹ کرنے کی فکر میں مبتلا ہو جائیں گے .... بہت سے لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ’’ اب تو ہم اسمارٹ فون کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے- یہ ہماری زندگی کا لازمی جُز بن چکا ہے، اسے ہماری کم زوی سمجھیں یا طاقت…مگر اب اس سے دُور رہنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ گھر سے نکلتے وقت بٹوا بھول جائیں، تو کام چل سکتا ہے، مگر موبائل بھول گئے، تو گئے کام سے-‘‘

ہم میں سے ہر کوئی اپنے مزاج کے مطابق موبائل فون استعمال کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور ای میل اکاؤنٹس تو عام طور پر سب ہی استعمال کرتے ہیں، مگر اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، اس چوٹی سی ڈبیا میں…!! ہر فرد کی الگ دنیا ہے اور اسی طرح دِل چسپیاں بھی الگ، لہٰذا ہمارے لیے یہ جاننا آسان نہیں کہ کون کس مقصد کے لیے موبائل فون استعمال کرتا ہے۔ کون اس پر گیمز کھیلتا ہے، تو کون ڈرامے اور فلمز دیکھتا ہے اور اسے بزنس کے لیے کون استعمال کرتا ہے۔ یہ سب معلومات تو اُسے استعمال کرنے والوں ہی کے پاس ہوتی ہیں، مگر ذرا ٹھہریے…!! 

آپ کے علاوہ گوگل اور فیس بُک بھی تو ہیں، جو آپ کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی؎ ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے’’ گوگل‘‘ تو سارا جانے ہے۔‘‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے کمپیوٹر یا اسمارٹ فون پر ہم جو کچھ کرتے ہیں، گوگل وہ ساری معلومات محفوظ رکھتا ہے، چاہے آپ وہ انفارمیشن ڈیلیٹ بھی کر دیں، تب بھی وہ گوگل پر محفوظ رہتی ہیں- یہ ادارے ہماری کون کون سی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کر رہے ہیں، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے…!!

٭آپ کب، کہاں گئے تھے…؟؟ گوگل کو اس کا علم ہوتاہے، کیوں کہ وہ آپ کی تمام لوکیشنز محفوظ رکھتا ہے۔ جیسے ہی آپ موبائل فون آن کرتے ہیں، اُسے پتا چل جاتا ہے کہ آپ کس مقام پر کھڑے ہیں، بہ شرط یہ کہ آپ نے لوکیشن سروس آن کر رکھی ہو- اگر آپ چاہیں، تو درج ذیل لِنک پر جاکر دیکھ بھی سکتے ہیں کہ گوگل آپ کے آنے جانے کے بارے میں کیا بتا رہا ہے۔ //https:www.google.com/maps/timeline

٭اسی طرح آپ گوگل پر جو کچھ سرچ کرتے ہیں، وہ معلومات بھی اُس کے پاس محفوظ رہتی ہیں، چاہے یہ سرچنگ موبائل فونز سے کریں یا ڈیسک ٹاپ سے- اگر آپ اپنے موبائل اور کمپیوٹر سے’’ سرچ ہسٹری‘‘ ڈیلیٹ بھی کر دیں، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ گوگل کے سرور پر محفوظ ہی رہے گی۔ ہاں، آپ کو وہاں سے بھی ڈیلیٹ کرنے کے لیے //https:myactivity.google.com/myactivity پر جاکر ڈیلیٹ کرنا ہوگا۔ اگر آپ اپنی پرائیویسی کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں، تو پھر اس آپشن کو ضرور استعمال کرنا چاہیے تاکہ سرچ ہسٹری کسی سے بھی شیئر نہ ہو سکے۔

٭گوگل آپ کے لیے ایک خاص’’ اشتہاری پروفائل‘‘ بناتا ہے کہ آپ کو کس قسم کے اشتہارات نظر آنے چاہئیں۔ دراصل یہ پروفائل، گوگل پر موجود آپ کے ریکارڈ ہی کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں آپ کی لوکیشن، جِنس، عُمر، مشاغل، کیریئر، دِل چسپیاں، شادی شدہ یا کنوارا ہونا، ممکنہ وزن اور آمدنی وغیرہ کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے- 

یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بعض کو یہ اشتہار اکثر نظر آتا ہے کہ’’ ایک دن میں دس پاؤنڈز وزن کم کیجیے۔‘‘ اسی طرح اگر آپ نے گرمی اور بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے سبب بیٹری یا سولر پنکھوں کے بارے میں گوگل کا سہارا لیا ہے، تو پھر مختلف ویب سائٹس پر، خواہ وہ نیوز یا شوبز ہی کی کیوں نہ ہوں، پنکھوں کے اشتہارات دیکھنے کے لیے تیار ہوجائیں، البتہ اچھی بات یہ ہے کہ گوگل نے اپنے صارفین کو اشتہارات دیکھنے کی سیٹنگ بدلنےکی سہولت بھی دے رکھی ہے، جس کے لیے اس لنک کو استعمال کیا جاسکتا ہے

//https:adssettings.google.com/authenticated

٭ گوگل یہ معلومات بھی اپنے ذخیرے میں رکھتا ہے کہ آپ نے کون کون سی ایکسٹنشنز یا موبائل ایپس انسٹال کی ہیں، کس ایپ کو کس قدر استعمال کرتے ہیں، فیس بُک پر کن مُمالک کے لوگوں سے بات کرتے ہیں؟ اور آپ کس وقت سونے کے لیے بستر پر جاتے ہیں- تاہم اپنی ایپس اور دیگر چیزوں کی مانیٹرنگ کو کنڑول یا ختم کرنا ہو، تو///https:myaccount.google.com/permissions?pli=1پر جا کر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔

٭گوگل آپ کے یوٹیوب استعمال کی ہسٹری بھی اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ سرچ سے یہ بھی اندازہ لگا لیتا ہے کہ آپ کے ہاں کسی مہمان کی آمد متوقّع ہے۔ اُسے آپ کے مذہبی اور سیاسی رُجحانات کا بھی علم ہوتا ہے، پھر یہ بھی کہ کون سا صارف ڈیپریشن کا شکار ہے اور خودکُشی کا سوچ رہا ہے۔گوگل سرچ ہسٹری کی بنیاد ہی پر آپ کے موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر ویڈیوز شو کرتا ہے۔ اگر آپ چاہیں، تو اپنی یوٹیوب ہسٹری کو

//https:www.youtube.com/feed/history/search_history

پر جا کر کنٹرول اور ڈیلیٹ کر سکتے ہیں۔نیز، کسی بھی نوعیت کا مواد ڈیلیٹ کرنے سے پہلے چاہیں تو اُسے ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے//https:takeout.google.com/settings/takeout پرجاکر اپنا ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کر لیں- اسی طرح فیس بُک بھی آپ کو ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کرکے محفوظ رکھنے کی سہولت دیتی ہے۔ یہ ڈیٹا بیک اَپ، پیغامات، تصاویر، ویڈیوز، فون کانٹیکٹس اور دیگر ریکارڈز پر مشتمل ہے- گوگل کی طرح فیس بُک بھی اس بات کا ریکارڈ رکھتی ہے کہ آپ کو مزید کیا چیزیں پسند آسکتی ہیں۔ 

ایسا وہ آپ کے ماضی کے لائکس اور آپ کے دوستوں کی سرگرمیوں کی بنیاد پر کرتی ہے- وہ اُن اسٹیکرز کا بھی ریکارڈ رکھتی ہے، جو آپ نے کبھی اپنے کسی دوست کو بھیجے ہوں۔ علاوہ ازیں، فیس بُک سرور پر یہ بھی موجود ہوتا ہے کہ آپ کب، کہاں سے اور کس ڈیوائس سے لاگ اِن ہوئے۔ نیز، اُسے یہ بھی یاد رہتا ہے کہ آپ سیاست سے دِل چسپی رکھتے ہیں یا کرکٹ سے۔ یا پھر ویب اور گرافک ڈیزائننگ سے لگاؤ ہے۔ اور یہ بھی کہ آپ فلاں سال تک کنوارے تھے اور اُس وقت آپ کون سا گیم بہت کھیلتے تھے۔


گوگل اور فیس بُک جانتے ہیں کہ ہم نے کیا کچھ ڈاؤن لوڈ کیا اور کون کون سے گیمز کھیل چکے ہیں۔ ہماری تصاویر، ویڈیوز، سُنے جانے والے گانے سب اُن کی نظر میں ہیں۔ کیا زمانہ آیا ہے…!! ہم اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ کوئی ہماری سرگرمیوں پر نظر رکھے، اسے جاسوسی اور ذاتی زندگی میں دخل اندازی کہتے رہے اور اب ہم اپنا جاسوس، اپنے ہاتھوں ہی میں لیے پِھرتے ہیں۔ 

اپنے مُلک سے باہر چلے جائیں، تب بھی گوگل اور فیس بُک کی ہماری سرگرمیوں پر نہ صرف نظر ہے، بلکہ وہ اسے محفوظ بھی رکھتے ہیں۔ آپ اپنا ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کریں اور اُسے اپنے کمپیوٹر پر ان زپ کر کے دیکھیں، تو صرف سرچ ہسٹری ڈاکومینٹس میں اسّی، نوّے ہزار اندراجات کے ساتھ کسی ایسی دستاویز کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، جس میں یہ بھی نوٹ ہو گا کہ آپ نے کون کون سی تصاویر ڈاؤن لوڈ کیں اور کن ویب سائٹس کو وِزٹ کیا۔ آپ کسی مجرم کے بارے میں جاننا چاہتے تھے اور یہ کہ کوئی غیر قانونی سافٹ ویئر بھی ڈھونڈ رہے تھے۔ یعنی اگر آپ کسی مشکوک سرگرمی میں ملوّث ہیں، تو یہ ڈیٹا ہی گواہی کے لیے کافی ہے۔ ذرا اپنا گوگل کیلنڈر ہی دیکھ لیں۔ اس کے بیک اَپ میں آپ کے سارے ایونٹس، کس میں گئے؟ کس وقت گئے؟ پھر گوگل ڈرائیو میں یہ دیکھ کر حیران مت ہوں کہ جو فائلز آپ ڈیلیٹ کر چکے، وہ بھی وہاں موجود ہیں۔ آپ کا ماہانہ بجٹ وہاں ہے، تو آپ کے اہم کوڈز، پروگرامز اور بھی بہت کچھ۔ بہت سے لوگ فٹنس کے حوالے سے گوگل فٹ استعمال کرتے ہیں۔ 

گوگل نے اُن کی ساری واک، یوگا، ورک آوٹ، یعنی جو کچھ بھی وہ کرتے رہے، سب محفوظ رکھا ہوتا ہے۔ شاید آپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ گوگل آپ کی یہ پرسنل چیزیں بھی ریکارڈ میں رکھے کہ کس دن آپ نے کتنی دیر ورزش کی؟ تو پھر گوگل کے آپشن میں آپ گوگل فٹ کو دی گئی یہ اجازت واپس لے لیں۔ گوگل کے پاس آپ کی ہزاروں تصاویر بھی ہوں گی، جنھیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد دیکھ سکیں گے کہ گوگل نے ان تصاویر کو مہینوں اور سالوں کے اعتبار سے ایک ٹائم لائن میں ترتیب دیا ہوا ہے-

اب یہ جان کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ فیس بُک اور گوگل آپ کی ہر حرکت پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ اُنہیں اپنے سرور پر محفوظ بھی رکھتے ہیں، مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ ٹھیک ہیں اور انٹرنیٹ پر کوئی غلط کام نہیں کر رہے، آپ کی سرگرمیاں سماج اور مُلک و قوم کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں، تو پھر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن آپ بے احتیاطی کریں، آپ کے فون، کمپیوٹر اور ای میلز کا کوئی اور غلط استعمال کرے، تو کسی مصیبت میں پھنسنے کا خدشہ ہوتا ہے، جس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ سوشل میڈیا اور دیگر سائٹس استعمال کرتے ہوئے حفاظتی ٹُولز کو کبھی نظرانداز نہ کریں۔ 

ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو محض شغل میلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ جہاں یہ انتہائی طاقت وَر نیٹ ورکنگ سائٹس ہیں اور ان کے بغیر گزارہ ممکن نہیں، وہیں یہ انتہائی خطرناک اور زندگی برباد کردینے والی بھی ہیں- یہ مفت میں ملنے والی سروسز بھی اصل میں مفت نہیں ہیں، بدلے میں آپ سے بہت کچھ لیتی ہیں۔ یہ کمپنیز اپ کا وقت، روز مرّہ کی تفصیلات اور معلومات تک فروخت کر کے اربوں ڈالرز کماتی ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کیجیے، مگر خود استعمال نہ ہوں- نیز، ان کا استعمال سوچ سمجھ کر اور کسی خاص ہی سمت میں کیا جانا چاہیے- 

انٹرنیٹ پر اجنبی لوگوں سے دوستیاں گانٹھنے سے پرہیز کریں، ہو سکتا ہے کہ جیسے وہ نظر اتے ہوں، حقیقت میں ایسے نہ ہوں۔ اپنا پاس ورڈ بدلتے رہیں اور اسے کبھی کسی دوسرے کو نہ دیں۔ ہر چیز کو اس کی حد میں رہ کر ہی استعمال کریں- فیس بُک، گوگل، یوٹیوب، واٹس ایپ اور انسٹا گرام کیسے کام کرتے ہیں، اکاؤنٹ بناتے وقت اپنا اور اس کمپنی کا ایگریمنٹ پڑھ کر، سمجھ کر قبول کریں۔ آخری مگر ضروری بات یہ کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ اصل میں پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کے لیے ایجاد ہوئے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ آپ کو کس سوشل میڈیم کا استعمال فائدہ دے گا۔ اگر روزگار کی تلاش ہے، کیریئر بنانا چاہتے ہیں، تو’’ لنکڈ اِن‘‘ کو وقت دیں۔ اہم شخصیات سے متعلق جاننے، اُن کے بیانات پڑھنے کا شوق ہے، تو ٹویٹر پر اُنہیں فالو کریں۔ 

اگر پڑھنے، لکھنے کی بجائے سُن اور دیکھ کر زیادہ آسانی سے سیکھتے ہیں، تو یوٹیوب پر کسی ایکسپرٹ کی ویڈیو دیکھیں۔ کسی خاص شعبے میں مہارت بڑھانا چاہتے ہیں، تو پھر یوٹیوب پر اس سے متعلق کسی چینل کو سبسکرایب کریں- فیملی اور فرینڈز سے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں، تو فیس بُک پر اپنی فیملی اور دوستوں کا گروپ بنائیں اور رابطے میں رہیں۔ محدود لوگوں سے فوری بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تو واٹس ایپ ٹھیک ہے۔ 

آپ اپنی ضرورت اور اپنے وقت کے بجٹ کے لحاظ سے ٹھیک سمت میں مثبت کاموں کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کریں، تو یہ آپ کے لیے یونی ورسٹی کا کام دے گا اور اگر بغیر منصوبے کے، ہر وقت فیس بُک کے ہر میسج اور ہر کمنٹ کو پڑھتے رہیں گے، تو فیس بُک کا تو بہت مالی فائدہ ہو گا کہ اشتہارات دینے والے کسٹمرز کو دِکھائے گا کہ ایک وقت میں دو بلین لوگ لاگ اِن رہتے ہیں، مگر آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ آپ عملی طور پر محض فیس بُک کے ایک نشئی میں شمار ہوں گے اور دنیا میں یہ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے-

(مضمون نگار آئی ٹی اسپیشلسٹ ہیں)

تازہ ترین