حصہ اول
انسانی تہذیب و تمدّن کی بنیاد، باہمی اشتراک اور تعاون پر رکھی گئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نظامِ ہستی کا سارا کاروبار ایک دوسرے کے تعاون، مدد اور تعلق ہی سےقائم کر رکھاہے کہ کوئی شخص تنہا زندگی گزارنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ نسلِ انسانی کے نتیجے میں خاندانی رشتے وجود میں آئے اور پھر خاندان سے ہم سائیگی کا تعلق رکھنے والے ’’پڑوسی‘‘ کہلائے۔ اور پھر اسی باہمی تعلق، محبّت اور اخوّت سے ایک خوب صورت معاشرہ وجود میں آیا، جس نےہر ایک کو حقوق و فرائض کے اٹوٹ بندھن میں باندھ دیا۔
طلوعِ اسلام کے بعد سرکارِانبیاء، شاہِ دوجہاں، رحمۃ للعالمین، سیّدالمرسلین، خاتم النبیّین، فخرِ موجودات، سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں اور ہم سایوں کے تعلق کو عزّت واحترام کے اعلیٰ مقام سے نوازتے ہوئے اسے جزوِایمانی اور اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نودی سے مشروط کرکے جنّت کے حصول کا ذریعہ بنادیا۔ جس کی بناء پر ایک نیک، متقّی اور برگزیدہ مسلمان، احکاماتِ خداوندی اور ارشاداتِ نبویؐ کی روشنی میں اپنے پڑوسی کی ناراضی کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔
اب چاہے وہ پڑوسی، محلّے میں ساتھ رہنے والے ہوں یا ساتھ سفر کرنے والے مسافر، کارخانے کے ملازم ہوں یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے افراد، کاروبار میں شریکِ کار ہوں یا ساتھی نمازی۔ سب آپس میں ’’پڑوسی‘‘ ہی تو ہیں۔ سب ایک دوسرے کے لیے محترم بھی ہیں اور مقدّم بھی۔ اسلام نے پڑوسی کو جو بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ عطا فرمایا، اس کا تصوّر دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں بہ طورخاص ذکر کیا ہے، جب کہ مختلف مواقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاکسی تخصیص رنگ و نسل، مذہب و قومیت پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا، ’’جبرائیل، مجھے ہم سائے کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں برابر وصیّت کرتے رہے۔
یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وراثت کا مستحق قرار دے دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ ’’حجّۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہؐ اونٹنی پر سوار تھے۔ اس حالت میں، مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا۔ ’’لوگو! میں تمہیں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیّت کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے یہ اتنی بار فرمایا کہ میں سمجھنے لگا کہ آپؐ پڑوسی کو وراثت کاحق دار قرار دے دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کے یہاں بہترین دوست وہ ہیں، جو اپنے دوستوں کے لیے بہترین ہیں اور اللہ کے یہاں بہترین وہ ہیں، جو اپنے ہم سایوں کے لیے بہترین ہیں۔‘‘ (ترمذی)۔
ہم سائے کون.....؟: عموماًکسی بھی محلّے میں مکان کے دائیں بائیں رہنے والے ہم سائے یا پڑوسی کہلاتے ہیں۔ حضرت کعب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضورؐ کی خدمت میں آکر عرض کیا ’’میں فلاں قبیلے میں اترا ہوں۔ وہ مجھ سے قریب تر ہم سایا ہے، لیکن وہی مجھے زیادہ ایذاء پہنچاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’مسجد کے دروازے پر اعلان کروادو کہ چالیس گھر تک پڑوس ہے۔
جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں، وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔‘‘ قرب و جوار میں رہنے والوں کے علاوہ سفر کے ساتھی، کارخانے اور دفاتر میں ساتھ کام کرنے والے، کاروبار کے شریکِ کار، درس گاہ کے ساتھی، حتیٰ کہ ایک استاد کے شاگرد بھی درحقیقت ہم سایوں کی طرح ہیں۔
خواہ ان کا تعلق مختصر عرصے کے لیے ہو یا طویل عرصے تک۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو اور ماں، باپ، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، رشتے داروں، ہم سایوں، اجنبی ہم سایوں، رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) مسافروں اور جو لوگ تمہارے زیرِ اثر ہوں، سب کے ساتھ احسان کرو اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور تکبّر کرنے والے، بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ ذوالجلال نے واضح طور پر بتا دیا کہ کون لوگ پڑوسی اور ہم سائے ہیں۔
پھر اس کی بھی وضاحت فرما دی کہ پڑوسی، رشتے دار بھی ہوسکتا ہے اور غیر بھی ۔ اس کے علاوہ جو وقتی طور پرساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں یا سفر میں ساتھ ہوتے ہیں، وہ بھی ہم سائے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں۔ پہلا وہ، جس کا ایک ہی حق ہوتا ہے اور وہ (حق کے لحاظ سے) سب سے کم درجے کا پڑوسی ہے۔ دوسرا وہ، جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ پڑوسی، جس کے تین حق ہوں۔ تو ایک حق والا مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے، جس سے کوئی رشتے داری نہ ہو۔ اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے اور دو حق والا پڑوسی، وہ ہے، جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلمان (یعنی دینی بھائی) بھی ہو۔
اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہوگا اور دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے، جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی ہو اور رشتے دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہوگا، دوسراپڑوسی ہونے کا اور تیسرارشتے دار کا ہوگا۔‘‘ (معارف الحدیث) پس، معلوم ہوا کہ ہم سائے کے ساتھ جتنا گہراتعلق ہوگا، اتنے ہی اس کے حقوق زیادہ ہوں گے۔
ہم سائیگی کی ترتیب:جس طرح ہم رشتے داری میں ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح ہم سائیگی میں بھی ترتیب کا دھیان رکھنے کی ہدایت ہے۔ یعنی جو ہم سایا قریب تر ہے، اس کا حق زیادہ ہے، بہ نسبت اس ہم سائے کے جو دور ہے۔ امّ المومنین، حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا کہ میرے دو ہم سائے ہیں، تو میں ان میں سے کس کو تحفہ دینے میں فوقیت دوں؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔‘‘ (صحیح بخاری)
پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک:پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک حقیقی ایمان کی شرط ہے، یعنی ایک نیک، متقّی مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کرے۔ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔
جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا احترام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یا تو اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ) حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ہم سائے کا حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہو، تو اس کی عیادت کرے۔
اگر وہ وفات پاجائے، تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔ اگر اسے مدد کی ضرورت ہو، تو اس کی مدد کرے۔ اگر وہ کچھ قرض یا ادھار مانگے، تو اسے استطاعت کے مطابق قرض دے۔ اگر غریب ہو، تو حاجت روائی کرے۔ اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو، تو اسے تسلّی و دلاسا دے۔ اگر وہ کوئی برا کام کر بیٹھے، تو اس کی پردہ پوشی کرے۔
اگر اسے کوئی نعمت ملے، تو اسے مبارک باد دے۔ اپنے گھر کی دیوار اتنی بلند نہ کرے کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہوجائے۔ تمہارے گھر کی ہنڈیا کی مہک اسے اذیّت نہ دے۔ اِلّا یہ کہ اس میں سے کچھ اس کے گھر نہ بھیج دو۔‘‘نیک اور باشعور مسلمان حسنِ سلوک کے معاملے میں کبھی بھی پڑوسیوں کے ساتھ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں کرتا۔ اس کی نظر میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے پڑوسی اچھے اور بہتر سلوک کے مستحق ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے شاگردِخاص، حضرت مجاہدرضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ مَیں حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے گھر میں موجود تھا۔ ان کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی۔ جب آپؓ تشریف لائے، تواپنے غلام سے پوچھا ’’کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو گوشت (ہدیہ) بھیجا؟‘‘ قریب بیٹھے ایک شخص نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا یہودی کو گوشت بھیجیں گے؟‘‘ مطلب یہ تھا کہ وہ تو غیرمسلم ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ’’ جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ بھلائی اور احسان کی وصیّت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ ہم سائے کو وارث نہ بنادیں۔‘‘ (ترمذی) آج اگر ہم اپنے قرب و جوار میں نظر دوڑائیں، تو ہمیں ایسے بہت سے ہم سائے نظر آئیں گے، جو اپنے پڑوسیوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ جائز، ناجائز دولت کے حصول کی ہوس نے ہمیں غرور و تکبّر کی اس منزل پر پہنچا دیا کہ جہاں غریب ہم سائے سے بات کرنا بھی توہین سمجھی جاتی ہے۔ ان کی مدد کرنا، خیریت معلوم کرنا تو دور کی بات ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ اکثر پوش علاقوں میں برسوں تک یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ پڑوس میں کون رہائش پزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق ہم سایوں کے حقوق سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہترین ہم سائے : اللہ کے نیک بندوں کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اس کے پڑوسی اسے اچھا سمجھیں۔ اس سے تعلق رکھنے پر فخر محسوس کریں اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی تعریف کریں۔ ایک شخص حضور اکرمؐ کے پاس آیا اور عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! مجھے اپنی نیکوکاری اور بدکاری کا کیسے علم ہو؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا۔ ’’جب تم کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، تو تمہارا کام اچھا ہے اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے برا کیا ہے، تو تمہارا کام برا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ) اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی شخص کے کردار کے بارے میں کوئی تحقیق مطلوب ہو، تو اس کے پڑوسیوں اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کام کرنے والوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملے میں کسی کے ذاتی کردار، رہن سہن اور چال چلن کے بارے میں اس کے ہم سائے زیادہ واقف ہوتے ہیں، چاہے وہ محلّے کے ہوں یا کام کی جگہ کے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے۔ ’’مخلوقِ خدا کی زبان، حق تعالیٰ کا قلم ہے۔‘‘ اس قول کو شیخ ابراہیم ذوق نےشعر کی صورت میں کیا خوب بیان کیا ہے؎بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو.....زبانِ خلق کو نقارئہ خدا سمجھو۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جب کوئی مسلمان فوت ہوجاتا ہے اور اس کے قریبی پڑوسیوں میں سے تین آدمی اس پر خیر کی گواہی دے دیتے ہیں، تو اللہ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کی شہادت ان کے علم کے مطابق قبول کرلی اور جو کچھ میں جانتا ہوں، اسے میں نے معاف کردیا۔‘‘ (مسندِ احمد) حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’بہترین دوست خدا کے نزدیک وہ ہیں، جو اپنے دوستوں کے لیے بہترین ہیں اور بہترین پڑوسی خدا کے نزدیک وہ ہیں، جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ (ترمذی) حضرت نافع بن عبدالحارثؒ بیان کرتے ہیں کہ انسان کی خوش نصیبی میں تین چیزیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ کشادہ مکان، نیک پڑوسی اور خوش گوار سواری۔
نیک اور بااخلاق پڑوسی اللہ کی عظیم نعمت اور مسلمان کے لیے بڑی سعادت اور خوش نصیبی ہے۔ باشعور مسلمان جب اپنے لیے مکان تلاش کرتا ہے، تو اچھے اور نیک پڑوس کو مدِنظر رکھتا ہے، اس لیے کہ انسان کا صبح شام بلکہ ہر وقت پڑوس سے واسطہ پڑتا ہے۔ روایت ہے کہ محدثِ اعظم، عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس میں ایک یہودی رہا کرتا تھا۔ یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا۔
ایک شخص نے مکان کی قیمت کے حوالے سے استفسار کیا تو یہودی نے جواب دیا ’’دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا۔‘‘ خریدار نے حیرت و تعجب سے کہا ’’لیکن اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت تو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے۔‘‘ یہودی کہنے لگا ’’ہاں! ٹھیک ہے، ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس کی قیمت ہے۔‘‘ یہ تھا مسلمانوں کا وہ کردار، اخلاقِ حسنہ، شرافت، ملن ساری اور ہم سایوں سے قربت کی نسبت کہ جس کی بناء پر غیر مسلم بھی مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ان کے ہم سائے ہونے پر فخر کرتے تھے۔
صد افسوس کہ اتنا خوب صورت ماضی اور عظیم الشان اخلاقِ حسنہ کی امین اس قوم کے فرزندوں کو آج یورپ و امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نہ اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے، نہ مکان کرائے پر ملتے ہیں۔ الحمدللہ، پاکستان کے دیہی علاقوں میں اب تک یہ روایت برقرار ہے کہ نیک پڑوسی جب دوسرے علاقے میں منتقل ہوتا ہے، تو اہلِ محلّہ اس سے ملنے پر خوشی اور بچھڑنے پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک شاعر نے پڑوسی سے اپنی محبت کا اظہار یوں کیا؎ جب تک پڑوس میں رہا وہ، تو یوں لگا.....جیسے اپنا کوئی آبسا ہو بازو میں میرے۔ اچھے اور نیک لوگوں کی ہم سائیگی کے بارے میں میر تقی میر نے بھی کیا خوب صورت بات لکھی؎ ’’جب غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا.....ایک نمی سی دیوار میں آجاتی ہے۔‘‘
تحفے تحائف دینے کی ہدایت: شریعتِ اسلامی میں پڑوسیوں سے تعلقات کو بہت زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ بعض اوقات وہ رشتے داروں سے بھی زیادہ اہمیت اختیارکرجاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار مرتبہ صحابہ کرام اجمعینؓ کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ پڑوسیوں کا بے حد خیال رکھیں، ان سے بہترین تعلقات استوار رکھیں اور انہیں تحفے تحائف دیتے رہا کریں۔
آپؐ نے فرمایا۔ ’’آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا اور لیا کرو، کیوں کہ یہ کینہ کو دور کرتا ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’اے مسلمان عورتو! کوئی عورت اپنی ہم سائی عورت کے ہدیے کو حقیر نہ جانے۔ اگرچہ بکری کا کھر ہی (تحفے میں) ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) تحفہ خوب صورت، حسین اور لطیف دلی جذبات و احساسات کا ترجمان ہے۔ معمولی تحفے کو بھی حقیر جاننا نہایت ناپسندیدگی کی بات ہے۔ ہر تحفے کو شکریے اور احترام کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ تحفہ لینے سے انکار بھی نامناسب ہے۔ ہاں، اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس تحفے کے عوض تحفہ دینے والا کسی غیر ضروری مراعت کا طلب گار تو نہیں۔
نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرغفاریؓ سے فرمایا۔ ’’اے ابوذر! جب تم شوربے والی کوئی چیز پکائو، تو اس میں شوربا زیادہ کردو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔‘‘ (صحیح مسلم) حضور اکرمؐ کی حدیثِ مبارکہ کے مطابق، تحفے کا پہلا حق دار قریبی ہم سایا ہے۔ اس طرح رشتے داروں میں بھی قریب ترین کا زیادہ حق ہے اور وہ زیادہ حسنِ سلوک کے مستحق ہیں۔ ( جاری ہے )