• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدرمملکت نے 8؍اپریل 2018کو ایک آرڈیننس کا اجراکیا ہے جس کے تحت 2سے 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر بیرونی ملکوں کی آمدنی اور بیرونی ملکوں کے ان اثاثوں کو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور واپس لایا جا سکتا ہے جن کو اب تک ٹیکس حکام سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ ایک اور آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے ہوئے ملکی اثاثوں کو رضاکارانہ طور پر ظاہر کر کے 2سے 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان اسکیموں کے ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں۔
(1)یہ امر مسلمہ ہے کہ اگر کسی ملک میں معیشت دستاویزی نہ ہو، کالے دھن کو سفید بنانا روز کا معمول ہو، جائیدادوں کے حکومتی نرخ (ڈی سی ریٹ یا ایف بی آر ریٹ) مارکیٹ کے نرخوں کا عشر عشیر ہوں، ہنڈی، اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ اور اوورانوائسنگ کا مذموم کاروبار زور و شور سے جاری ہو وہاں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کامیاب ہو ہی نہیں سکتی چنانچہ پہلے معاشی نظام کی اصلاح لازمی ہے۔
(2)اب سے ایک ماہ قبل ہم نے تنبیہہ کی تھی ’’پاکستان سے لوٹ کر جو دولت ملک سے باہر منتقل کی گئی ہے اگر اسے قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے تو وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی نظر میں قابل گرفت ہو سکتا ہے۔‘‘ (جنگ 11؍مارچ 2010) وزیراعظم کی 5؍اپریل کی تقریر کے فوراً بعد ایف اے ٹی ایف نے ان اسکیموں پر اپنے تحفظات ظاہر کر دیئے جو کہ پریشان کن ہے۔
(3)بینکوں کے قرضوں کی معافی کے مقدمے میں دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قرضے معاف کروا کر دولت ملک سے باہر پہنچائی گئی ہے چنانچہ قومی دولت کو واپس لانے کیلئے عدالت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ یہ مقدمہ 2007سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ چنانچہ بیرونی اثاثوں کیلئے ایمنسٹی فراہم کرنا غیر آئینی قرار دیا جا سکتا ہے۔
(4)غیر منقولہ جائیدادوں کو 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تحفظ فراہم ہو جائے گا حالانکہ بہت سی جائیدادیں لوٹی ہوئی اور ٹیکس چوری کی دولت سے بنائی گئی تھیں۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں کہا گیا ہے کہ جس جائیداد کی مالیت کم ظاہر کی جائے اسے قومی ملکیت میں لے لیا جائے۔ اگر تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے جائیداد کے ڈی سی ریٹ کو ان کے مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے کا اعلان کر دے اور ساتھ ہی یہ قانون سازی بھی کر دے کہ کوئی بھی صوبہ خیبر پختونخوا میں فروخت ہونے والی کسی بھی جائیداد کو قیمت فروخت سے 20فیصد زیادہ کی پیشکش کرے تو وہ یہ جائیداد خرید سکتا ہے، تو جائیداد کی حد تک صدارتی آرڈیننس غیر مؤثر اور بے معنی ہو جائے گا۔ یہ تحریک انصاف کیلئے بڑا امتحان ہے۔
(5)بھارت نے 2016میں ٹیکس ایمنسٹی کے ذریعے 45فیصد ٹیکس کا مطالبہ کیا تھا۔ اس اسکیم سے آخرکار حکومت کو کئی سو ارب روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔ پاکستان میں صرف 2سے 5فیصد کا مطالبہ کیا ہے جو کہ غلط کاریوں میں ملوّث افراد کو نوازنے کے مترادف ہے۔
(6)ٹیکس چوری، لوٹی ہوئی اور دوسرے ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کا بڑا حصّہ خود ملک کے اندر جائیدادوں، گاڑیوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں، حکومتی تمسکات اور اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی شکل میں موجود ہے۔ ان اثاثوں کی مکمل تفصیلات بمعہ متعلقہ فرد کے قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ہم ان ہی کالموں میں برسہابرس سے کہتے رہے ہیں کہ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ان اثاثوں کا تعین کر لیا جائے جو ٹیکس حکام سے خفیہ رکھ کر بنائے گئے تھے اور ان پر مروّجہ قوانین کے ذریعے کارروائی کی جائے تو چند ماہ میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی اضافی آمدنی حکومت کو حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ایمنسٹی کی ان اسکیموں سے اعتماد کا بحران پیدا ہو گا، معیشت میں بہتری نہیں آئے گی اور قومی خزانے کو کئی سو ارب روپے کا نقصان ہو گا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2017کی سالانہ رپورٹ کے مطابق کرپشن کے لحاظ سے 180ملکوں میں پاکستان کا نمبر 117ہے یعنی 116ممالک میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ پاکستان میں انسداد بدعنوانی کا سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج نے 24؍جولائی 2013کو کہا تھا کہ نیب کو ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہے۔ اسے بدعنوانی سے کون پاک کرے گا؟ نیب نے 29؍مارچ 2018کو جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس کے مطابق نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب نے اپنے قیام سے اب تک بدعنوانی کرنے والوں سے وصولی کر کے قومی خزانے میں 289؍ارب روپے جمع کرائے ہیں۔ ہم پوری ذمہ داری سے یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ چیئرمین نیب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ اس ضمن میں چند حقائق پیش ہیں۔
(1)نیب کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظورشدہ 2014اور 2015کی شائع شدہ سالانہ رپورٹوں کے مطابق نیب نے 2000-01سے 2015-16تک جو رقوم سرکاری کھاتے میں منتقل کی تھیں ان کا مجموعی حجم 7.33ارب روپے ہے۔
(2)نیب کی 2016کی سالانہ رپورٹ کے مطابق نیب نے 2000اور 2002کے تین برسوں میں بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں 144.17؍ارب روپے کی وصولی کی ہے معہ 59.7؍ارب روپے کے، قرضوں کی ری شیڈولنگ۔ واضح رہے کہ ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچر تک وصولی نہیں ہوتی بلکہ نادہندہ کو کچھ مہلت دے دی جاتی ہے۔ ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے نیب کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے اکتوبر 2002میں کہا کہ تمام بینکوں میں مجموعی طور پر صرف 40؍ارب روپے کی وصولی ہوئی ہے جبکہ نیب کی مدد سے پھنسے ہوئے قرضوں کی وصولی اور ری شیڈولنگ کا مجموعی حجم صرف 17.5؍ارب روپے ہے نہ کہ 144.17؍ارب روپے۔ (اسٹیٹ بینک کی مطبوعہ کتاب ’’پاکستانی معیشت کے بڑے مسائل‘‘ صفحہ۔233)
(3)پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر قانون نے سینیٹ آف پاکستان کو بتایا تھا کہ نیب بینکوں کے قرضوں کی وصولی کے غلط دعوے کر رہا ہے اور اصل وصولی سے 216؍ارب روپے زائد بتا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج نے کہا تھا ’’نیب کرپشن کا سہولت کار اور دل و دماغ ہے‘‘ (جنگ، 15؍دسمبر 2016) اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ نیب میں غلط کاریوں کی ذمہ داری اس کے ایگزیکٹو بورڈ اور انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ملک میں کرپشن پر قابو پانے کیلئے نیب کی اصلاح اور تنظیم نو کی اشد ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین