خالد سیف اللہ رحمانی
اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم و تدریس نہایت ہی مقدس اور معزز پیشہ ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مذہب اور ہر معاشرے میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے، کیوںکہ معاشرے میں جو کچھ بھلائیاں اور نیکیاں پائی جاتی ہیں اور خدمتِ خلق کا جو سر و سامان موجود ہے، وہ سب در اصل تعلیم ہی کا کرشمہ ہے اور درس گاہیں ان کا اصل سرچشمہ، اسلام کی نگاہ میں انسانیت کا سب سے مقدس طبقہ پیغمبروں کا ہے، پیغمبر کی حیثیت اپنے اُمتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے اور وہ یہی کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے، و ہ تعلیم بھی دیتا ہے اور انسانیت کو اس علم کے سانچے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔
اسی لیے اساتذہ کا احترام اسی قدر ضروری ہے جتنا اپنے والدین کا، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فقہائےصحابہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں، حدیث کی نقل و روایت اور فہم و درایت میں بھی بڑے اعلیٰ درجے کے مالک ہیں اور تفسیر و فہم قرآن کا کیا پوچھنا کہ اُمت میں سب سے بڑے مفسر مانے گئے ہیں، لیکن اس مقام و مرتبے کے باوجود صورتِ حال یہ تھی کہ حضرت زید بن ثابت انصاریؓ کی سواری کی رکاب تھام لیتے تھے اورکہتے تھے کہ ہمیں اہل علم کے ساتھ اسی سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔(مستدرک حاکم :۳؍۳۲۴)
خلف احمر مشہور امام لغت گزرے ہیں، امام احمدؒ ان کے تلامذہ میں ہیں، لیکن علومِ اسلامی میں مہارت اور زہد و تقویٰ کی وجہ سے امام صاحب کو اپنے استاذ سے بھی زیادہ عزت ملی، اس کے باوجود امام احمدؒ کبھی ان کے برابر بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے اور کہتے کہ آپ کے سامنے بیٹھوں گا، کیوںکہ ہمیں اپنے اساتذہ کے ساتھ تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے۔ (تذکرۃ السامع و ا لمتکلم، ص: ۷۸)
امام شافعیؒ امام مالکؒ کے شاگردوں میں ہیں، کہتے ہیں کہ جب میں امام مالکؒ کے سامنے ورق پلٹتا تو بہت نرمی سے کہ کہیں آپ کو بارِ خاطر نہ ہو۔ (حوالہ سابق، ص: ۸۸)
خود قرآن مجید نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کے واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے، باوجودیہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مقامِ نبوت پر فائز تھے، لیکن انہوں نے نہایت صبر اور تحمل کے ساتھ حضرت خضر کی باتوںکو برداشت کیا اور بار بار معذرت خواہی فرمائی، امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں منقول ہے کہ اپنے استاذ حمادؒ کے مکان کی طرف پاؤں کرنے میں بھی لحاظ ہوتا تھا، امام صاحبؒ نے خود اپنے صاحب زادےکا نام اپنے استاذ کے نام پر رکھا، قاضی ابویوسفؒ کو اپنے استاذ امام ابوحنیفہؒ سے ایسا تعلق تھا کہ جس روز بیٹے کا انتقال ہوا ،اس روز بھی اپنے استاذ کی مجلس میں حاضری سے محرومی کو گوارا نہیں فرمایا۔
بد قسمتی سے اب اساتذہ اور طلبہ (بالخصوص نئے فضلاء) کے درمیان محبت و احترام کا یہ جذبہ مفقود ہے، طلبہ اپنے اساتذہ کو ایسی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ گویا وہ ان کے حریف اور فریق ہیں، نقل و حرکت اور نشست و برخاست میں ادب و احترام تو بہت دور کی چیز ہے، رو در رو فقرے چست کرنے اور جملے کسنے میں بھی کوئی حجاب نہیں، ظاہر ہے اس بے احترامی اور بے اکرامی کے ساتھ کیوںکر کسی شخص سے فیض یاب ہواجاسکتا ہے؟
جو شخص جتنے بلند مقام و مرتبہ کا حامل ہو ، اسی نسبت سے اس کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں، استاذ باپ کا درجہ رکھتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو وہی محبت اور پیار بھی دے، جو ایک باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اپنے طلبہ کی نسبت سے فرماتے تھے کہ اگر ان پر ایک مکھی بھی بیٹھ جاتی ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ (تذکرۃ السامع،ص: ۹۴)
سلف صالحین کو اپنے شاگردوں سے ایسی محبت ہوتی کہ ان کی نجی دشواریوں کو بھی حل کرتے، امام شافعیؒ بڑے اعلیٰ درجے کے فقیہ و محدث ہیں، یہ حصولِ علم کے لیے مدینہ پہنچے، غریب آدمی تھے، امام مالکؒ نے اپنے اس ہونہار شاگرد کو خود اپنا مہمان بنایا اورجب تک مدینے میں رہے، ان کی کفالت کرتے رہے، پھر جب امام شافعیؒ نے مزید کسب ِعلم کے لیے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو سواری کا انتظام بھی کیا اور اخراجاتِ سفر کا بھی اور شہر سے باہر آکر نہایت محبت سے آپ کو رخصت کیا، امام شافعیؒ کوفہ آئے اور امام ابوحنیفہؒ کے شاگردرشید امام محمدؒ کی درس گاہ میں بحیثیت طالب علم شریک ہوگئے، یہاں امام محمدؒ نے ذاتی طور پر امام شافعیؒ کی کفالت فرمائی، بلکہ بھر پور تعاون فرمایا، امام شافعیؒ اس حال میں کوفہ پہنچے کہ نہایت ہی معمولی کپڑا آپ کے جسم پر تھا، امام محمدؒ نے اسی وقت ایک قیمتی جوڑے کا انتظام فرمایا، جو ایک ہزار درہم قیمت کا تھا، پھر جب امام شافعیؒ کو رُخصت کیا تو اپنی پوری نقدی جمع کر کے تین ہزار درہم انہیں حوالے کیے۔ (جامع بیان العلم لابن عبد البر، ص:۸۶۲)
امام ابو یوسفؒ کے والد دھوبی یعنی کپڑے دھونے کا کام کرتے تھے اور بڑی عسرت کے ساتھ گزر اوقات ہوتی تھی، بلکہ اس افلاس و مجبوری کی وجہ سے ان کے والدین کو امام ابویوسفؒ کا پڑھنا پسند نہیں تھا، وہ چاہتے تھے کہ آپ کسب ِمعاش میں مصروف ہوں اور گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹائیں، امام ابوحنیفہؒ ان کی ذہانت اور طلب علم کے شوق سے بہت متأثر تھے، اس لیے آپ نے بنفس نفیس ان کے اخراجات برداشت کیے۔
آج کل عصری تعلیمی اداروں کی صورتِ حال یہ ہے کہ تدریس محض درس گاہ کی ملازمت نہیں کہ آدمی تکمیل ضرورت کے لیے کچھ تنخواہ لے لے اور بے غرضی کے ساتھ اپنے شاگردوں کو پڑھائے، بلکہ تدریس ایک ایسی تجارت بن گئی ہے کہ جس کے لیے کسی سرمایہ اور دکان کی ضرورت نہیں، اساتذہ تاجر ہیں اور طلبہ گاہک! اساتذہ اسکولوں اور کالجوں میں قصداً غیر معیاری اسباق دیتے ہیں اور اسباق کو تشنہ رکھتے ہیں، تاکہ طلبہ ان سے ٹیوشن پڑھیں اور کم وقت کی زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دانش گاہوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی ’’شایانِ شان نذرانہ‘‘ پیش کرنا ہوتا ہے!
یہ ایسی شرم ناک بات ہے کہ شریف النفس لوگوں کے لیے اس کا تذکرہ بھی گراں خاطر ہے، ایک ایسا مقدس رشتہ جو مکمل طور پر بے غرضی پر مبنی ہے، جو ایک دوسرے سے بے لوث محبت اور بے پناہ شفقت کا متقاضی ہے اور جو تعلیم گاہیں اِنسانیت، محبت اور فرض شناسی کا احساس پیدا کرنے کے لیے ہیں، وہیں سے ایسی بد اخلاقی اور حرص و طمع کا سبق ملے تو پھر کون سی جگہ ہوگی جہاں انسان کو انسانیت کا سبق مل سکے گا؟
حماد بن سلمہ ایک مشہور محدث گزرے ہیں، ان کے ایک شاگرد نے چین کا تجارتی سفر کیا اور کچھ قیمتی تحائف اپنے استاذ کی خدمت میں پیش کیے، استاذ نے فرمایا کہ اگر یہ تحفے قبول کروں گا تو آئندہ پڑھاؤںگا نہیں اورپڑھاؤں گا تو یہ تحفے قبول نہیں کرسکتا۔ (الکفایۃ للخطیب، ص: ۳۵۱)
مولانامحمد قاسم نانوتویؒ (بانیِ دار العلوم دیوبند) کا حال یہ تھا کہ صرف تیس روپے ماہانہ پر خدمت فرماتے تھے، اس درمیان بعض رئیسوں کی طرف سے تین سو اور پانچ سو روپے ماہانہ پر کام کرنے کی درخواست کی گئی تو آپ نے معذرت کردی اور فرمایا کہ اللہ کے یہاں ان ہی پیسوں کا حساب دینا مشکل ہے، اگر اورزیادہ پیسے لیے جائیں تو ان کا حساب تو اور بھی دشوار ہوگا۔
مسئلہ صرف پیسوں ہی کے لین دین کا نہیں؛ بلکہ ہر طرح کی نصیحت و ہمدردی کا ہے، ابن جماعہ نے خوب لکھا ہے کہ استاذ کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے جو پسند کرتا ہے وہی اپنے شاگردوں کے لیے پسند کرے اور جو چیز اپنے لیے ناپسند ہے اسے اپنے شاگردوں کے لیے بھی ناپسند سمجھے۔ (تذکرۃ السامع، ص: ۹۴)
استاذ کواپنے شاگر د سے بے حد محبت ہونی چاہیے اور اسے ہر وقت اس کا خیر خواہ ہونا چاہیے، جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کی ترقی پر خوش ہوتا ہے اور اس کی ناکامی پر کبیدہ خاطر، یہی تعلق ایک استاذ کو اپنے شاگردوں کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ تعلق بے غرض اور بے لوث ہو اور پاکیزگی پر مبنی ہو، اگر اساتذ ہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ طلبہ میں ان کے تئیں وہی احترام نہ پیدا ہو جن کا ذکر ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تدریس کے لیے کسی شخص کا انتخاب اہلیت اور لیاقت کی بناء پر ہونا چاہیے نہ کہ تعلقات اور دوسری بنیادوں پر؛ اس لیے کہ تدریس نہایت ہی اہم اور نازک کام ہے، مشہور بزرگ ابو بکر شبلیؒ سے منقول ہے کہ جو شخص قبل از وقت کسی منصب پر فائز ہوجائے وہ در اصل اپنی رسوائی کے درپے ہے۔(تذکرۃ السامع و المتکلم:۵۴)
اہلیت کا مطلب یہ ہے کہ جس مضمون کی تدریس اس کے حوالے کی جارہی ہے، وہ واقعی اس مضمون پر عبور رکھتا ہو اور اپنے اخلاق و عادات کے اعتبار سے بھی انگشت نمائی سے محفوظ ہو۔پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مضمون پر مناسب محنت کرتاہو اور اس کے مطالعہ و تحقیق میں ارتقاء اور تسلسل ہو کہ اس کے بغیر وہ اپنے طلبہ کو کما حقہ فیض یاب نہیں کرسکتا، وہ اوقاتِ درس کا پابند ہو اور اپنے وقت کو طلبہ کی امانت تصور کرتا ہو، قرآن مجید نے کم ناپنے کم تولنے کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور اہل علم نے لکھا ہے کہ ناپ تول کی کمی میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ وہ ملازمت کے اوقات میں سے کوئی حصہ اپنی ضرورت میںاور مفوضہ کام کے علاوہ کسی اورکام میں خرچ کرے، یہ بھی ایک طرح کی چوری ہے اور ان اوقات کی اجرت اس کے لیے حلال نہیں۔
اساتذہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طلبہ کی نفسیات کا شعور رکھتے ہوں اور عملی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوں، طالب علم کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کرنا اور اس کی تذلیل کے درپے ہونا نہایت اوچھی بات ہے اور کسی بھی طرح استاذ کے شایان شان نہیں،رسول اللہ ﷺکا معمولِ مبارک تھا کہ اگر کسی کی غلطی پر ٹوکنا ہوتا تو تنہائی میں توجہ دلاتے اور اگر متعدد افراد کو اس غلطی میں مبتلا دیکھتے تو مجمع عام میں کسی کا نام لیے بغیر مبہم انداز میں توجہ دلاتے، چوںکہ مقصد اصلاح ہے نہ کہ انتقام، ایسا بھی ہوا کہ آپ ﷺ کی موجودگی میں بعض لوگوں نے مسجد میں پیشاب کردیا، آپﷺ نے اس پر پانی بہانے کا حکم دیا اور کسی ناگواری کا اظہار کیے بغیر محبت کے ساتھ سمجھانے پر اکتفا فرمایا، بعض طلبہ بظاہر شر پسند ہوتے ہیں، لیکن اگر تنہائی میں بلا کر ان کی تفہیم کی جائے اور ان کی ذہانت کو تخریبی کاموں کے بجائے تعمیری کاموں کی طرف موڑ دیاجائے تو بآسانی ان کی اصلاح ہوجاتی ہے اور وہ قوم کے لیے ایک مخلص عنصر ثابت ہوسکتے ہیں۔
اساتذہ کے لیے علمی لیاقت کے ساتھ اخلاقی اقدار بھی نہایت ضروری وصف ہے، استاذ کو اتنا باوقار ہونا چاہیے کہ اس کی ایک نگاہِ درشت سے طلبہ سہم جائیں، اگر اساتذہ خود اخلاقی پستی میں مبتلا ہوں، طلبہ سے سطحی گفتگو کرتے ہوں، ان کے سامنے فحش ہنسی مذاق کیا کرتے ہوں، ان کے کردار کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہو اور ان کی زبان و بیان سے وقتاً فوقتاً سوقیانہ پن اور پھوہڑپن کا اظہار ہوتا ہو، تو بجا طور پر طلبہ ان کو اپنا بے تکلف دوست سمجھتے ہیں اوراستاذ کا درجہ نہیں دیتے، کیوںکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان خود کتنا بھی برا ہو، وہ اپنے بزرگوں کو اس سے ماوراء دیکھنا چاہتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سماج اور قوم کی تعمیر میں اساتذہ کا بڑا رول ہے،وہ نہ صرف طلبہ بلکہ سماج کے لیے بھی قابل احترام ہیں؛ لیکن اسی قدر ضروری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں اور جیسے وہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں برتتے، اسی طرح، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اپنے فرائض و واجبات پر بھی نگاہ رکھیں اور خود احتسابی سے بھی غافل نہ ہوں۔
رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ’’ قیامت کے روز بندے کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سےہٹ نہ سکیں گے، جب تک کہ اس سے ان چار باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے:۱… عمر کن کاموں میں گزاری؟۲… جوانی کی توانائی کن کاموں میں لگائی؟۳… مال کہاں سے کمایا اور کہاں لٹایا؟۴… علم پر کس حدتک عمل کیا؟(جامع ترمذی)
وقت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، لہٰذا بندے پر نعمت کا شکر ادا کرنا ضروری ہے، ورنہ نعمت کو چھین لیا جاتا ہے اور وقت کی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت و پیروی میں استعمال کیاجائے اورآگے کام آنےوالے نیک اعمال میں اسے کارآمد بنایاجائے۔اللہ کے پیارے نبیﷺ کا ارشاد ہے : ” دو عظیم نعمتیں ہیں:تاہم بہت سے لوگ ان کے بارے میں غفلت برتتے ہیں،: اوروہ صحت اور فرصت ہیں“(صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓفرماتے ہیں: ”مجھے کسی چیز پر اتنی ندامت اور شرمندگی نہیں ہوئی، سوائے ایک دن کے جس کاسورج غروب ہوگیا ہواور اس میں میری عمر کا وقت ختم ہوچکاہو اور میرے نیک اعمال میں کوئی اضافہ نہ ہوا ہو“۔
امام حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”اے ابن آدم ! تیری ذات خود دن اور زمانہ ہے، جب ایک دن نکل جاتا ہے تو گویا تیرے جسم کا ایک حصہ ختم ہوجاتا ہے“۔مزید فرماتے ہیں:”دنیا صرف تین دن کا نام ہے: بہرحال گزشتہ کل ،تو وہ جاچکا ،جہاں تک آئندہ کل کا تعلق ہے تو کوئی یقینی بات نہیں ہے کہ تو اسے پاسکے، رہا آج کا دن تو یہ ا بھی تیرے ہاتھ میں ہے، لہٰذا جو بھی عمل کرناہو، کرلے“
اسی طرح علامہ ابن قیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”وقت کا ضائع کرنا موت سے زیادہ سخت ہے، کیوںکہ وقت کا ضیاع اللہ تعالیٰ اور آخرت سے دور کردیتا ہے اور موت دنیا اور دنیاوالوں سے کاٹ کر رکھ دیتی ہے“۔بنیادی طور پر انسان کے اوقات کو ضائع کرنے والی دو چیزیں ہیں،ایک غفلت اور دوسراٹال مٹول سے کام لینا۔
حالانکہ کل تک زندہ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے اوراگرکل کی زندگی کی ضمانت مل بھی جائے تواچانک آنے والی بیماری یا مصیبت و پریشانی سے چھٹکارا نہیں ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ انسان کل کا انتظار نہ کرے، بلکہ آج سے ہی عمل صالح کے لیے کمر کس لے، تاکہ وہ کل کی پشیمانی و ندامت سے محفوظ رہ سکے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطافرمائے۔