• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُلو کیسے ہوتے ہیں ؟

بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے پاکستان کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہو رہا تھا، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کرتے ہوئے سید ریاست حسین رضوی کا شعر پڑھا :
بربادی ء گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھے ہیں انجام گلستاں کیا ہو گا
ایوان میں بیٹھے کسی رُکن نے برجستہ جواب دیا ،جی ہاں الو تو بیٹھے ہیں اور جو اُلو کے پٹھے ہیں وہ واک آئوٹ کر کے جا رہے ہیں ۔شاید یہ مکالمہ اس حقیقت کے پیش نظر ہوا ہو گا کہ الوئوں کے جھنڈ کو پارلیمنٹ کہا جاتا ہے یا کم ازکم آج کل بعض لوگ پارلیمنٹ کو الوئوں کا جھنڈ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پارلیمان جیسے مقدس ادارے کی بے توقیری کی جاتی رہی ہے۔ویسے مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ہم الوئوں کے بسیرا کرنے سے اس قدر گھبراتے کیوں ہیں ؟اُلو کو مغربی معاشرے میں دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ہم نے اسے نحوست کا استعارہ بنا دیا ہے ۔بھارت جیسے قدامت پسند معاشرے میں بھی الو کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ’’رامائن‘‘ میں الو کو دانا پرندہ قرار دیا گیا ہے اور ہندو دھرم کے مطابق لکشمی دیوی الو کو سواری کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔دنیا بھر میں الوئوں کی 250اقسام ہیں اور ماہرین نے ان کی عادات و صفات پر بہت تحقیق کی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پائے جا رہے انواع و اقسام کے الوئوں اور ان کے پٹھوں پر ریسرچ کا فقدان دکھائی دیتا ہے حالانکہ ہماری دھرتی اس حوالے سے بہت زرخیز اور ماحول بہت سازگار واقع ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک الو موجود ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں اُلو ہی نہیں الو کے پٹھے کو بھی بے وقوف سمجھا جاتا ہے ۔میں نے ایک بارشفیق الرحمان کی ـکتاب ’’تزک ِ نادری ‘‘ میں کسی الو شناس کا تذکرہ پڑھا تھا جو الوئوں کی بولی جانتا تھا ،تب سے میرے دل میں یہ حسرت پیدا ہوئی کہ موقع میسر آئے تو کیوں نہ کسی روز الو سے آف دا ریکارڈ گپ شپ کی جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ الو ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔اگرچہ مستنصر حسین تاررڑ نے ـ’’الو ہمارے بھائی ہیں ـ‘‘ لکھ کر ان کے خیالات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن ہمیں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہم نے تو دل و جان سے الوئوں کو اپنا بھائی مان لیا لیکن کیا وہ بھی ہمیں اپنا بھائی تسلیم کرتے ہیں؟
چند روز قبل ایک الو سے سرراہے ملاقات ہوگئی تو میں نے جھٹ سے پوچھا ’’بھائی ،صاحب آپ الو ہیں یا الو کے پٹھے ؟‘‘’’تم انسانوں کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ جس طرح ہر سیاستدان کا بیٹا سیاستدان ،ہر صحافی کا بیٹا صحافی اور ہر جج کا بیٹا جج نہیں ہوتا اسی طرح ہر اُلو کا بیٹا الو کا پٹھا نہیں ہوتا ‘‘اُلو نے بھائو کھانے کے بجائے اطمینان سے جواب دیا \میں نے اس اُلو سے مزید سوالات پوچھنے کی اجازت چاہی تو اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آمادگی ظاہر کر دی۔اچھا تو الو بھائی ! سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ کب سے اُلو ہیں ؟اور بطور الو کیسا محسوس کرتے ہیں ؟
ویسے تو میں نے جب سے ہوش سنبھالا خود کو اُلو ہی پایا لیکن کوئی بھی شخص پیدائشی طور پر اُلو نہیں ہوتا ،یہ معاشرہ اسے اُلو یا اُلو کا پٹھا بناتا ہے اور رہی بات محسوس کرنے کی تو میں خوش ہوں کہ انسانوں کی طرح اپنااُلو سیدھا کرنے یا کسی کو اُلو بنانے والی روش ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی ۔ انسانوں کے بارے میں اس کے خیالات عجیب و غریب لگے تو میں نے پوچھا،آپ ہم انسانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ؟
اس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر جواب دیا ،ہمارے آپ کے بارے میں خیالات وہی ہیںجو آپ انسان کے ہم الوئوں کے بارے میں ہیں۔
ایک لمحے کو تو میں ٹھٹھک گیا کہ اس نے یہ کہہ کر انسانوں کی بے عزتی کی ہے یا عزت افزائی ؟لیکن پھر سوچا کہ کیوں نہ سوالات کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے ۔
اچھا اُلو بھائی یہ بتائیں کہ اگر انسانوں میں سے کوئی اُلو بننا چاہے تو کیا یہ ممکن ہے ؟
بننا چاہے کیا مطلب ۔آپ کے ہاں تو ایک سے ایک بڑھ کر ایسے تماشہ گر موجود ہیں جو مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں آتے ہیں اور عوام کو اُلو بنا کر چلے جاتے ہیں ۔آپ لوگ تو برسہا برس سے اُلو بنتے چلے آرہے ہیں ۔تم لوگ سادے اُلو نہیں بلکہ کاٹھ کے اُلو بن چکے ہواور صرف یہی نہیں بلکہ اب بھی ارتقاء کا سفر جاری ہے۔انسانوں کا انٹرویو کرتے ہوئے میں کبھی لاجواب نہیں ہوا لیکن اس اُلو نے تو مجھے حواس باختہ کر دیا ۔میں نے دل ہی دل میں اسے اُلو کا پٹھا کہا اور اگلا سوال داغ دیا اچھا اُلو !غصہ تھوک دو اور یہ بتائو کہ تمہارے ہاں قیادت کا انتخاب کیسے ہوتا ہے ؟موروثیت ہے ،بادشاہت ہے ،صدارتی نظام ہے یا پھر پارلیمانی نظام ،انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں ؟
ہمارے ہاں پارلیمانی نظام رائج ہے اور انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں ،لوگ ووٹ بھی ڈالتے ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟فرق تو اس بات سے پڑتا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کون کرتا ہے ،تم نے امریکی مصنفہ ایما گولڈ مین کا وہ قول نہیں سنا ،اگر ووٹنگ سے تبدیلی لائی جاسکتی تو اسے بھی غیر قانونی قرار دیدیا گیا ہوتا۔
چلو اس اعتبار سے تو تم ہمارے بھائی لگتے ہی ہو۔
اچھا اُلو بھائی ! اگر بُرا نہ مانوتو یہ بتائو کہ تم لوگ ویران اور اجاڑ جگہ پر ڈیرے کیوں ڈالتے ہو ؟کیا یہ بات سچ ہے کہ جس معاشرے میں الوئوں کا بسیرا ہو وہ معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں؟
الوئوں کے بسیرا کرنے سے انسانی آبادیاں ویران نہیں ہوتیں بلکہ ہم رہنے کے لئے انتخاب ہی انہی مقامات کا کرتے ہیں جو امتیازی سلوک اور عدل و انصاف کی آڑ میں انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں تباہ و برباد ہو چکے ہوتے ہیں۔پہلے ہم بھی اندھیروں کے بجائے روشنیوں اور ویران وبیابان مقامات کے بجائے آبادعلاقوں میں رہنے کو ترجیح دیا کرتے تھے ۔ہمارے ہاں بھی نظم و ضبط اور سلیقہ ہوا کرتا تھا ،ایک مثالی پارلیمانی نظام تھا ،اظہار رائے کی آزادی تھی ،آزاد اور غیر جانبدار مگر اپنی حدود و قیود کی پابند عدلیہ تھی لیکن پھر کیا ہوا کہ ہمارے ہاں ضد ،انا اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہوتا چلا گیااور ہم تباہی و بربادی کے دہانے پر جا پہنچے، اب یہ عالم ہے کہ اندھیرے ہمارا مقدر ہو چلے ہیں ۔
مجھے لگا جیسے یہ اُلو نہ صرف خود مرے گا بلکہ مجھے بھی مروائے گا اس لئے میں نے مزید سوالات کرنے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹ آیا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین