گفتگو: عصمت علی کامران
عکاسی: اسرائیل انصاری
ڈاکٹر عمران یوسف،سندھ اور بلوچستان کے لیے فلپائن کے اعزازی قونصل جنرل ہیں۔اعلی تعلیم یافتہ ہونےاور وسیع کاروباری تجربے کی بنیاد پروہ پاکستان، فلپائن تعلقات میں استحکام اور معاشی روابط کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔وہ معاشی سطح پر ایسی دوطرفہ طویل المدتی پالیسیوں کے خواہاں ہیں جن سے فلپائن میںخاص کرپاکستانیوں کے لیے تعلیم و روزگار کےمواقع پیدا کیے جائیں ،اس حوالے سے گزشتہ دنوں اُن سے بات چیت کا موقع ملا،گفت گو کا احوال پیش خدمت ہے:
جنگ: اپنے بارے میں بتائیں؟
ڈاکٹر عمران یوسف:1990میں مجھے فلپائن میں اسکالر شپ ملی تھی،میں نے کمپیوٹر سائنس میںگریجویشن کیا ہے،اُس زمانے میں،میں پہلا پاکستانی تھا جس نےکمپیوٹر سائنس میں بی ایس کیا تھااور گولڈ میڈل حاصل کیا تھا،اس کے بعد میں مزید تعلیم کے حصول کے لیے کینیڈا چلاگیا،وہاں بزنس شروع کیا اوربزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کی اور ایڈوانس سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ کیا۔2005میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ضرورت سے زیادہ وسائل دیئے ہیں۔ اب وطن کو ہماری ضرورت ہے،اسی خیال سےپاکستان آیا کہ یہاں کچھ کرنا ہے،چونکہ میری ذہنی صحت یا مائنڈ ٹیکنالوجی میں Specializationتھی اور میں اسی شعبے کا ماسٹر ٹرینر بھی ہوں،لہذاذہنی صحت کے حوالے سے کام شروع کیا۔ 20سال کینیڈا میں قیام کے دوران میں نےفلاحی تنظیم ’’ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘کی بنیاد رکھی ،اس کے ذریعے دنیابھرکی یونیورسٹیز میں تعلیمی اور ذہنی صحت کے حوالے سےپروگرام کرائے، پاکستان آکرکاروبار شروع کیا اوراپنی فلاحی تنظیم کی جانب سے تعلیم و ذہنی صحت کے لیے کام کیااور کلینیکل سو شیالوجسٹ اورڈاکٹرز کو تربیت دینا شروع کی۔جب مجھےفلپائنی حکومت نے کہا کہ آپ سندھ اور بلوچستان کے لئے فلپائن کے قونصل جنرل بننا چاہیں گے تو یہ ایسا موقع تھا، جس میں مجھے سب سے زیادہ کشش یہ محسوس ہوئی کہ اس سے وطن کے لیے معاشی سطح پر کام کرنے کابھی موقع ملے گا۔
جنگ:دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں فلپائن میں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد نسبتاًکم کیوں ہے؟
ڈاکٹر عمران یوسف:جی فلپائن میں پاکستانی کمیونٹی تعداد کافی کم ہے، میرے خیال میں ایک ہزار سے پندرہ سو کے قریب لوگ ہیں۔ ایک زمانے میں فلپائن میں پاکستانی بہت زیادہ تھے ،جب تھائی لینڈ، جاپان اور فلپائن کا ویزہ نہیں تھا ،تو یہ روٹ بہت زیادہ سفر کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ کراچی، بنکاک، منیلا ، ٹوکیو اس روٹ پر پی آئی اے کی فلائٹس چلتی تھیں۔ فلپائن کی ائیر لائن بھی یہاں آتی تھی،لیکن 1990-92 میںپاکستان کے داخلی حالات خراب ہوئے ،خصوصاًکراچی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہورہا تھالہذاوہ ممالک جو ویزہ فری تھے ،انہوں نے پاکستان ہی کی درخواست پرسختی کی جس کا نقصان خاص کر ہمارے طلبا کو ہوا جو وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانا چاہتے تھے،پاکستانیوں پر سفری پابندیاں لگادی گئیں اس کے بعد سے پاکستانی کمیونٹی کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔
جنگ:فلپائن کے لیے ویزے کا حصول تاحال مشکل اور دشوارگزار ہے؟اس کی وجوہ کیا ہیں؟
ڈاکٹرعمران یوسف:مشکلات اس لئے ہیں کہ فلپائن کی ایمبیسی پاکستان، افغانستان، قازقستان اور کرغیزستان، ان چار ممالک کو دیکھتی ہے۔ اتنے بڑے ریجن کو صرف ایک ایمبیسی ڈیل کررہی ہے۔ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہو گاکہ ان ممالک کے داخلی حالات کی وجہ سے اور خاص طور پر افغانستان کے وہ لوگ جو پاکستانی پاسپورٹ استعمال کر رہے ہیں ،اس سے سیکورٹی تحفظات بڑھ گئے ہیں۔اسی لیے پاکستانی ہمیشہ ’’ریڈ زون‘‘ میں ہوتے ہیں، ہمارے لئے پاکستانیوں کو ویزا دینا بعض اوقات اس لئے بھی تھوڑا سا مشکل ہو جاتا ہے کہ کلیرنس میں بہت وقت لگتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ ڈیٹا بیس چار ممالک کا ایک ہی جگہ ہے۔ تو پاکستان آٹو میٹکلی ہی ’’ریڈ زون‘‘ میں آ جاتا ہے۔ ہم نے بزنس کمیونٹی کے لئے خاص طور پر نرمی کی ہےکہ اگر وہ ہمیں چیمبر آف کامرس کا لیٹر دیتے ہیں تو ہم ان سے پولیس کلیرنس بھی نہیں لیتے۔ ہم انہیں نرمی دیتے ہیں،اس کے لیے ہمیں پریشانی بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ انہیں ہم ایکسٹراواچ کرتے ہیں۔فلپائن میں حال ہی میں مارشل لاء لگا تھا ، وہاں حکومت مخالف آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تو اس میں بھی بدقسمتی سے کچھ پاکستانی ملوث پائے گئے تھے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ ایک زمانے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت مہربان تھی،یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ،دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے تھے اور روس کے ساتھ جنگ میں حصہ لیتے تھے اوریہاں سے لوگ افغانستان جاتے تھے۔وقت نے ثابت کیا کہ ہم وہی بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔آج اگر کہیں بھی دہشتگردی ہوتی ہے تو ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ پاکستانی ملوث نہ ہوں یایہاں سے کوئی تعلق نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کے لیے ویزہ مشکلات ہیں اور سفارتی عملے کو احتیاط برتنی پڑتی ہے۔
جنگ:پاکستانی تاجروں کے لیے فلپائن کے ساتھ تجارت کے کتنے مواقع ہیں اور پاکستان سے کون سی اشیاءفلپائن بھیجی اور درآمد کی جاسکتی ہیں؟
ڈاکٹر عمران یوسف: ہم نے فلپائن پاکستان بزنس کونسل بنائی تھی کہ پاکستان اور فلپائن کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔ 2008میں بہت زبردست معاہدے ہوئے تھے، جس میں فلپائن کی تاریخ میں پاکستان پہلا ملک تھا، جس کے لیے پارلیمنٹ کے تحت منظور ہوا تھا کہ پاکستانی فارماسو ئٹیکل مصنوعات فلپائن میں ایکسپورٹ ہو سکتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ سات، آٹھ برس میں ٹریول ایڈوائزری اور دہشت گردی کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ ہماری ایکسپورٹ رک گئی تھی، کمپنیز کی انسپیکشنز جو کہ لازمی ہوتی ہیں وہ بھی رک گئیں۔ یہاںوفود نے آنا چھوڑ دیا۔ اسی طرح تجارت کے حوالے سے پاکستان فلپائن معاہدہ متاثر ہوا۔ایک سال قبل فلپائن کی حکومت نےسندھ اور بلوچستان کے لئے بطوراعزازی قونصل جنرل ،میرا انتخاب کیا ۔ سندھ، خاص طور پر کراچی شہر تجارت کے حوالے سے ’حب‘ ہے۔ساری معاشی سرگرمیاں یہیں سے ہوتی ہیں۔ ہم نے اس کام کو شروع کیا گزشتہ ایک سال کے اندر پاکستان 100ملین ڈالر کی فلپائن کے لئے ایکسپورٹ بڑھا پایا۔ وہ سیکٹرز جو بند تھے پہلے ان کے لئے سخت محنت کی، ٹریول ایڈوائزری ختم کروائی، جو انڈسٹریز رک گئیں تھیں انہیںreviveکرایا۔ ادویہ کی کمپنیوں کامعائنہ شروع ہوا۔ ماہرین پر مبنی وفود آنا شروع ہوئے۔ اب ادویہ کی ایکسپورٹ شروع ہو چکی ہے۔ یہاںچاول میں ایک پروڈکٹ جسے ہم ’’کنکی چاول‘‘ کہتے ہیں۔ اسے ہم زیادہ استعمال نہیں کرتے، یہاں زیادہ تر باسمتی چاول استعمال ہوتا ہے۔ ’’کنکی چاول‘‘ کا بیج درحقیقت فلپائن کا ہی بیج تھا،یہاں لا کر لگایا گیا تھا۔ یہ بھی المیہ ہےکہ اسے ہم استعمال نہیں کر تے تھےاور ایکسپورٹ بھی نہیںکر پا رہے تھے،لیکن اب الحمد اللہ ایکسپورٹ شروع ہو چکی ہے اور یہاں سے چاول فلپائن کے لئے جانا شروع ہو گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دنیا کا بہترین کینو کاشت ہوتا ہے، اس کی ایکسپورٹ بھی رک گئی تھی،جو اب شروع ہوچکی ہے ۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ فلپائن کی حکومت اپنے انفرا اسٹرکچر پر2017سے2022تک 160بلین ڈالر انویسٹ کر رہی ہے، اس لئے ان کو تعمیراتی کام کے لئے سامان زیادہ چاہئے۔ خاص کر سیمنٹ ،سریا وغیرہ،ان اشیاءکی پاکستان میں بہت اچھی کمپنیاںہیں جو معیاری سیمنٹ بناتی ہیں اور ایکسپورٹ کر رہی ہیں، خوش قسمتی سے فلپائن کے لیے پاکستان کا30ملین ڈالر کا پہلا معاہدہ منظورہو گیا ہے اور پہلی شپمنٹ بھی جا چکی ہےاور بھی بہت سیکٹرز ہیں فوڈز، سبزیاں ،چاول اورفارما سوئٹیکل وغیرہ ہیں، پاکستان کےڈینٹل اور سرجیکل ایکوپمنٹ بہت معیاری ہیں۔ ہم اس پر کام کر رہیں کہ یہ چیزیں بھی پاکستان سے ایکسپورٹ ہو سکیں۔ اسی طرح فلپائن میں بھی بہت سی ایسی مصنوعات ہیں جو پاکستان آ سکتی ہیں،یہاں پائن ایپل اور فروٹ کاک ٹیل کا استعمال بڑھ گیا ہے،لوگ ناریل کا تیل زیادہ استعمال کرتے ہیں۔دونوں ملکوں کی تجارت کا دوبارہ سے شروع ہونا خوش آئند بات ہے، اس سے روزگار بڑھے گا اور حالات بہتر ہوں گے۔ فلپائن کے لئے جو ہمارے پہلے ہدف تھے وہ یہ تھے کہ پہلے تجارتی معاشی تعلقات بحالی ہوں اور سفری پابندیوں کا خاتمہ ہو،ہم دیگر شعبہ جات میں بھی مل کر کام کر رہے ہیں۔
جنگ:پاکستان اور فلپائن کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم کتنا ہے؟کیا دونوں ممالک کے درمیان فری ٹریڈ معاہدہ موجود ہے؟
ڈاکٹر عمران یوسف:پاک فلپائن ٹریڈ کا اتنا حجم نہیں ہے کہ فری ٹریڈکا درجہ ملے ،ایسا اس وقت ممکن ہے،جب ٹریڈ کا حجم زیادہ ہو۔ یہاں حالات اس کے برعکس ہیں پہلا ہمارا اسٹیپ تھا کہ پابندیوں کو ختم کیا جائے، پاکستانی، فلپائن آئیں ۔
جنگ:عہدہ سنبھالنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کیا بہتری دیکھی؟
ڈاکٹر عمران یوسف: 100بلین ڈالرز میں پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھ جانا تعلقات میں بہتری کی بڑی مثال ہے اوردوطرفہ تجارت میںہم نے نئی صنعتوں کو شامل کیا ہے جیسے سیمنٹ ہے ۔ اسی طرح دیگرمصنوعات بھی تجارت میں شامل کررہے ہیں۔
جنگ:طلباء کے لیے بھی ویزے بڑھائے جائیں تویہ احسن قدم ہوگا۔ اس حوالے سے کیا کوششیں ہیں؟
ڈاکٹر عمران یوسف:بالکل، طلبا اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے زیادہ اچھا ہو گا کیونکہ یہاں ڈاکٹرز کی بے حد کمی ہے۔ 20کروڑ کی آبادی پر تقریباً ایک لاکھ ڈاکٹر ہوں گے۔ فلپائن میں میڈیکل اور نرسنگ کے شعبوں کے لیے جدید تعلیم موجود ہے۔
جنگ:کیا وجہ ہے کہ بھارت کے فلپائن کے ساتھ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مستحکم تعلقات ہیں؟
ڈاکٹر عمران یوسف:2008میں پہلی بار جب پاکستانی وفد فلپائن گیا تھا، اُس وقت جنرل پرویزمشرف صدر تھے، اس زمانے میںیہاں سے فلپائن کے لیے ادویہ امپورٹ نہیں ہوتی تھیں۔ وہاں ادویہ بہت مہنگی ہیں۔ یہ پاکستان کا ہی کارنامہ تھا اسے منظور کرایاکہ فلپائن پاکستان سے ادویہ امپورٹ کرےگا ،فلپائن کی تاریخ میں پاکستان واحد ملک ہے جسے منظوری ملی۔ اُس وقت پاکستان کی 25کمپنیوں کو منظوری دی گئی تھی جو فلپائن میںادویہ بھیج سکتی تھیں۔ بدقسمتی سےیہ تعدادسمٹتی گئی اور پاکستان پرسفری پابندیاں عائد ہو گئیں ،جبکہ 2008سے آج تک بھارت کی تقریباًساڑھے تین ہزار ادویہ کی کمپنیاں فلپائن میں رجسٹرڈ ہو گئی ہیں،پاکستان کو تو باقاعدہ منظوری ملی تھی،لیکن بھارت نے وہاں بہت لابنگ کی ،جس زمانے میں،میں فلپائن میں طالب علم تھا تو ہمیں اندازہ تھا کہ فلپائن میں بھارت کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا،لیکن انہوں نے وہاں بہت کام کیا، کہاں ہماری25کمپنیاں تھیں ان پر بھی بین لگ گیا اور ان کی ساڑھے تین ہزار کمپنیاں رجسٹرڈ ہو گئیں۔آج وہاں بھارت کے طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اب جس طرح ان کو وہاں مراعات دی جارہی ہیں تو وہ اسے مینوفیکچرنگ کے لیے avail کررہے ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا نے وہاں اپنی ساکھ بنائی ہے حالاں کہ یہ پودا پاکستان نے لگایا تھا۔اس میں یہاں کے لوگوں کی کوتاہیاں ہیں،یعنی ایک راستہ ملا اور آگے نہ بڑھ سکے۔
جنگ:اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر عمران یوسف:وجہ ہمارے کاروباری لوگوں کی مختصر پالیسیاں ہیں۔یہاںایک مسئلہ یہ ہے کہ لوگ مل کر کام نہیں کرنا چاہتے۔مثلاً اگر آرڈر بڑا ہوتا ہے اور ہمارے پاس چھوٹی سپلائز ہیں تو ساری دنیا consolidationکرتی ہے۔مثال کے طور پر انہیں ایک لاکھ ٹن چاول چاہیے اور یہاں کُل ملاکے چالیس ہزار ٹن ہے،تو دس آدمی چالیس ہزار ملا کے کور کر سکتے ہیں،دوسری وجہ یہی کہ طویل المدتی پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں۔
جنگ:فلپائن میں پاکستان ایمبیسی کی کارکردگی اور پاکستانیوں کے لیے اُن کی خدمات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹرعمران یوسف:فلپائن میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے اور فلپائن کے لوگ یہاں زیادہ سفر نہیں کرتے۔حال ہی میں فلپائن میںمتعین ہونے والے پاکستانی سفیر امان راشدخاصے متحرک ہیں۔انہوں نے وہاں سفارتی و تجارتی افراد سے ملاقاتیں کی ہیں۔وہ دونوں ملکوں کے تجارتی و ثقافتی تعلقات میں تیزی لانے کے لیے خاصے سرگرم ہیں۔جب وہ یہاں سے سفیر بن کر فلپائن جا رہے تھے توہم نے انہیں فیڈریشن آف کامرس کا دورہ بھی کرایا تھا اور انہیں دوطرفہ تجارت اور فلپائن میں پاکستانیوں کے لیے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے بھی بات کی تھی اور اس وقت اسلام آباد میں فلپائن کے سفیر بھی دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے سرگرم ہیں۔
جنگ:دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کے لیے حکومت کو کیا اقدامات کرنا چاہئیں؟
ڈاکٹر عمران یوسف:اسے بدقسمتی ہی کہہ لیں کہ 1992کے کراچی آپریشن میں جب نصیر اللہ بابر یہاں کے وزیر داخلہ تھے،وہ آفیشلی فلپائن میںجاکر پاکستانیوں کے لیے’’ پولیس کلئیرنس فار ویزا‘‘ لگوا کے آئے تھے ۔
اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اسی لیول کا وفد جائےاورپراسس ریورس کروائے۔جب ایک حکومت دوسری حکومت سے کچھ پابندیاں لگواتی ہے وہی حکومت ہٹوا بھی سکتی ہے۔اس لیے ہماری پوری کوشش ہے کہ ایک یہاں سے ایک اعلی سطح کا وفد فلپائن جائے اور وہاں جا کے بتائے کہ اب 90والے حالات یہاں نہیں ہیں۔اب سی پیک کی وجہ سے بھی تبدیلیاں آرہی ہیں اور فلپائن خود آسیان کا ممبر ہے،لہذا حکومت کو چاہیے کہ اپنا وفد بھیجے ،تاکہ پابندیوں کا خاتمہ ہوسکے۔