• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیمی نظام واصلاحات

آفتاب احمد

’’شرح خواندگی میں اضافہ، امتحانی طریقۂ کار میں تبدیلی، اساتذہ کا میرٹ پر تقرر وقت کی ضرورت ہے‘‘

قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ بالخصوص کراچی تعلیم کا مرکز و محور بھی تھا۔یہاں نہ صرف بہترین معیاری ادارے موجود تھے،بلکہ بہترین اساتذہ بھی تھے، جو دنیا کو متاثر کرتےتھے۔ معیار تعلیم بلند اور نقائص سے کافی حد تک پاک تھا۔ نجی تعلیمی ادارے سرکاری اداروں جیسا یا پھر اُس سے کم معیار رکھتے تھے۔ اسکولوں کی سب سے بڑی تعداد کراچی میں تھی ۔ ملک کے دیگر حصوں کے برعکس کراچی میں شرح خواندگی زیادہ تھی اور کراچی ایک ماڈل شہر کے روپ میں تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی، بطور گورنر جنرل اُنہوں نے قومی تعلیمی پالیسی بنانے کے احکامات دیئے۔ اُس وقت کے وزیر تعلیم نے پہلی قومی تعلیمی پالیسی تیار کی۔ امتحانی نظام و طریقہ کار وضع کیا گیا۔ اساتذہ کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ تعلیمی مقاصداور نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سےہم آہنگ کرنے کے اقدامات کئے گئے۔ ان پر عملدرآمد اس کی روح کے مطابق ہوا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظام تعلیم بہتری کی جانب گامزن ہو گیا ،بعدازاں دارالخلافہ اسلام آباد منتقل کرنے کے اثرات تعلیمی نظام پر بھی پڑے۔ اسلام آباد میں نہ صرف اچھے تعلیمی ادارے قائم ہوئے، بلکہ تربیت یافتہ اہل اساتذہ کی ایک تعداد نے بھی نئے کراچی سےدارالخلافہ کا رخ کیا۔اسی طرح تعلیمی نظام میں پہلا باضابطہ بحران آیا،گرچہ کراچی میں اساتذہ کی جگہ پر کر لی گئی، لیکن وہ معیار میں کسی حد تک کم تھے ۔ پہلی بار سیاسی بنیادوں پر اساتذہ کی تقرریاں کی گئیں، بعدازاں یہ رجحان شدت اختیار کر گیا، اساتذہ کا تقرر سیاسی بنیادوں پر ہونے لگا۔ کراچی کے تعلیمی نظام اور معیار میں آیا فرق ختم نہ ہو سکا ۔آئین میں ہونے والی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کو صوبائی سطح پر رکھنے کے نتائج بہتر نہ نکل سکے ۔ ملکی سطح پر تعلیمی پالیسی اور فنڈز کے مسائل پریشان کن ثابت ہوئے۔ ملک کے دیگرحصوں کے برعکس سندھ کے دیہی علاقوں، بالخصوص کراچی میں بالعموم تعلیمی معیار گر گیا۔ اس کے نتائج و اثرات امتحانات اور طریقہ امتحانات پر مرتب ہوئے، نقل کا رجحان پروان چڑھا۔ سرکاری نوکریوں کے لئے سندھ میں کوٹہ سسٹم تھا ۔ سند یا ڈگری کا حصول کافی سمجھا گیا،رفتہ رفتہ صورتحال دگرگوں ہوتی گئی۔ اساتذہ کی غیر سنجیدگی کو سیاسی جواز بنادیا گیا اور ایسے اساتذہ کا بھی سیاسی بنیادوں پر تقررکیا گیا، جو پڑھانا تودرکنار پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ شہری و دیہی امتیاز تعلیم کے شعبے میں اُبھر کر سامنے آیا اور اسے سیاسی و لسانی رنگ بھی دیا گیا۔ اسکولوں کا استعمال اوطاق ا ٓفس کے انداز میں سامنے آنے لگا۔ طالب علموں نے حالات کے تحت غیر سنجیدگی اور وقت گزاری کو اپنا طور طریقہ بنا لیا اورپھر تنزلی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔صوبہ سندھ میں معیار تعلیم گرتا چلا گیا، حتیٰ کہ قابل طالب علموں کی جانب سے ملک کے دیگر شہروں یا حصوں میں داخلہ لینےکا رجحان بھی نظر آیا۔ طالب علموں کی ایک تعداد ملک سے باہر گئی اور جو مالی حیثیت میں بہتر نہ تھے، اُنہوں نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں، خصوصاً اُن تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا، جن کا نظام تعلیم اور معیارتعلیم بلند تھا۔ تعلیم کو صوبائی معاملہ بنانے کے سماجی محرکات نے پاکستان میں چار مختلف نظام تعلیم کو فروغ دیا اور سرکاری نظام تعلیم قابل اساتذہ کے نہ ہونے کے سبب تنزلی کا شکار ہو گیا۔ یہ سوچ ابھری کہ جو بیٹا کچھ نہ کر سکے اسے سیاسی سفارش پر بطور استاد لگوا دیا جائے۔ یہ رجحان تعلیمی نظام کے لئے مہلک ثابت ہوا اور عوام الناس اس سے متاثر ہوئے، کیوں کہ غالب اکثریت میں سرکاری نظام تعلیم ہی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، دیگر تین مختلف نظام تعلیم تجارتی بنیادوں پر قائم تھے اور ہر کسی کی استطاعت نہ تھی کہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر سکے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیمی معاملات صوبائی بنائے گئے اور مفادات کی نئی شکل نے بالخصوص صوبہ سندھ کو متاثر کیا ۔ صوبائی حکومت کی تعلیم میں فنڈنگ بند کی گئی۔

پاکستان کے دیگر بڑے شہروں اور علاقوں کو تعلیمی میدان میں اتنا نقصان نہیں پہنچا، جتنا کہ صوبہ سندھ کو اس کی بڑی وجوہات میں تعلیمی شعبے میں سیاسی مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہیں۔ ایک ایسا ماحول صوبہ سندھ میں پیدا ہوا جس نے تعلیمی تنزلی پیدا کی۔اساتذہ کی ناقص کارکردگی اور عدم دلچسپی برقرار رہی اور اوپر کی سطح پر موثر انداز سے اس ساری صورتحال سے نہ نمٹا گیا ،یہ رجحان نقل کے فروغ اور سرپرستی پرموجب بھی بنا اور اسے تجارتی بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ ماضی میں ہونے والی سیاسی بنیادوں پر تقرریاں اور میرٹ کو نظر انداز کرنے سے ہونے والے نقصانات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جائیں۔ اس ضمن میں جو شروعات کی گئی ہیں ،وہ مثبت انداز سے تعلیمی انداز سے، تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ معیار ِتعلیم پر اثر انداز ہو رہی ہیں ۔تعلیم سے محرومی غربت پیدا کرتی ہے اس کے علاوہ بے روزگاری کا سبب بھی تعلیم سے محرومی ہوتا ہے۔ شرح خواندگی میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے اور ترقی میں شعور ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو معاشی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے انہیں مواقع کی فراہمی ایک اہم قدم ہے جس سے جہاں شرح خواندگی میں بہتری آئے گی وہیں نظام تعلیم میں بھی بہتری متوقع ہے۔اساتذہ کی ناقص کارکردگی اور گھوسٹ اساتذہ کے لئے بائیو میٹرک ڈیوائسز سے ڈیٹا تیار کرنے کے مثبت نتائج سامنے آئے اوربڑی تعداد میں گھوسٹ اساتذہ فارغ کر دیئے گئے۔ حاضری کو یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک ڈیوائسز کی اہمیت کھل کر سامنے آ رہی ہے اور کارکردگی میں بہتری کے ساتھ ساتھ حاضری میں بھی بہتری سامنے آ رہی ہے۔ آئین کے تحت تعلیم کا حصول پانچ تا سولہ سالہ بچے کا بنیادی حق ہے اور بنیادی تعلیم ہر صورت یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ صوبہ سندھ میں پرائمری سطح پر آئی بہتری کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔

یونیسکو اور دیگر عالمی اداروں کی سفارشات کو اہمیت دی جانی چاہئے۔ اساتذہ کی غیر سنجیدگی اور ان کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ آج صوبہ سندھ میں اساتذہ کی تنخواہیں اور مراعات ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ ہیں، اسی تناسب سے کارکردگی کا تناسب نہیں ہے، جس کی وجوہات کو سمجھنا ہو گا اور تعلیمی اصلاحات میں اسے اہمیت دینا ہو گی، تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ شہری و دیہی امتیاز تعلیم کے شعبے میں بھی ہے، جسے ختم کر کے یکساں معیار کے لئے ٹھوس کام اب نہ کیا گیا تو کبھی نہیں کیا جا سکے گا۔ تعلیمی میدان میں بہت کم خرچ پر ایسے اقدامات کئے جا سکتے ہیں جو تعلیمی معیار میں نہ صرف بہتری لا سکتے ہیں، بلکہ اسے مثالی بھی بنا سکتے ہیں ۔گزشتہ نو سالوں میں ایک ہزار ارب روپے تعلیمی میدان میں شعبہ جاتی بہتری کے لئے خرچ کئے گئے ہیں اور آنے والے نتائج مایوس کن رہے۔ تعلیمی اصلاحات صرف خراب کارکردگی ہی نہیں بلکہ بہتر کارکردگی کو مزید بنانے کے لئے بھی کی جاتی ہیں۔

نقل کا رجحان اور اس کے اثرات صوبہ سندھ میں ایک کلچر بنتاجارہا ہے۔ ایسے افسوس ناک واقعات پیش آئے ہیں، جن کی وجہ سے امتحانات کے موقع پر تعینات عملے میں خوف جنم لیتا ہے اور وہ اپنے فرائض سر انجام دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ یہ خوف ہر صورت میں ختم ہونا چاہئے اور انتظامی سطح پر ایسے فیصلے کیے جا ئیں، جن سے امن و امان برقراررہے۔ امتحانات کے موقع پرباقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے،تاکہ مستقبل محفوظ ہو سکے، حقدار کو اس کاجائز حق مل سکے اور کوئی ناجائز ذرائع سے کسی کا حق نہ چھین سکے۔ تعلیمی نظام اور تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے فقط تنقید مسئلے کا حل نہیں ہے، اس سے ہٹ کر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ این جی اوز کے ذریعے نقل کی روک تھام ممکن ہے، وہ بھی اپنا فعال کردار اس ضمن میں ادا کرنے کو اہمیت دیں گے۔ بین الاقوامی سطح کو تعلیمی نظام و امتحانات میں بہتری کے لئے ہونےوالے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور امتحانی طریقہ کار ایسا بنایا جا سکتا ہے کہ نقل کے مواقع ہونے کے باوجود وقت کے تناسب سے اصل کو درجہ مل سکے۔ دنیا میں ایسے طریقہ کار امتحانات ہیں، جن میں وقت کا تناسب کام کرتا ہے اور قابلیت اس طرح جانچی جاتی ہے کہ نقل کرنے کا نقصان ہی ہوتا ہے اور نقل کرنے والا بھی ناکام ثابت ہوتا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں نقل کا رجحان زیادہ ہے،جو کاروبار کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ یہ رجحان پسماندہ علاقوں کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ شہری اور دیہی امتیاز تعلیم میں واضح نظر آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ طالب علموں کی مطالعہ سے گریز کی وجوہات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اساتذہ کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی سے ہٹ کر بھی وجوہات ہیں۔ ایک بڑا سبب طریقہ کار اور اس کے اثرات ہیں۔ طالب علم سمجھتے ہیں کہ امتحان سے قبل ہی تیاری کرنی ضروری ہے، ورنہ جو کچھ پڑھا ہو گا وہ بھول جائیں گے۔ امتحانی طریقہ کار میں تبدیلی اس کا حل ہے اور ایسا امتحانی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں قابلیت ابھر کر سامنے آ سکے اور طالب علموں کی دلچسپی مطالعہ میں برقرار رہے۔ نصابِ تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو،ایسا کرنے سے جہاں طالب علموں کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکتا ہے، وہیں تعلیم دینے کے مقاصد بھی پورے کئے جا سکتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں تعلیمی استعداد بڑھانے کے لئے جذبے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ کوئی بھی طالب علم اس وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں ہونا چاہئے کہ وہ مالی استطاعت نہیں رکھتا، اگر وہ حوصلہ مندی سے مطلوبہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو حکام اس کو یہ مواقع فراہم کریں۔سندھ کی سطح پر پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اسکول کھولے جائیں۔ طالب علموں کو یکساں مواقع ملیں اور تعلیمی کارکردگی میں بہتری لائی جاسکے۔

اسکولوں اور طالب علموں کے مسائل کے حل کے لئے جہاں دستیاب وسائل کو بہتر طریقے سے خرچ کرنا ضروری ہے، وہیں ان بین الاقوامی اداروں کو مطمئن کرنا ضروری ہے، جو اسکولوں کو بہتر بنانے کے لئے فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی سفارشات پر عمل درآمد تعلیم کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ پرائمری کی سطح پر کوئی طالب علم تعلیم سے محروم نہیں ہونا چاہئے ۔ تعلیم کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ حق جب چاہے حاصل کر سکتا ہے۔ صوبہ سندھ میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہمیشہ سے ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئے گی۔ اساتذہ کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہئے۔ میرٹ پر تقرر پر سمجھوتہ سندھ کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔ صوبہ سندھ میں اساتذہ کے گریڈ کا دیرینہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ اب اساتذہ بچوں پر توجہ دیں اور تعلیمی نظام میں بہتری دیکھنے کو ملے، مگر عملی طور پر بہتری نظر نہیں آ رہی ہے۔ اچھی تنخواہیں اور مراعات بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے اساتذہ جن کو پڑھانا نہیں آتا، ان کو نوکری سے نکال دیا جائے یا ان کے لئے اکیڈیمز کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ان کو اس قابل بنایا جا سکے کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں۔ ہر ممکن کاوشیں اس ضمن میں کی جانی چاہیں کہ اساتذہ کا معیار بہتر ہو، تاکہ وہ بہتر تعلیم دے سکیں۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن سرکاری ادارہ ہے، جس کے تحت پانچ لاکھ بچّے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعداد پہلے تین لاکھ تھی جو بڑھ کر پانچ لاکھ ہو چکی ہے۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کا دائرہ کار مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کی تقرری تھرڈ پارٹی کے ذریعہ میرٹ پر کرنے سے صورتحال میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے گریجویشن پروگرام کے لئے پینتالیس فیصد نمبر لازمی قرار دے دیئےہیں، یہ فیصلہ صورتِ حال میں بہتری لائے گا، اس کے لئے نچلی سطح پر وہ معیار قائم کرنا ہو گاکہ کم از کم پینتالیس فیصد نمبر طالب علم حاصل کر سکے، جو طالب علم اس سے کم نمبر حاصل کرے گا، وہ گریجویشن پروگرام میں داخلہ نہیں لے سکے گا۔ نچلی سطح پر اس کے لئے بنیادی نوعیت کا کام کرنا ہو گا، طالب علم پینتالیس فیصد سے زائد نمبر ہی حاصل کرے،جن تعلیمی اداروں میں اساتذہ عدم دلچسپی سے کام لیں گے، وہاں کے طالب علم کس طرح پینتالیس فیصد نمبر لےسکیں گے۔ اس کے علاوہ یہ میعار سرے سے موجود نہیں ہے کہ طلبہ کی تعلیمی صلاحیتیں کس سطح پر ہونی چاہیں۔ اس فیصلے نے یہ معیار قائم تو کر دیا ہے لیکن اس کے لئے دستیاب ماحول نہیں ہے۔ آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے،طالب علموں کی دلچسپی کا مرکز و محور سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کو نصاب کا حصہ بنانے سے انقلابی تبدیلی آئے گی ،اس سے طالب علموں کی دلچسپی بھی برقرار رکھی جا سکے گی۔اس کے علاوہ آن لائن کمانے کے طریقہ کار کو بھی نصاب کا حصہ ہونا چاہئے یہ قدم خصوصاً غریب طالب علموں کو ابتدا سے قابل بنائے گا کہ وہ اپنے ماں باپ پر بوجھ نہ بنیں اور اپنے تعلیمی اخراجات خود پورے کریں۔ آن لائن کمانے کے ذرائع موجود ہیں، جن کو نصاب کا حصہ بنا کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ قدم ڈیجیٹل ذرائع سے طالب علموں کو جوڑے گا، جن سے وہ آج کے دور میں جڑ چکے ہیں ، اس طرح پاکستان کی ڈگری و سر ٹیفکیٹ کی اہمیت نہ صرف ملکی، بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی بڑھے گی۔ نصاب مختصر ہونا چاہئے۔ آج اسکولوں کی سطح پر طالب علموں کو بھاری بستے اٹھانے سے سینے، گردن، اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ طالب علموں کے لئے ڈیجیٹل لائبریرز کا قیام اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ نئے انداز و رجحان کو خوش آمدید کہیں گے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور جدید ترین ڈیجیٹل لائبریریاں طالب علموں کی تعلیمی استعداد میں اضافہ کریں گی۔ نظامِ تعلیم میں بہتری و معیار تعلیم میں اضافے کے لئے ان کو اہمیت دینی ہو گی اور جدید انداز تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع تعلیم سے استفادہ ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ شعبہ تعلیم میں بہتری صرف اسی وقت ممکن ہے، جب تمام تر کاوشوں کا محورو مرکز آج کے طالب علم ہوں،اس سے ایک ایسا ماحول تشکیل پایاجا سکتا ہے ،جس میں حقدار کو اس کا حق بہتر انداز سے مل سکے۔ سندھ میں ہر پانچ سال کے بعد اساتذہ کا امتحان لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، اس ضمن میں رہنما اصول وضع کر لئے گئے ہیں۔ یہ کام این جی اوز کی نگرانی میں موثر طور پر ہی ہو پائے گا، اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اداروں اور ڈونر ایجنسیوں کو مطمئن رکھنے میں بھی کامیابی مل سکتی ہے۔ یہ فیصلہ اساتذہ کے معیار و اہلیت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر سال 120سے140ارب روپے سندھ میں تعلیم کے لئے مختص کئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ سندھ کے لئے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن نے فنڈ جاری کر دیا ہے، یہ رقم پچیس سال کے لئے دی گئی ہے، جس میں پانچ سال کی رعایت بھی شامل ہے۔ ایک بڑا مقصد پرائمری تعلیم کے بعد تعلیم کو خیر باد کہنے والی لڑکیوں کی تعداد میں کمی لانا ہے، اس حوالے سے پہلے ہی وظائف دیئے جا رہے ہیں اور مزید اقدامات صوبے بھر میں لڑکیوں کی شرح تعلیم میں بہتری لائیں گے، ان کے لئے جدید اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے بھی کھلیں گے۔ اسکول مانیٹرنگ سسٹم صوبے بھر میں کام کر رہا ہے، اسے فعال کرکے نچلی سطح کی تعلیم اور اس کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عالمی بینک کی بھی دلچسپی صوبہ سندھ میں تعلیمی نظام اور معیار میں بہتری لانے میں ہے، اس ضمن میں اپنا تعاون بھی پیش کر رہا ہے۔ نظام تعلیم اور معیار تعلیم میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے،تا کہ اساتذہ طالب علموں میں دلچسپی لیں،اساتذہ کا کام پڑھانا ہے،لیکن وہ ایسی سیاست میں ملوث ہیں، جو ان کو ان کے بنیادی کام سے ہی ہٹا دیتی ہے، وہ قانون کے مطابق مراعات سے بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ اسکولوں کا کمرشل و سیاسی استعمال اور اس کا کلچر موجود ہے۔ مراعات و اضافے کے ساتھ ساتھ سہولیات کی فراہمی تعلیمی نظام کو بہتری کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ شعبہ جاتی تعلیم کے مقاصد واضح ہونے چاہیں ،ڈاکٹرز، انجینئرز تعلیم حاصل کرنےکے بعد ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ، خصوصاً صوبہ سندھ میں ان کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے، یہاں قابل پروفیشنل کم تعداد میں دستیاب ہیں۔

ملکی سطح پر موثر تعلیمی پالیسی کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم کا شعبہ وفاق کے ماتحت ہو، اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کو صوبائی معاملہ بنا دیا گیا ۔ تعلیم پر کل جی ڈی پی کا پانچ فیصد خرچ ہونا چاہئے۔ تعلیمی نظام براہ راست وفاق کو دینے سے ایک جیسا نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم ہوگا اور وفاقی سطح پر ایک جیسا نصاب بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک یکساں نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ثابت ہو چکے ہیں، ان میں سری لنکا کی مثال ہمارےسامنے ہے، جہاں ایک ہی نصابِ تعلیم، معیارِ تعلیم اور نظامِ تعلیم موجود ہے۔ پاکستان میں بھی یہ ممکن ہے، اس کے لئے آئین میں ترمیم کر کے تعلیم کو دوبارہ سے وفاق کو دے کر یہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

تازہ ترین