• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیان ایک سائنسدان کا

ابن انشاء

ابھی میں نے لیکچر ختم ہی کیا تھا کہ وہ لپک کر میرے پاس پہنچا۔اسکے ہاتھ میں پینسل اور کھلی ہوئی نوٹ بک تھی۔اس نے کہا۔

“معاف فرمایئے۔آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آج آپ نے جو تقریر کی ہے،اس میں اہم نکتے کیا کیا تھے؟دراصل میں ابھی ابھی پہنچا ہوں جب آپ تقریر ختم کر کے میزبانوں کا شکریہ ادا کرر ہے تھے۔“

“کیا بات ہے۔آپ کو آنے میں دیر کیسے ہو گئی؟“

جی ۔ وہ ادھر ہاکی کا میچ ہو رہا ہے نا۔میں ذرا اسے دیکھنے چلا گیا تھا۔“

“آپ کھیلوں کی رپورٹنگ بھی کرتے ہیں؟‘

“ جی نہیں،میں اس قسم کی رپورٹنگ نہیں کرتا ۔ادبی،سیاسی،ثقافتی اور اس قسم کی دوسری سنجیدہ تقریبات کی رپورٹنگ میرے ذمے ہے۔بڑا کانٹے کا کھیل تھا آج ہاکی کا۔اک طرف اس میں یتیم خانہ حمایت اسلام کی ٹیم تھی اور اپنے اللہ دتہ نے کھیل کا آغاز کیا تھا۔دوسری طرف ۔۔۔۔۔لیکن آپ کی تقریر کا موضوع کیا تھا؟“

“میری تقریر “جدید سائنس کی فتوحات“ کے موضوع پر تھی۔“

“سائنس۔۔۔۔خوب۔۔۔۔بڑی اچھی چیز ہے سائنس۔“اس نے فورا پینسل سے کاپی میں کچھ نوٹ کیا،پھر سر اٹھا کر بولا۔“معاف فرمائے۔فتوحات ط سے ہے یا ت سے ور آگے چھوٹی ہ ہے یا بڑی ح ہے حلوے والی؟“

میں نے اسے بتایا کہ ط اور چھوٹی ہ نہیں ہے۔

“اچھا۔اب یہ فرمایئے کہ لیکچر کا مرکزی خیال کیا تھا؟“

“آج اس مسئلے کو لیا تھا کہ ریڈیائی لہروں کا ایٹمی تشکیلات پر کیا اثر پڑتا ہے؟“

“ٹھریئے۔“ اس نے کہا۔“ریڈیائی کے کیا ہجے ہوتے ہیں۔ریڈیائی۔۔۔ریڈیو۔۔۔۔خبر ۔۔۔میں سمجھ گیا۔“

اب اس نے اپنی نوٹ بک بند کرنے کی تیاری کی اور پوچھا۔

آپ کا پہلے بھی کبھی ہمارے شہر وزیر آباد سے گزر ہوا ہے۔“

“نہیں ۔“میں نے کہا “یہ پہلا اتفاق ہے۔“

“یہاں کی چھریوں ،قینچیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟“

“میرا کچھ خیال نہیں۔“

“آپ سلطان ہوٹل میں ٹھہرے ہوں گے۔کیسا پایا اسے؟“

“اچھا خاصا ہے ۔ذرا مکھیاں زیادہ ہیں۔“

“مکھیاں ۔تو گویا گڑ کی منڈی کو شہر میں نہیں ہونا چاہیئےِ؟“

“اس بارے میں ،میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔“

“اپ نے یہاں کا نیا مذبح خانہ دیکھا؟“

“نہیں دیکھا۔“

“بڑا اچھا بنا ہے۔“

“آپ کہتے ہیں تو اچھا ہی ہوگا۔“

اس نے جلد جلد اپنی ڈائری میں کچھ قلم بند کیا۔پھر بولا۔“یہاں کی میونسپلٹی کی کارگزاری کے بارے میں کیا خیال ہے۔؟“

“میں تو آج ہی آیا ہوں۔کیا کہہ سکتا ہوں۔“

“کیا یہ میونسپل والے نالائق نہیں ہوتے؟کوڑے کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں۔“

“ہاں اکثر شہروں میں تو نالائق ہی ہوتے ہیں۔کوڑا نہ اٹھانے کی شکایتیں عام ہیں۔“

“آپ کا کیا خیال ہے۔یہاں چونگی والے لوگوں سے رشوت نہیں لیتے۔؟“

’’مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے۔“

“آپ کا خیال کیا ہے؟“

“ بہت جگہ لیتے ہیں۔ہو سکتا ہے یہاں بھی لیتے ہوں۔آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔“

وہ یہ محاورہ سن کر بہت خوش ہوا اور فورا نوٹ بک میں اسے چڑھایا اور بولا۔

“آپ کی باتیں بہت دلچسپ ہیں۔عام طور پر تو تقریریں کرنے والے خصوصا سائنس پر بولنے والے بڑے بور ہوتے ہیں۔بلکہ کوڑھ مغز ۔اچھا تو خداحافظ۔ہاں ایک سوال اور ہے۔یہ جو نیا ریلوے کا پل بنا ہے۔ا س میں گول مال ہوا ہے۔سنا ہے سیمنٹ بہت تھوڑا ڈالا ہے؟“

میں نے کہا۔“آپ بہتر جانتے ہیں۔“

میں نے عرض کیا،’’بہت جگہ ایسا ہو رہا ہے،ٹھیکیدار اور افسر ملی بھگت کرتے ہیں۔“

اس نے خوش خوش سلام کیا اور چلتا بنا۔

اگلے روز میری روانگی تھی۔ریلوے اسٹیشن سے میں نے اخبار خریدا اور کھولا تو سامنے ہی بڑی سی سرخی نظر آئی۔

“چونگی اور ریلوے پل کے گھپلے کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔“

“گڑ منڈی کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے۔“

مشہور سائسندان پروفیسر مولا بخش کی رائے۔

آج وزیر آباد کے سٹی ہال میں مشہور سائنسدان پروفیسر مولا بخش نے ریڈیو کے موضوع پر تقریر کی اور بتایا کہ ریڈیو کی کیسے حفاظت کرنی چایئے اور کیسے اس کے سیل بدلتے رہنا چاہیئں۔تاکہ فتوحات حاصل ہوں۔پرفیسر مولا بخش نے وزیرآباد کی خوبصورتی کی تعریف کی لیکن چھری قینچیوں کے بارے میں تبصرہ کرنے سے معذوری ظاہر کی۔پروفیسر موصوف نے نئے مذبح خانے کو بھی سراہا لیکن کمیٹی کی مذمت کی جو کوڑانہیں اٹھاتی ۔انہوں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ وزیر آباد کے چونگی والے رشوت لیتے ہیں اور ریلوے پل میں سیمنٹ کم ڈالا گیا ہے، آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔پروفیسر صاحب نے جو سلطان ہوٹل میں ٹھہرے تھے مطالبہ کیا کہ شہر سے گڑ کی منڈی کو فورا ہٹایا جائے ورنہ۔۔۔۔۔“

اس سے آگے میں نہ پڑھ سکا۔اخبار میرے ہاتھ سے گر گیا۔

تازہ ترین