’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
تو بات بن جائے،ہاں بات بن جائے ‘‘
یہ وہ گانا ہے جو آج بھی زبان زد عام ہے۔یہ گانا ایسی سحرانگیز شخصیت نازیہ حسن نے گایا جن کوپاپ موسیقی کی ملکہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ نازیہ حسن جونا صرف پاکستان اور انڈیابلکہ ان ممالک میں بھی پسند کی جاتی تھیں، جہاں لوگ اردو نہیں جانتے تھے لیکن نازیہ کی آواز کا جادو انہیں جھومنے پر مجبور کر دیتا تھا۔نازیہ حسن انتہائی خوبصورت اور پراسرار آواز کی ملکہ تھیں۔ ان کے مداح اور ناقدین یہی فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ خود زیادہ حسین تھیں یا ان کی آواز زیادہ خوبصورت تھی۔ ان کی شخصیت میں پراسراریت زیادہ تھی یا آواز میں؟
ایک فنکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بے حد انسان دوست بھی تھیں اور انسانی بھلائی کے کاموں میں بھی شرکت کرتی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی سے ہونے والی ساری آمدنی کراچی کی پسماندہ بستیوں میں بسنے والے بچوں، محروم نوجوانوں اور غریب خواتین کی بہبود کے پروگراموں پر خرچ کرتی رہیں۔
نازیہ حسن ،ایک نام، جو سنتے ہی دل لہک لہک کر گانے لگتا ہے ’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘‘۔
نازیہ حسن کے بارے میں ایک فقرے میں یہی کہا جا سکتا ہےکہ ’’وہ آئی، اس نے دیکھا اور فتح کر لیا‘‘ ۔دنیا میں ایسی عجوبہ روزگار شخصیت بہت کم ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک نازیہ حسن بھی تھیں۔ جنہیں پاکستان میں پاپ میوز ک کی بے تاج ملکہ کہا جا سکتا ہے۔ نازیہ کا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ایسا البم تھا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔
نازیہ حسن3اپریل1965 کوکراچی میں پیدا ہوئیں اور لندن میں پروان چڑھیں۔ لندن کی رچرڈ امریکن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن اور اکنامکس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ان کا پیشہ وارانہ کیریئر15 سال کی عمر میں شروع ہوا جب انہوںنے 1980میں بھارتی فلم’’ قربانی ‘‘ کانغمہ ’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے‘‘ گایا ۔ اس نغمے نے بھارت میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی اوراس نغمے سے ایک ہی رات میں نازیہ کو مقبولیت حاصل ہو گئی۔1981 میں نازیہ نے اس نغمے کے لیے فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ نازیہ حسن کا پہلا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ 1981ء میں ریلیز ہوا، اس البم نے 14 ممالک میں مقبولیت حاصل کی۔ نازیہ اپنے بھائی زوہیب کے ساتھ مل کر گاتی تھیں، زوہیب اور نازیہ کی جوڑی گائیکی کی دنیا میں بہت مقبول ہوئی۔ ان کا دوسرا البم ’’سٹار/ بوم بوم ‘‘ 1982 میں ریلیز ہوا۔تیسرا البم ’’ینگ ترنگ‘‘ 1984میں ریلیز ہوا۔ یہ پاکستان میں پہلا البم تھا جس میں میوزک ویڈیوز پیش کی گئیں اور اسے ڈیوڈ اور کیتھے روز نے لندن میں بنایا تھا۔ اس البم کو ایشیاء میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
’’ آنکھیں ملانے والے‘‘ اس البم کا مقبول نغمہ تھا۔ ینگ ترنگ کے ریلیز ہونے کے بعد نازیہ نے بالی وڈ فلموں میں پلے بیک گلوکار کے طور پر گانا شروع کر دیا۔ ان کا چوتھا البم ’’ہاٹ لائن‘‘ 1987 میں ریلیز ہوا۔ 1988 میں نازیہ اور اس کا بھائی زوہیب میوزک ڈائریکٹر سہیل رعنا کے ٹیلی ویژن پروگرام ’’سنگ سنگ‘‘ میں نمودار ہوئے۔ اسی سال نازیہ اور زوہیب نے اولین شو ’’میوزک 89 ‘‘ کی میزبانی کی، شو کے پروڈیوسر شعیب منصور تھے اور یہ پاکستان کے ٹیلی ویژن پر چلنے والا سب سے پہلا پاپ میوزک سٹیج شو تھا۔ نازیہ نے 1989میں شو ’’ دھنک‘‘ میں بھی میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔
1991 میں نازیہ کا پانچواں البم ’’کیمرہ کیمرہ‘‘ زوہیب حسن کے ساتھ ریلیز ہوا۔ یہ البم پہلے ریلیز ہونے والے البمز کی طرح کامیاب نہ ہو سکا۔ اس البم کے بعد نازیہ نے موسیقی چھوڑ دی اور اپنی ذاتی زندگی میں مصروف ہو گئیں۔اردو نغموں کے علاوہ نازیہ حسن نے پنجابی گانے بھی گائے۔ ان کا گایا ہوا پنجابی گانا
ٹالی دے تھلے بیہہ کے
ماہیا وے ماہیا وے
آکرئیے پیار دیاں گلاں
تو میرا درد ونڈاویں
میں تیرادرد ونڈاواں
آ کرئیے پیار دیاں گلاں
بہت مقبول ہوا۔
نازیہ حسن نے 1991میں نیو یارک میں اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرمیں سیاسی اور سلامتی کونسل کے امور کے سیکشن میں شمولیت اختیار کی اور 2 سال تک یہاں کام کیا۔ انہوں نے اپنی سماجی اور تعلیمی کامیابیوں کی وجہ سے کولمبیا یونیورسٹی کے لیڈر شپ پروگرام میں سکالر شپ بھی حاصل کی تھی۔نازیہ اس وقت وہ آفر قبول نہیں کر سکی کیونکہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو چکی تھیں۔نازیہ نے کئی مقبول کمپنیوں کے لئے اشتہارات میں بھی کام کیا۔
انہوں نے سماجی وجوہات کو فروغ دینے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔موسیقی سے حاصل کی گئی زیادہ تر رقم لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیتی تھیں۔ خاص طور پر کراچی کے غریب علاقوں میں رہنے والے بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی مدد کیا کرتی تھیں۔ وہ خواتین کی آواز کے طور پر اور پاکستان کے نیشنل یوتھ کونسل کے طور پر تنظیموں کی ایک فعال رکن بن گئیں۔نازیہ نے لندن میں اپنی تعلیم مکمل کر کے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر سلامتی کونسل میں کام کیا۔ انہوں نے بھارت میں بھی مختلف سماجی تنظیموں کی حمایت کی اور ان کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے میں مدد کی۔
نازیہ نے 30 مارچ 1995کو اشتیاق بیگ سے شادی کی لیکن وفات سے کچھ دن قبل ہی ان کو طلاق ہو گئی تھی۔حیرت اور دْکھ کی بات یہ ہے کہ جس فنکارہ کے فن کی آواز کی دنیا میں دھوم تھی، اس عظیم گلوکارہ کی ازدواجی زندگی تباہی سے دوچار تھی۔ اشتیاق بیگ کے ساتھ ان کا نباہ نہ ہو سکا تھا۔ شاید یہی دکھ اس عظیم گلوکارہ کو اندر ہی اندر سے گھن کی طرح چاٹ رہا تھا جو وہ کینسر میں مبتلا ہوئیں۔ یہ کوئی مرنے کی عمر تو نہ تھی۔ ابھی تو انہوں نے شہرت کی مزید کئی بلندیوں کو چھونا تھا لیکن شاید کاتب تقدیر کو یہی منظور تھا۔
وہ13 اگست 2000 میں 35 سال کی عمر میں پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث لندن میں وفات پا گئیں۔ ان کی عظیم کامیابیوں اور شراکت کے لئے حکومت پاکستان نے ان کو ’’پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘‘ پیش کیا۔ یہ ایوارڈ23 مارچ 2002 میں ان کی والدہ کے حوالے کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں ’’ ڈبل پلاٹینم‘‘، ’’پلاٹینم‘‘ اور ’’ گولڈن ڈسک ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تھا۔
آج نازیہ حسن ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن پاکستان میں میوزک کی تاریخ جب تک زندہ رہے گی، ان کا نام لیا جاتا رہے گا۔وہ پاپ میوزک کی ملکہ کے طور پر جانی جاتی رہیں گی۔
نازیہ حسن کی ناگہانی موت کے بعد زوہیب حسن نے موسیقی میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اور 2003 میں ان کے نغمے ’’خوبصورت‘‘ نے شہرت حاصل کی جبکہ 2006 میں ان کا آخری سولو البم ’’قسمت‘‘ کچھ خاص شہرت حاصل نہ کرسکا۔ پاپ موسیقی پسند کرنے والوں کیلئے خوشخبری ہے کہ زوہیب حسن بہت جلد اپنے نئے میوزک البم ’’سگنیچر‘‘ کے ساتھ10 سال بعد دوبارہ گلوکاری کے میدان قدم رکھ رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق زوہیب 21 جولائی کو اپنا نیا البم ریلیز کریں گے۔زوہیب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے نئے البم کے ذریعے اپنی بہن نازیہ حسن کوٹریبیوٹ پیش کیا ہے اور امید ہے کہ یہ شائقین کو ضرور پسند آئے گا۔ انہوں نے البم میں شامل گانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو سارے گانے ہی بہت اچھے ہیں لیکن ایک گانا ’’سنوسنو‘‘ موسیقی کے دلدادہ افراد کو سب سے زیادہ پسند آئے گا۔