• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی معاشی صورت حال اور ترسیلات زر

ترقی پذیر ملکوں کی بات کی جائے، تو بیرون ملک مقیم افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کا اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ بھارت، ترسیلات زر وصول کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سمندر پا رمقیم بھارتی ہر سال 70ارب ڈالر کے لگ بھگ رقوم واپس بھارت بھیجتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر چین ہے، جہاں ترسیلات زر کی سالانہ مالیت 60ارب ڈالر سے زائد ہے۔ پاکستان کی معیشت میں بھی ترسیلات زر کا بڑا اہم کردار ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں مالی سال کے ابتدائی 9ماہ (جولائی تا مارچ 2018) میں14ارب60کروڑ64لاکھ 10 ہزار ڈالر وطن بھجوائےہیں، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 14ارب 10کروڑ 50لاکھ 30ہزار ڈالر سے 3.56 فیصد زیادہ ہیں۔ مارچ 2018 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی مالیت1ارب 77کروڑ 27لاکھ 70 ہزار ڈالر رہی جو فروری 2018 کی 1ارب45کروڑ1لاکھ70ہزار ڈالر کی ترسیلات زر کے مقابلے میں22.24فیصد اور مارچ 2017 میں آنے والی 1ارب 69کروڑ 44لاکھ 90 ہزار ڈالر کی رقم سے 4.62 فیصدزیادہ ہیں۔

ترسیلات زر میں اضافہ، حکومتی اقدامات

پاکستان میں ترسیلات زر کو بڑھانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت سمندرپار پاکستانی اور وزارت خزانہ نے پاکستان ریمی ٹینس انیشیٹو(PRI)کے نام سے ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا ہے۔ یہ ادارہ ترسیلات زر کو بڑھانے کے لئے تمام ضروری اقدامات اور اعمال انجام دینے کے لئے بنایا گیاہے۔ اس سرگرمی کے بنیادی مقا صد میں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا، ترسیل زر کو با سہولت، سستا، آسان اور مؤثر بنانا وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان کے معاشی چیلنجز او رترسیلات زر کا کردار

کچھ سوالات بظاہر جتنے سادہ اور آسان ہوتے ہیں، ان کے جواب اتنے ہی پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہے ؟ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ۔ اس موضوع پر سوچتے ہوئے یہ مشہور مقولہ یاد آجاتا ہے۔ کسی رجائیت پسند سے پوچھیں تو وہ اگر مگر کے لوازمات کے ساتھ تان امید پر توڑے گا، ہاں اگر کسی یاسیت پسند سے پوچھ بیٹھیں تو وہ اگر مگر کے تکلف کے بغیر آپ کو بتانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائے گا کہ صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ ہے۔

ہمیں خواہ مخواہ کی رجائیت سے لگائو ہے نہ نِری مایوسی سے دل بستگی ہے، ہمیں حقیقت کے دامن سے تعلق ہی میں عافیت سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہے ؟آج کی معیشت کا ایک محتاط جائزہ لیں تو کچھ رجحانات مثبت ہیں اور کچھ منفی سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثبت اشاریوں میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ نو سال کے بعد پہلی بار گزشتہ سال شرح نمو پانچ فی صد سالانہ سے زائد رہی۔ رواں مالی سال میں ہدف چھ فی صد سے زائد رکھا گیا ہے لیکن گئے گزرے حالات میں بھی آئی ایم یف کے ماہرین تک اس سال کی شرح نمو کا تخمینہ گزشتہ سال سے زائد لگا رہے ہیں۔ افراطِ زر کی شرح کنٹرول میں رہنے کی توقع ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی گزشتہ سال کی نسبت بہتری ہے، جو توقع سے کم ہے لیکن مثبت سمت میں ضرور ہے۔ مالیاتی خسارہ 2013میں جی ڈی پی کا 8.8فی صد تھا جو گزشتہ سال کم ہو کر 4.6رہا۔

معیشت کا مجموعی حجم تین سو ارب ڈالر کے لگ بھگ پہنچ گیا ہے، جو سال 2000میں 180ارب ڈالر تھا۔ قوت خرید کے پیمانے یعنی

Purchasing Power Parity پر دیکھیں تو معیشت کا حجم ایک ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ فی کس آمدنی 1629 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب جو 2013میں گر کر 8.7فی صدہو گیا تھا، سال 2016-17 میں بڑھ کر 10.7فی صدہو گیا ہے۔

معیشت کے نمایاں منفی اور پریشان کن رجحانات کی فہرست بھی قابلِ غور ہے۔ سال 2013میں پاکستان کی کل برآمدات چوبیس ارب ڈالر تھیں جو سال 2016-17میں کم ہو کر بیس ارب ڈالر تک رہ گئیں۔ اس دوران میں درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال ریکارڈ درآمدات ہوئیں اور یوں یہ حجم باون ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ برآمدات اور درآمدات کا تباہ کن تفاوت جسے تجارتی خسارہ کہا جاتا ہے، بڑھ کر بتیس ارب ڈالر ہو گیا یعنی تجارتی خسارہ کل برآمدات سے بھی زیادہ رہا۔ اس خطرناک رجحان نے زرِمبادلہ کے ذخائرپر مستقل دبائو رکھا۔

ایسے میں موجودہ حالات میں پاکستانی معیشت کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ بتیس ارب ڈالر خسارے کوحکومت پاکستان 21-22ارب ڈالر ترسیلات زر کے ذریعے بیٹھے بٹھائے ختم کردیتی ہے۔ اب مسئلہ رہا باقی 11-12ارب ڈالر تجارتی خسارے کا۔ حکومت ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹر کو مناسب مراعات دے کر اس خسارے کو ایک سال میں سرپلس میں بدل سکتی ہے۔

تازہ ترین