• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پڑوسیوں کے حقوق (آخری قسط)

ضروریات کا خیال رکھنا: اللہ کے رسولؐ نے فرمایا۔ ’’وہ شخص مومن نہیں، جو خود تو آسودہ ہو، مگر اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘ (طبرانی) عموماً یہ بات دیکھی گئی ہے کہ پڑوس اور رشتے داروں میں بھی تحفے تحائف اپنے جیسے صاحبِ حیثیت لوگوں ہی کو دیئے جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا حدیث میں نبی آخرالزماںؐ نے بڑے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا، جس کو اپنے ہم سائے کا خیال نہ ہو، لہٰذا یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ان پڑوسیوں کا خیال رکھیں، جو مالی اعتبار سے ہم سے کم تر ہیں اور جن لوگوں کو ہماری ضرورت ہے، کہے بغیر ان کی معاشی ضروریات پوری کرنے میں ذرا بھی تامّل نہیں برتناچاہیے۔ 

اچھے مسلمان اپنے غریب ہم سایوں، رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرکے دلی اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ یہی آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ ہمارے قرب و جوار میں اور عزیز رشتے داروں میں ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے کہ جن کے گھروں میں بھوک، افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنی سفید پوشی کی بناء پر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہمّت نہیں کرتے۔

ایسے لوگوں کی عزّتِ نفس مجروح کیے بغیر خاموشی سے اس طرح مدد کی جانی چاہیے کہ دوسرے ہاتھ کوبھی اس کا علم نہ ہو۔ ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضور اکرمﷺ سے سنا کہ ’’قیامت کے دن کتنے ہی پڑوسی ایسے ہوں گے، جنہوں نے اپنے اپنے پڑوسیوں کو پکڑ رکھا ہوگا اور اللہ کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ’’اے رب کریم! اس نے مجھے چھوڑ کر اپنا دروازہ بند کرلیا تھا اور مجھے اپنے احسان اور حسنِ سلوک سے محروم رکھا تھا۔‘‘ (درّمنثور) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ’’کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں ’’اگر تمہارا ہم سایا تنور میں روٹی پکانا چاہے یا تمہارے پاس ایک دن یا نصف دن کے لیے اپنا سامان رکھنا چاہے، تو اسے منع نہ کرو۔‘‘ ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔‘‘

اذیّت دینے کی ممانعت:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! کون…؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جس کا ہم سایا اس کی ایذاء رسانیوں سے مامون نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت امام بخاریؒ نے اپنی حدیث کی مشہور کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ’’میرے پڑوس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں وعید سناتے ہوئے رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’تین آدمیوں کے اعمال ضائع ہیں۔ ایک وہ ،جس کے ساتھ احسان کا برتائو کرو، تو شکریہ ادا نہیں کرتا اور کوئی غلطی سرزد ہوجائے، تو معاف نہیں کرتا اور وہ پڑوسی، جو اپنے پڑوس میں کوئی خیر دیکھے، تو خاموش رہے اور اگر کوئی برائی دیکھے، تو اس کا چرچا کرے اور وہ بیوی، جو شوہر کی موجودگی میں اسے تکلیف پہنچائے اور اس کی غیرموجودگی میں خیانت کرے۔‘‘ (طبرانی) اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی کریمؐ نے فرمایا۔ 

’’قیامت کے دن غریب ہم سایا اپنے امیر ہم سائے سے الجھے گا اور اللہ سے فریاد کرے گا۔ ’’اے پروردگار! اس سے مواخذہ کیا جائے کہ یہ میرے ساتھ نیکی سے کیوں گریز کرتا رہا اور اس کے گھر کا دروازہ مجھ پر ہمیشہ کے لیے کیوں بند رہا؟‘‘ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’قیامت کے دن سب سے پہلا مقدمہ دو پڑوسیوں کا پیش ہوگا۔‘‘ پڑوسیوں، ہم سایوں کو اذیت دینا، انہیں پریشان کرنا، ڈرانا، دھمکانا، ان کی بے عزّتی و بے توقیری کرنا، انہیں کم تر سمجھنا، ان کا مذاق اڑانا، انہیں گالیاں دینا اور ان سے نفرت کرنا اسلام میں ناجائز و حرام ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’جس نے پڑوسی کو ایذاء پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے خدا کو تکلیف دی اور جس نے پڑوسی سے لڑائی کی، اس نے مجھ سے لڑائی کی اور جس نے مجھ سے لڑائی کی، اس نے رب سے لڑائی کی۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ’’جو شخص قیامت پر یقین رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔‘‘ (صحیح بخاری) بلاشبہ، ایک شری اور فسادی پڑوسی پورے محلّے کی بدنامی کا باعث ہوتا ہے اور اس کے شر سے پورا محلّہ پریشان رہتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے ہم سائے کی شکایت کی، تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’صبر کر۔‘‘ وہ شخص پھر دو یا تین مرتبہ آیا، تو حضورؐ نے فرمایا۔ ’’جائو اور اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈال دو۔‘‘ چناں چہ اس نے ایسا ہی کیا اور سامان راستے میں ڈال دیا۔ لوگوں نے اس سے اس کا سبب پوچھا، تو اس نے بتایا کہ ’’میرے ہم سائے نے مجھے تنگ کررکھا ہے۔‘‘ یہ سن کر لوگ کہنے لگے۔ ’’اے اللہ! اس پر لعنت کر، اے اللہ! اس کو رسوا کر۔‘‘ یہ بات جب اس کے ہم سائے تک پہنچی، تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہا۔ ’’اب تم اپنے گھر لوٹ آئو۔ خدا کی قسم میں اب کبھی تکلیف نہ دوں گا۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا۔ ’’یارسول اللہؐ! فلاں عورت بہت زیادہ نمازیں پڑھتی ہے، راتوں کو عبادت کرتی ہے، روزے رکھتی ہے، لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان درازی سے تکلیف پہنچاتی ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’وہ جہنّمی ہے۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’ایک دوسری عورت ہے، جو زیادہ روزے رکھتی ہے، نہ زیادہ عبادت کرتی ہے، صرف فرض ادا کرتی ہے، لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’وہ جنّتی ہے۔‘‘ (مسندِ احمد) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو شخص اپنے پڑوسی کے گھر میں جھانکے، پھر اپنے مسلمان بھائی کے ستر کی طرف دیکھے یا اس کی بیوی کے بالوں کو دیکھے یا اس کے جسم کے کسی بھی حصّے کو دیکھے، تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ اس جھانکنے والے کو جہنّم میں داخل کردے۔‘‘ (طبرانی) حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’وہ شخص جنّت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کے شَر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی دعائوں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی ’’اے اللہ! بلاشبہ، میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، برے پڑوسی سے، جو مستقل جائے قیام کے ساتھ رہتا ہو، کیوں کہ جنگل کا ساتھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔‘‘ (الادب المفرد) مستقل جائے قیام سے مراد مستقل رہائش ہے اور برے پڑوسی کے ساتھ زندگی بھر رہنا، نہایت تکلیف دہ امر ہے۔ اللہ ہمیں برے پڑوسیوں کی صحبت سے محفوظ رکھے۔

پڑوسی خواتین کا احترام، عفت و عصمت کی حفاظت: نبی کریمؐ نے پڑوس کی خواتین کی عزّت و ناموس کی حفاظت کو فرض قرار دیا ہے۔ حضرت سعید بن المسیبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’ہم سائے کی عزّت و حرمت، ہم سائے کے لیے ماں کی حرمت کی طرح ہے۔ نیک اور باشعور مسلمان پر فرض ہے کہ وہ پڑوس اور ساتھ کام کرنے والی تمام خواتین کا اس طرح احترام کریں، جس طرح اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا کرتے ہیں۔ 

ایک نیک مسلمان نامحرم خواتین سے بات کرتے وقت اپنی نظریں نیچی رکھتا ہے۔ اسی طرح ساتھ کام کرنے والی خواتین کی عزّت و ناموس کی حفاظت، اوّلین فرائض میں شامل ہےکہ اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے عزّت و تکریم اور وقار کے ساتھ سماجی، معاشرتی میدانوں میں فعال کردا ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق چنداحادیثِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم

٭اللہ کے یہاں بہترین وہ ہیں، جو اپنے ہم سائے کے لیے بہترین ہیں۔ (ترمذی)٭ہم سایوں کی خبرگیری کرو، ان کی حاجات پوری کرو اور انہیں تحائف دیا کرو۔ (صحیح مسلم)٭جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ (صحیح بخاری)٭سچّا مسلمان اپنے پڑوسی کے ساتھ نرمی کا برتائو کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)٭’’اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں۔ جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری)٭جو شخص اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین رکھتا ہو، اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ (صحیح بخاری)٭حضورؐ نے فرمایا’’ حضرت جبرائیل نے مجھے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی اس قدر تاکید کی کہ مجھے یہ خیال گزرا کہ شاید اسے وارث ہی ٹھہرادیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)٭ہم سایوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ (سیرت النبیؐ)٭نیک پڑوسی بڑی عظیم نعمت ہے۔ (اصلاحی خطبات)٭برے پڑوسی سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ (نسائی)٭غریب پڑوسی کی مدد نہ کرنے والا جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ (طبرانی)٭وہ شخص جنّت میں داخل نہ ہوگا، جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ (صحیح مسلم)٭کسی مسلمان پر روا نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ (صحیح بخاری)٭جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا محبوب بنے، تو وہ اپنے پڑوسی سے حسنِ سلوک کرے۔ (البیہقی) ٭پڑوسی کی ایذاء پر صبر کرنے والوں کی بڑی فضیلت ہے۔ (حضرت ابوذرؓ)٭پڑوسیوں کو دین سکھانا اور ان سے دین سیکھنا، باعثِ ثواب ہے۔ (معارف الحدیث)٭وہ شخص مومن نہیں، جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا سوئے۔ (طبرانی)٭آپس میں ہدیہ لیا اور دیا کرو، کیوں کہ یہ دل کے کینے کو دور کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ)٭جس ہم سائے کا دروازہ قریب ہو، ہدیہ دینے میں اس کو ترجیح دینی چاہیے۔ (صحیح بخاری)٭رسول اللہؐ نے حجۃالوداع کے موقعے پر فرمایا۔ ’’لوگو! میں تمہیں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیّت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری)٭تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ (صحیح مسلم)٭برا پڑوسی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ (الادب المفرد)٭ہم سائے کی عزّت و حرمت ہم سائے کے لیے ماں کی حرمت کی طرح ہے۔ (حضرت سعید بن المسیبؓ)٭پڑوس کی خواتین پر بری نظر ڈالنے والا جہنّم کا حق دار ہے۔ (طبرانی)٭ہم سائے کے تحفے کو حقیر نہ جانو، چاہے وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح بخاری)٭پڑوسی کے گھر جھانکنے والا جہنّم میں داخل کیا جائے گا۔ (طبرانی)٭نیک پڑوسی سعادت مندی کی نشانی ہے۔ (مجمع الزوائد)٭اپنے پڑوسی کو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہنچائو۔ (صحیح مسلم)٭جب تم کوئی شوربے والی چیز پکائو، تو اس میں شوربا زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (صحیح مسلم)٭کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع نہ کرے۔ (صحیح بخاری)٭جب تم میں سے کوئی اپنی جائداد بیچنے کا ارادہ کرے، تو بیچنے سے پہلے اپنے پڑوسی سے اجازت لے۔ (ابنِ ماجہ)٭وہ شخص جنّت کا مستحق ہے، جو اپنے پڑوس کی بداخلاقیوں، اذیّتوں اور لغزشوں پر صبر کرتا ہے۔ (طبرانی)٭اللہ ایسے شخص پر رحم نہیں فرماتا، جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (صحیح بخاری)٭کامل انسان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاء سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری/صحیح مسلم)٭قیامت کے دن کتنے ہی پڑوسی اپنے پڑوسی کو پکڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور، اس کے برے سلوک پر فریاد کریں گے۔ (درّمنثور)

ہم سایوں کے حقوق کے حوالے سے امام غزالیؒ کے اقوال

٭امام غزالیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’احیائے علوم الدّین‘‘ میں ہم سایوں کے حقوق کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔ ’’ہم سائے کو سلام میں پہل کرے۔ اس سے اکتا دینے والی لمبی گفتگو نہ کرے۔ اس کی باربار مزاج پرسی کرے۔ اگر وہ بیمار ہو، تو اس کی تیمارداری کرے۔ مصیبت میں اسے تسلّی دے اور اس کا ساتھ نہ چھوڑے۔ اس کی اندرونی حالت کی تفصیل جاننے کی کوشش نہ کرے، اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہو، تو مبارک باد دے اور اس کی خوشی میں شریک ہو۔ اس کی غلطیوں اور لغزشوں سے درگزر کرے۔ 

اپنی چھت سے اس کے مکان میں نہ جھانکے۔ اپنا پرنالہ اس کے مکان یا صحن کی طرف رکھنے سے پرہیز کرے۔ اس کے مکان کے سامنے کوڑا کرکٹ نہ ڈالے۔ اس کے گھر میں جانے کا راستہ تنگ نہ کرے۔ جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہا ہو، تو اس پر تاک جھانک نہ کرے۔ اگر اس کا کوئی عیب معلوم ہو، تو اس کو چھپائے اوربہ وقتِ ضرورت اس کا پورا ساتھ دے۔ 

اس کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کا پورا خیال رکھے۔ اس کے خلاف غیبت، چغلی نہ سنے۔ اس کی نوکرانیوں کی طرف نگاہ نہ اٹھائے۔ اس کے بچّوں سے گفتگو میں نرمی رکھے اور لاڈ و پیار کرے۔ دین و دنیا کی جو بات اسے معلوم نہ ہو، تو اس کی رہنمائی کرے۔‘‘

تازہ ترین
تازہ ترین