وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کی روشنی میں ایک انقلابی اقتصادی اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیا،اس اصلاحاتی پیکیج کے ملک کی اقتصادی صورتحال پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے،ان اقدامات کے نتیجے میں ہمیں اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی، میں امید کرتا ہوں کہ ان اقدامات سے پاکستان کی اقتصادی بڑھوتری میں تیزی آئے گی ، ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق سیاست سے وابستہ شخصیات اور کسی جرائم پیشہ سرگرمی میں ملوث افراد پر نہیں ہو گا
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل
او ای سی ڈی کے سخت قوانین کے نتیجے میں اندرون ملک مقیم پاکستانی باشندوں پر اپنے بیرونی اثاثوں کوقانونی شکل دینے کے لیے دبائو بڑھ گیا تھا اور ایمنسٹی اسکیم نے اس عمل کو آسان بنا دیا،اسکیم کے نتیجے میں ملک میں 3سے10ارب ڈالرز آنے کا امکان ہے، جس سے ادائیگیوں کے توازن پر دبائو کم ہو گا،ٹیکس ریٹس میں کٹوتی کا فیصلہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے اپنا ووٹ بڑھانے کے لیے کیا،اس وقت پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور بڑھتے تجارتی خسارے کا سامنا ہےاور ٹیکس ریٹ میں کمی سے حکومت کی آمدنی میں مزید کمی واقع ہو گی،چوں کہ ایمنسٹی اسکیم کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فوری طور پر نافذ کیا گیا ہے ، چناں چہ ایسا لگتا ہےکہ اپوزیشن جماعتیں عدالتوں کے ذریعے اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کریں گی، نفاذ کے بعد افراطِ زر اور ادائیگیوں میں توازن پر بھی نظر رکھنی ہو گی
مزمل اسلم
حالیہ ایمنسٹی اسکیم ایف پی سی سی آئی کی مجوزہ اسکیم کے پہلے حصے سے، جو براہِ راست ٹیکس پالیسی سے متعلق ہے، مختلف ہے، جب کہ ایف پی سی سی آئی کی جانب سے پیش کیے گئے 2014ء کے شیڈو بجٹ کی تجاویز سے مماثلت رکھتی ہے،اسکیم میں انفرادی طور پر صرف انکم ٹیکس کی شرح میں کٹوتی کی گئی ہے، لیکن صنعتی شعبے کے لیے ٹیکس میں کمی کا اعلان نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کا بوجھ بڑھے گا اور کارپوریٹ کلچر کی حوصلہ شکنی ہو گی، اس وقت ایمنسٹی اسکیم کو متعارف کروانا غیر موزوں ہے اور اسی وجہ سے اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے،اسکیم کے ثمر بار نتائج سامنے نہیں آئیں گے،حکومت کی جانب سے جائیداد کی خریداری کا فیصلہ کسی فرد کو ذاتی جائیداد رکھنے کی آزادی اور جائیداد کی خریداری اور فروخت کے خلاف ہے،اگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو تحفظ دیا گیا،تو ایف اے ٹی ایف پاکستان کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے
ڈاکٹر ایوب مہر
پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ کے پیشِ نظر تو اثاثے ظاہر کرنے کے لیے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں پر بالترتیب 3فی صد اور 5فی صد ٹیکس ریٹ بہت کم ہے،اسکیم میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کسی فرد کی جانب سے اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اس کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی، سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی میں رکاوٹ کا کوئی طریقہ متعارف نہیں کروایا گیا، لہٰذا، قیمتی غیر ملکی زرِ مبادلہ کی منتقلی برائے نام غیر ملکی سرمایہ کاری کی شکل میں جاری رہے گی، جو اس اسکیم کی روح کے خلاف ہے،انکم ٹیکس ریٹس کم کرنے سے آمدنی میں تقریباً 90ارب روپے کی کمی واقع ہو گی اور کم و بیش دو لاکھ انکم ٹیکس ریٹرنز کم ہو جائیں گے، حکومت کی جانب سے جائیداد خریدنے کی مہم جوئی کے منفی نتائج برآمد ہوں گے، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے اسکیم پرسوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور آرڈیننس کی خفیہ شقوں کو چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے، تخمینے کے مطابق، 200ارب ڈالرز مالیت کے غیر اعلانیہ اثاثوں میں سے صرف 2ارب ہی وطن واپس آئیں گے، صدارتی آرڈیننس میں واضح غلطیاں پائی جاتی ہیں، جن کی تصحیح کے لیے حکومت کی جانب سے وضاحت ضروری ہے
اشفاق تولہ
رواں ماہ کے آغاز میں وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی نے اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی باشندوں کے لیے کالا دھن سفید کرنے کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا۔ اس اسکیم کے تحت جن پاکستانی شہریوں کے اثاثے پاکستان سے باہر ہیں، وہ2فی صد جرمانہ ادا کر کے ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھا سکیں گے، جب کہ اندرونِ مُلک موجود اثاثے ظاہر کرنے پر 5فی صد ادائیگی کر کے انہیں وائٹ کروایا جا سکے گا، خفیہ جائیداد قانونی بنانے کے لیے ایک فی صد کی ادائیگی کرنا ہو گی، سیاستدان اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور یہ30جون 2018ء تک موثر رہے گی۔بعدازاں، اس ایمنسٹی اسکیم کو قانونی تحفظ دینے کے لیے صدرِ مملکت، سید ممنون حسین نے انکم ٹیکس ریٹس اور پراپرٹی ٹیکسز میں کمی کے ساتھ ملکی و غیر ملکی اثاثوں کی خاطر ایمنسٹی اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے 4آرڈیننس جاری کیے ۔
حکومت کے مطابق،اس ا سکیم کا مقصد یہ ہےکہ شہری رضا کارانہ طور پر اپنے اثاثے ظاہر کریں اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو۔ نیز، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر ہی قومی ٹیکس نمبر تصور کیا جائے گا۔اس موقع پر وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ12لاکھ روپے سالانہ آمدن پر کوئی انکم ٹیکس نہیں ہوگا،جب کہ سالانہ 12سے 24لاکھ روپے آمدن پر 5فی صد، 24سے 48لاکھ روپے پر 10فی صد اور 48لاکھ اور اس سے زاید آمدن پر 15فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
ایک لاکھ ڈالرز سالانہ کی ترسیلِ زر پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔ ایک لاکھ ڈالرز سالانہ سے زاید کی ترسیلاتِ زر بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گی۔ تاہم، اپوزیشن جماعتیں اور معاشی ماہرین ایمنسٹی اسکیم اور اس کے پارلیمنٹ کے بہ جائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نفاذ پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں اور گزشتہ دنوں حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ کے اجلاس سے واک آئوٹ بھی کیا اور سپریم کورٹ نے بھی ایمنسٹی اسکیم کو دیکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا کہ جب عالمی تنظیم، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈال دیا ہے، کیوں کہ پاکستان پر یہ الزام ہے کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ کو روکنے کے قوانین کمزور ہیں، جن کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کو مالی معاونت کی فراہمی (فنانسنگ) آسان ہوتی ہے ۔ ٹاسک فورس کا جون میں دوبارہ اجلاس ہو رہا ہے اور جون تک یہ دیکھا جائے گا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے اور کس طرح کی قانون سازی کی۔
نئی ایمنسٹی اسکیم سے متعلق سابق وفاقی وزیر، حفیظ اے پاشا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر، شاہد کاردار کہتے ہیں کہ اسکیم پر سب سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیندہ مالی سال کے بجٹ کے حصے کے طور پر فنانس بل میں ٹیکس اصلاحات شامل کرنے کے بہ جائے ان کے اطلاق کے لیے صدارتی آرڈیننسز کا راستہ کیوں چنا گیا، کیوں کہ یہ آرڈیننسز اپنی نوعیت کے اعتبار سے عارضی ہوتے ہیں اور بے یقینی پیدا ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
پھر ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی اثاثہ جات ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا آرڈیننس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو ناگوار گزر سکتا ہے اور اس سے ہمارے گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے اقدمات کیے جانے کا موقف کمزور ہو گا اور اس کے نتیجے میں ہمیں انٹرنیشنل کیپیٹل مارکیٹ اور کثیر القومی تجارتی بینکوں سے قرضے لینے میں بھی بہت زیادہ مشکلات ہوں گی۔ پھر او ای سی ڈی (آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ) کنونشن کے تناظر میں اعلان کردہ پیکیج کے متوقع نتائج بھی برآمد ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
معاشی ماہرین کے مطابق، اسکیم میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ ایف بی آر ایک مالی سال میں کسی فرد کی جانب سے ایک لاکھ ڈالرز سے زاید کی ترسیلاتِ زر موصول کیے جانے پر اس سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے، تو اس کے سبب ترسیلاتِ زر کا ایک بڑا حصہ بینکنگ سسٹم سے نکل کر زرِمبادلہ کی غیر رسمی مارکیٹ جیسا کہ حوالہ/ہنڈی میں جا سکتا ہے اور یوں ہمارے تجارتی خسارے میں اضافے کا خدشہ ہے، جسے ہم اس وقت برداشت نہیں کر سکتے۔ماہرینِ معیشت نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ اگر صرف اثاثوں کو ظاہر کرنا اور ان کو وطن واپس لانا مقصود ہے، تو پھر اس اسکیم سے ادائیگیوں کے توازن میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اسکیم میںیہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ یہ منی لانڈرنگ، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل کی گئی رقوم اور اثاثوں کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔
تاہم، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حکومت غیر قانونی ذرایع سے حاصل کی گئی رقوم اور جائیدادوں کا پتا کیسے لگائے گی، کیوں کہ اگر حکومت پہلے ہی سے یہ جانتی ہے کہ کن افراد یا اداروں نے غیر قانونی ذرایع سے آمدنی حاصل کی ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان عناصر کے خلاف پہلے قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اگر اثاثے ظاہر کرنے سے پہلے یا بعد میں ان کی چھان بین کی جاتی ہے، تو پھر وہ افراد اپنا پیسہ ملک میں کیوں منتقل کریں گے اور اپنے غیر ملکی اثاثوں کو قانونی بنانے کے لیے ان پر ٹیکس کیوں ادا کریں گے؟ ٹیکس نیٹ میں اضافے اور ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھانے کے لیے ٹیکس ریٹس میں بہت زیادہ کمی کی گئی ہے اور ٹیکس سے استثنیٰ کی حد تین گنا بڑھ گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریٹ نصف ہو گیا ہے۔
ایسی صورت میں اگر بہت زیادہ اچھے نتائج حاصل ہوئے، تو آمدنی میں امکانی نقصان کم از کم 80ارب روپے کا ہو گا۔ اگر اسی تجویز کا بھارت سے موازنہ کیا جائے، تو وہاں ٹیکس سے استثنیٰ کی حد ڈھائی لاکھ روپے سالانہ ہے اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریٹ 30فی صد ہے، لیکن اس کے باوجود ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں کی تعداد 2کروڑ 90 لاکھ ہے، جو پاکستان میں ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں سے 25گنا زیادہ ہے۔ لہٰذا، انکم ٹیکس بیس میں اضافے کے لیے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
بصورتِ دیگر ایف بی آر کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہو گا۔معاشی ماہرین کایہ بھی ماننا ہے کہ جائیداد کے ٹیکس سے متعلق تجاویز کو صوبائی حکومتوں کی جانب سے قبول کرنے کی ضرورت ہے اور جائیدادوں کی کیپیٹل ویلیو ٹیکسیشن صوبائی معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ صوابدیدی اختیارات کی نگرانی کی بھی ضرورت ہے، وگرنہ پراپرٹی مارکیٹ میں بہت زیادہ افراتفری پھیل سکتی ہے۔ جائیداد کی اصل قیمت تک پہنچنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ ڈی سی ریٹ کو تواتر سے اپ ڈیٹ کیا جائے۔ اس اسکیم کے نتیجے میں بعض طبقات میں بے چینی بھی پیدا ہو گئی ہے۔
مثال کے طور پر 30فی صد انکم ٹیکس دینے والے افراد یہ دیکھ کر بے چینی کا شکار ہوں گے کہ کالا دھن سفید کرنے والوں کو صرف 5فی صد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ یہ عمل ملک کے وفادار ٹیکس گزاروں کے لیے تکلیف دہ ہو گا، لیکن اگر کالا دھن سفید کرنے کے لیے ٹیکس کی شرح 30فی صد یا کم از کم 15فی صد کر دی جائے، تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ ان تمام عوامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں ’’ ایمنسٹی اسکیم کے اثرات‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں وزیرِ اعظم کے مشیرِ خزانہ، ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور معاشی ماہرین، اشفاق تولہ، مزمل اسلم اور ڈاکٹر ایوب مہر نے اظہار خیال کیا۔ ان کی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل
وفاقی مشیرِ خزانہ
وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کی روشنی میں ایک انقلابی اقتصادی اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیاہے۔ ہماری حکومت نے انکم ٹیکس کے ریٹس میں بہت زیادہ کمی کی۔ اب زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح صرف 15فی صد ہے اور ماہانہ ایک لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
ہم جائیدادوں کی رجسٹریشن کے لیے ایف بی آر ریٹس کو منسوخ کر رہے ہیں اور صوبوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ڈی سی ریٹ سے جان چھڑائیں اور لوگوں کو اپنی مرضی کے ریٹس پر اپنی جائیدادیں رجسٹر کروانے کی اجازت دیں۔ تاہم، اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو اس بات کا حق ہو گا کہ وہ 30جون 2018ء کے بعد رجسٹر ہونے والی کسی بھی جائیداد کی رجسٹریشن کے بعد 6ماہ کے دوران اس جائیداد کو رجسٹر ویلیو سے دگنی سے زاید قیمت پر خرید سکتی ہے۔
وفاقی حکومت مطابقت پیدا کرنے والے فرضی انکم ٹیکس میں صرف ایک فی صد کمی بھی کرے گی اور ہم صوبوں سے بھی یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے پراپرٹی رجسٹریشن ٹیکس میں ایک فی صد کمی کریں۔ اس اصلاحاتی پیکیج کے ملک کی اقتصادی صورتحال پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس پیکیج کا مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا اور یہ ہمارے قائد، میاں محمد نواز شریف کے ویژن کے عین مطابق ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ایک ایمنسٹی اسکیم بھی دی ہے، تاکہ لوگ اپنے وہ اثاثے، جو بیرونِ ملک موجود ہیں، ملک میں واپس لا سکیں یا ماضی میں ظاہر نہ کی گئی دولت کو بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک ظاہر کر سکیں۔
ان اقدامات کے نتیجے میں ہمیں اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان اقدامات سے پاکستان کی اقتصادی بڑھوتری میں تیزی آئے گی۔ تاہم، خیال رہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کا اطلاق سیاست سے وابستہ شخصیات اور کسی جرائم پیشہ سرگرمی میں ملوث افراد پر نہیں ہو گا۔
مزمل اسلم
ماہرِ معیشت
وفاقی حکومت کی جانب سے بیرونِ ملک اور اندرون ملک موجود خفیہ اثاثوں کو ظاہر کرنے کے لیے ایک پانچ نکاتی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اسکیم لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل، او ای سی ڈی کے سخت قوانین کے نتیجے میں اندرون ملک مقیم پاکستانی باشندوں پر اپنے بیرونی اثاثوں کوقانونی شکل دینے کے لیے دبائو بڑھ گیا تھا اور ایمنسٹی اسکیم نے اس عمل کو آسان بنا دیا۔ اس اسکیم کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن پر موجود دبائو کم ہو گا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، اس وقت پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 11.6ارب ڈالرز ہیں اور اس وقت بیرونِ ملک کم و بیش 200سے 400ارب ڈالرز کے اثاثے موجود ہیں اور اگر ان میں سے 50فی صد کو 3سے 5فی صد انکم ٹیکس پر ریگولرائز کروایا جائے، تو ملک میں 3سے10ارب ڈالرز آنے کا امکان ہے۔ تاہم، انکم ٹیکس ریٹس میں کٹوتی کا فیصلہ غیر ملکی اثاثوں رکھنے والے افراد اور درمیانی طبقے کے لیے حوصلہ افزا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ آیندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے کیا ہے۔
یہ اسکیم ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے طویل المدت ہدف اور عوام کے مالی اثاثوں کو پائیدار بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ اگر اس اسکیم کے اثرات پر نظر ڈالی جائے، تو اس سے بازارِ حصص مثبت انداز سے آگے بڑھے گا اور بیرونِ ملک موجود اثاثوں کی ملک میں منتقلی سے ادائیگیوں کے توازن پر موجود دبائو میں کمی واقع ہو گی۔ ٹیکس ریٹ کم ہونے سے مڈل کلاس کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا اور صارفین کی قوتِ خرید میں اضافے سے مختلف شعبوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مثال کے طور پر بینکنگ سیکٹر، آٹو سیکٹر اور سیمنٹ انڈسٹری میں تیزی آئے گی۔
اس سے قبل اس قسم کی ایمنسٹی اسکیم 2016-17ء میں انڈونیشیا میں متعارف کروائی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ کے حجم میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا اور نو ماہ کے عرصے میں زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 10ارب امریکی ڈالرز تک پہنچ گئے۔ اس ایمنسٹی اسکیم کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فوری طور پر نافذ کیا گیا اور ایسا لگتا ہےکہ اپوزیشن جماعتیں عدالتوں کے ذریعے اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کریں گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں اگلے چند ہفتوں میں ملکی معیشت میں تیزی آئے گی۔ تاہم، ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھنے اور عام انتخابات کے قریب آنے کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ مستحکم رہے گی۔
اس وقت پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور بڑھتے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ مزید برآں، ٹیکس ریٹ میں کمی سے حکومت کی آمدنی میں مزید کمی واقع ہو گی۔ البتہ ٹیکس نیٹ میں دائمی اضافے اور غیر سرکاری معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے فیصلے کو خوش آمدید کہنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں ایمنسٹی اسکیم کے نفاذ کے بعد افراطِ زر اور ادائیگیوں میں توازن پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔
ڈاکٹر ایوب مہر
ماہرِمعیشت /اقرا یونی ورسٹی
دسمبر 2016ء میں اس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی ہدایت پر ایف پی سی سی آئی نے ترجیحی بنیادوں پر ایک ایمنسٹی اسکیم تیار کی تھی۔ ایف پی سی سی آئی نے اپنی اسکیم میں یہ مشورہ دیا تھا کہ حکومت کو آمدن میں اضافے کے بہ جائے صنعتوں میں اضافے، سی پیک سے متعلق منصوبوں میں سرمایہ کاری، برآمدات سے جڑی صنعتوں اور تعلیم سے وابستہ مصنوعات میں اضافہ کر کے اپنی معیشت کے فروغ کو مقصد بنانا چاہیے۔
ایف پی سی سی آئی کی مجوزہ ایمنسٹی اسکیم سے متعلق رپورٹس بعدازاں ملک کے معروف اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی شایع ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی کی جانب سے پیش کی گئی حالیہ ایمنسٹی اسکیم ایف پی سی سی آئی کی اسکیم کے پہلے حصے سے، جو براہِ راست ٹیکس پالیسی سے متعلق ہے، مختلف ہے، جب کہ ایف پی سی سی آئی کی جانب سے پیش کیے گئے 2014ء کے شیڈو بجٹ کی تجاویز سے مماثلت رکھتی ہے۔
مثال کے طور پر نیشنل ٹیکس نمبر کے بہ جائے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کا استعمال، انکم ٹیکس ریٹس میں قابلِ ذکر حد تک کمی، کم آمدنی والے طبقات پر بوجھ ڈالنے اور افراطِ زر سے بچنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسز کی بلاواسطہ ٹیکسز میں تبدیلی اور ٹیکس چوروں کی نشاندہی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال۔ ایمنسٹی اسکیم میں بیان کی گئی نئی ٹیکس پالیسی پر نظر دوڑائی جائے، تو اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس جیسے بالواسطہ ٹیکسز کو کم سے کم کیا جائے گا اور منصوبے کے مطابق جی ایس ٹی ریٹس کو بھی کم کیا جائے گا۔
اسکیم میں انفرادی طور پر صرف انکم ٹیکس کی شرح میں کٹوتی کی گئی ہے، لیکن صنعتی شعبے کے لیے ٹیکس میں کمی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کا بوجھ بڑھے گا اور کارپوریٹ کلچر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ اس اسکیم کو 2014ء میں متعارف کروایا جانا چاہیے تھا، جو صحیح وقت تھا۔ اس وقت ایمنسٹی اسکیم کو متعارف کروایا جانا غیر موزوں ہے اور اس کی وجہ سے اس پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اب مئی میں حکومت اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ لہٰذا، بجٹ سے کچھ عرصہ پہلے یہ اسکیم لانے سے ثمر بار نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ حکومت نے اس اسکیم میں ٹیکس مقاصد کے لیے رئیل اسٹیٹ کی ویلیو ایشن کو ختم کر دیا ہے۔
یہ نہ صرف بلڈرز بلکہ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کا بھی مطالبہ تھا، مگر اس کے ساتھ ہی یہ تباہ کن شق بھی اسکیم میں شامل کر دی گئی کہ جائیداد کی قیمت کم ہونے کے شبے میں حکومت جائیداد خرید سکتی ہے اور اس کے بدلے حکومت جائیداد کی اعلانیہ قیمت سے دگنی رقم فراہم کرے گی۔ اس قسم کی مثالیں ہمیں بعض چھوٹے ممالک اور ایک بھارتی ریاست میں نظر آتی ہیں، جہاں سیاحوں کے لیے رئیل اسٹیٹ ہی ایک اہم کاروبار ہے۔
تاہم، عمومی طور پر یہ اصول پوری دنیا میں اطلاق کے قابل نہیں ہے اور یہ کسی فرد کو ذاتی جائیداد رکھنے کی آزادی اور جائیداد کی خریداری اور فروخت کے خلاف ہے۔ مزید برآں، اس میں کئی اگر، مگر بھی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت جائیداد خریدنے کے لیے رقم کہاں سے حاصل کرے گی اور خریدی گئی جائیداد کا کیا مصرف ہو گا؟ کیا اسے دوبارہ فروخت کیا جائے گا؟ کیا اسے نیلام کیا جائے گا؟ یا کیا اسے کرائے پر دے کر آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا؟ پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس سارے عمل کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ ایمنسٹی اسکیمز صرف ٹیکس میں اضافے کے لیے متعارف کروائی جاتی ہیں۔
یعنی اگر کسی فرد نے ماضی میں ٹیکس ادا نہیں کیا، تو وہ جرمانہ ادا کر کے اپنا کالا دھن سفید کروا سکتا ہے، لیکن ان اسکیمز سے کسی قسم کی دوسری رعایات نہیں ملتیں۔ مثال کے طور پر غیر قانونی ذرایع ڈکیتی، لوٹ مار، منشیات فروشی، ناجائز تجارت اور رشوت خوری سمیت دیگر جرائم سے حاصل کی گئی آمدنی کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیمز تحفظ نہیں دیتیں۔ اگر حالیہ ایمنسٹی اسکیم مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہے، تو پھر یہ آئینِ پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا ہوا، تو اس کے نتیجے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو پاکستان کے خلاف کارروائی کا موقع مل جائے گا۔
موجودہ سیاسی منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہ جب جلد ہی نگراں حکومت کا قیام متوقّع ہے، انتخابی مہمات چلانے کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے، بدعنوانی کے خلاف عدلیہ فعال کردار ادا کر رہی ہے اور اپوزیشن میں شامل جماعتیں اسکیم سے متفق نہیں ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ مالی سال کے آخر میں ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو گا، لیکن زر مبادلہ کے ذخائر کو ملک میں لانے میں حکومت کو کامیابی ملنے کی توقع نہیں ہے۔
اشفاق تولہ
رکن،ٹیکس ریفارم کمیشن
نئی ایمنسٹی اسکیم کے اطلاق میں حکومت کو مختلف اقتصادی اور قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ گراوٹ کو دیکھا جائے، تو اثاثے ظاہر کرنے کے لیے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں پر بالترتیب 3فی صد اور 5فی صد ٹیکس ریٹ بہت کم ہے اور بیرونِ ملک اثاثے رکھنے والے افراد کے لیے اس ریٹ پر ٹیکس کی ادائیگی پاکستانی روپے میں بہت زیادہ آسان ہو گی۔ اس اسکیم میں وفاقی حکومت نے غیر منقولہ جائیداد سے کیپیٹل ویلیو ٹیکسز کو نکال دیا ہے اور غیر منقولہ جائیداد کی کیپیٹل ویلیو پر ٹیکس وفاق کے بہ جائے صوبوں کا حق ہے۔
اپنی پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی نے ایمنسٹی اسکیم کو ’’ ون ٹائم ایمنسٹی اسکیم‘‘ قرار دیا۔ تاہم، یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ کسی فرد کی جانب سے اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اس پر کتنا جرمانہ عاید کیا جائے گا یا اس کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی۔
اسکیم میں سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی میں رکاوٹ کے لیے کوئی طریقہ متعارف نہیں کروایا گیا۔ لہذا، قیمتی غیر ملکی زرِ مبادلہ کی منتقلی برائے نام غیر ملکی سرمایہ کاری کی شکل میں جاری رہے گی، جو اس اسکیم کی روح کے خلاف ہے۔ میں نے سرمایہ کاری کی خاطر فی فرد کے لیے ابتدائی طور پر 5لاکھ ڈالرز کی سفارش کی تھی۔ اثاثے رکھنے والوں کی جانب سے اپنے اثاثوں کی قیمت ظاہر کرنے پر حکومت کے پاس قبضے کا حق نہ ہونے کی وجہ سے ان اثاثوں کی خریداری سے مارکیٹ کے مطابق ظاہر کی گئی قیمت یقینی بنانے کا کنٹرول نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں اثاثے ظاہر کرنے والے کم از کم ٹیکس کی ادائیگی اور ٹیکس ادا کیے بغیر اثاثے ظاہر کر کے دگنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے مارکیٹ سے کم قیمت ظاہر کریں گے۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے جائیداد خریدنے کی مہم جوئی کے قانونی نتائج برآمد ہوں گے۔ اس قسم کا ماڈل بھارت میں ناکام ہو چکا ہے۔ لہٰذا، باقاعدہ قیمت ظاہر کرنے کے لیے کوئی موزوں طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی اثاثوں اور مقامی اثاثے ظاہر کرنے کی خاطر آرڈیننس جاری کیے جانے سے ایسا لگتا ہے کہ جرائم سے متعلق قوانین کے ساتھ نارکوٹک سبسٹینس ایکٹ 1947ء اور اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ1997ء کو توسیع دی گئی ہے اور اس پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل، 19اے ہر شہری کو اطلاعات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ لہٰذا، ان آرڈیننس کی خفیہ شقوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ افراد کے لیے انکم ٹیکس ریٹس کم کرنے سے آمدنی میں تقریباً 90ارب روپے کی کمی واقع ہو گی اور کم و بیش دو لاکھ انکم ٹیکس ریٹرنز کم ہو جائیں گے۔ مزید برآں، یہ آئی ٹی او کے سیکشن 153(1)(b) سے انحراف ہو گا کہ انفرادی خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے وِد ہولڈنگ پر ٹیکس ریٹ 10فی صد ہے، جو کم سے کم ٹیکس ہے، جب کہ نظر ثانی شدہ ٹیکس ریٹس کی وجہ سے نارمل ٹیکس ریٹس مزید کم ہو سکتے ہیں۔
اسی قسم کی صورتحال کا سامنا جائیداد سے ہونے والی آمدنی کے معاملے میں بھی ہو گا، جو 20فی صد تک کے ٹیکس ریٹ کو اپنی جانب کھینچتی ہے، جو آمدنی کا ایک الگ ذریعہ ہے۔ لہٰذا، اس امتیاز کو ختم کرنے کے لیے ان سیکٹر سے متعلق ٹیکس ریٹس میں ترامیم ضروری ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق، 200ارب ڈالرز مالیت کے غیر اعلانیہ اثاثوں میں سے صرف 2ارب ہی وطن واپس آئیں گے۔ نیز، صدارتی آرڈیننس میں بعض واضح غلطیاں پائی جاتی ہیں، جن کی تصحیح کے لیے حکومت کی جانب سے وضاحت ضروری ہے۔
مثال کے طور پر مقامی اثاثوں کے آرڈیننس کے سیکشن 8کے ذیلی سیکشن2میں’’مقامی اثاثوں‘‘ کے بہ جائے ’’غیرملکی‘‘ اثاثوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور آئی ٹی اے اوکےسیکشن2(6)(1) کے تیسرے ٹیبل کے آٹھویں کالم میں4,800,000کے بہ جائے48,000,0000 درج ہیں۔