تحریر: مائیک رائٹ ،
رولانڈ اولیفانٹ
روس اور امریکا کے درمیان مزید اشتعال اُس وقت بڑگیا جب شام کے شہر دوما میں حالیہ مبینہ کیمیائی حملے کے بعد امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ماسکو کو خبردار کیا کہ"روس تیار رہے، میزائل آرہے ہیں" جبکہ دوسری جانب روس نے ردِ عمل میں کہا کہ وہ شامی ائیر بیس کی جانب آنے والےہر میزائل کو مار گرائے گا۔(امریکا نے شام پر میزائل داغ دیے ہیں جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے )
اب تک تو دونوں طاقتور ممالک آپس میں محاذآررائی سےگریزکررہے تھے لیکن شام کے مسئلہ پراب دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع سے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کی جانب سے دی گئی دھمکی کے بعد دوما میں مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں کارروائی کرتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کیا روس کاجدید ترین دفاعی نظام ایس 400امریکی کروز میزائلوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ روس نےاب تک اپنا موبائل سسٹم باضابطہ طور پر استعمال نہیں کیا جو ان کے مطابق دنیا کا سب سے بہترین اور واحد سسٹم ہے اور اس وقت شام میں موجودہے۔
شام میں جاری تنازع سے اس بات کا امکان واضح ہے کہ امریکا شامی فوجی اڈوں کی جانب اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل داغے گا جس طرح گزشتہ سال شام کے علاقے خان شیخون میں کیا گیا تھا۔
روسیوں نے اس فضائی حملے کے دوران اپنا فضائی دفاعی نظام استعمال نہیں کیا، شاید یہ حقیقت ان پر اثر انداز ہوگئی ہے کہ روس کے پاس امریکا کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا میزائل موجود ہے۔
اگرچہ اب روس اپنی مکمل صلاحیت کو استعمال کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کے ٹماہاوکس سسٹم اور روسی صدرپیوٹن کے S-400سسٹم کے درمیان منڈلانے والے جنگ کے خطرات سے واشنگٹن اور ماسکو کی افواج کا مستقبل بنیادی طور پر تبدیل ہوسکتاہے۔
شعیراتفضائی حملہ:
آنے والے دنوں میں اس بات کا واضح امکان ہے کہ امریکا اسی حملہ کی پیروی کرسکتا ہے جیسا کہ اس نے گزشتہ سال7 اپریل کو شام کےشعیرات فوجی اڈے پر کیا تھا۔
یہ حملہ گزشتہ سال 4 اپریل کو شامی فوج کی جانب سےشہریوں پر سیرین حملے کے جواب میں کیا گیا جس میں امریکا نے 72 گھنٹوں کے اندر اپنے59 ٹماہاوکس کروز میزائل شام کےشعیرات ایئر بیس کی طرف داغے تھے۔
یہ تمام تر میزائل امریکا کی بحریہ نےیو ایس ایس راس اور یو ایس ایس پورٹر جنگی جہازوں کے ذریعے مشرقی بحیرہ روم سےداغے تھے جب امریکی خفیہ ایجنسی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ کیمیائی حملہ شام کےشعیرات فوجی اڈے سے کیا جاتا ہے۔
اس حملہ کا مبینہ حکم امریکی صدر ٹرمپ نے اُس وقت دیا جب اِن کو شام کے کسی شہر میں زہرلی گیس سے جاں بحق ہونے والے بچے کی تصویر دیکھائی گئی تھی۔
واضح رہے کہ امریکا نے اپنے رابطہ نظام کے ذریعے روسی فوج کوشام میں حملہ کرنے سےپہلے خبردار کیا تھا۔ یہ چینل دونوں ممالک کے درمیان اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے گزیز کریں۔
اس اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بناناتھا کہ امریکا روس کے کسی فوجی اہلکار کو نشانہ نہ بنائےیا دونوں طاقتوں کے درمیان تنازع کی شدت میں اضافہ نہ ہو۔
پینٹا گون کو اس بات کا عمل تھا کہ روس اپنے اتحادیوں کو پہلے سے ہی الرٹ کردے گا کہ ہدف بنائے گئے فوجی اڈے سے اپنے جنگی جہاز ہٹا دو لیکن اس کے باوجود اس نے ماسکو کو خبردار کیا۔
امریکا کےٹوماہاکس میزائل:
شام کو صرف اپنے دفاعی نظام کی وجہ سے برتری کا سامنا ہے لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کے طیاروں کے لیے صرف روسی ہی کافی ہیں جو ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوں گے۔
اگر امریکا شام کے فوجی اڈوں پر جہازوں سے فضائی حملےکرتا ہے تو ایک ہی صورت میں اس کے پائلٹ روسیوں کے ہاتھوں بچ سکتے ہیں کہ وہ پہلے روس کے SAM سسٹم کو تباہ کریں جس سے روسیوں کو زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جیساکہ طویل فاصلہ تک مار کرنے والے میزائل ہی صرف اسد کی فضائی طاقت پر حملہ کرنے کے لیے موثر طریقہ ہے جو کہ دونوں ممالک روس اور امریکا کے درمیان بغیر کسی قسم کے اشتعال کے ہوسکتا ہے۔
ٹوماہاکس میزائل سسٹم باآسانی بحری جنگی جہاز سے چھوڑا جا سکتا ہے جو اپنے ساتھ عام طور پر 1000پونڈ ہتھیار لے جانے اور 1000 میل دُور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شعیرات فضائی حملے کے معاملے میں ہر ایک میزائل کو سسٹم کے تحت اس کے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے ترتیب دیاگیا تھا جن اہداف میں کنٹرول ٹاور ، مشکل ترین ہینگر، جہازوں کے ایندھن کے اسٹیشن، گولہ بارود کے ذخیرے، فضائی دفاعی نظام اور رڈار کی تنصیبات شامل تھے۔
:S-400
دنیا میں S-400کوسب سے زیادہ جدید سسٹم تصور کیا جاتا ہے۔روس کا کہناہے کہ اس کے پاس ایک ایسی جزوی بیٹری ہے جس سے بیک وقت 60 میزائل لاذیقہ کے قریب حیممیم فوج اڈے پر داغے جا سکتے ہیں۔
اور اس سے کئی اور میزائل بھی داغے جا سکتے ہیں۔ 9M96، جس کوS-400کے مقابلے میں آنے وا لے میزائل کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے،اس کی باضابطہ طور پر مداخلت میں کامیابی کی شرح 70 فیصد ہے، لہذا ڈاکٹرائن کی جانب سے ہدف کو مارگرانے کے لیے دو میزائل چھوڑنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔
لیکن ہو سکتا ہے امریکی کمانڈراس ٹوماہاکس میزائل کو مار گرانے کی شرح کوکم کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جوکہ ایک بڑی تعداد ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے جسٹن برونک کا کہنا ہے کہ سسٹم کے پاس اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کے وہ انفرادی طور پر میزائلوں کو مارگرائے، لیکن یہ آسان طریقہ ہے جس سے صرف مداخلت کرنے والوں کو مارگڑایا جاسکے گا۔
گزشتہ سال شعیرات فوجی اڈے پر ایک زبردست قسم کی ضفائی کارروائی دیکھی گئی جس میں کم از کم 60 ٹماہاوکس میزائل استعمال ہوئے لیکن اب ان کی صلاحیتS-400 سے کئی زیادہ ہوگی اور اس کے بعد ہم شام میں پائے جائیں گے۔
شام میں پہلی بار S-400اور ٹماہاوکس سسٹم کے درمیان مقابلہ ہوگا اور اس سسٹم کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے قبل اچھی طرح جانچ کرلی گئی ہے۔ لیکن اس کے بعد ماسکو اور واشنگٹن کی افواج کی سوچ پربڑے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
مسڑ برونک کا کہنا ہے کہS-400کی کارکردگی نیٹو کے لیے بہت اہم ہوگی اگرچہ یہ سسٹم یورپ اورکیلینگگراڈ میں خوف کی علامت ہے لیکن اگر یہ سسٹم ٹوماہاکس میزائل سسٹم کو روکنے میں ناکام دکھائی دیا تواس سے روس کی قوتِ مزاحمت پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہشعیرات فضائی حملہ میں روسیوں نے ٹوماہاکس کو فائرنگ کرکے مار گرانے سے انکار کردیا تھا۔
(واضح رہے اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں روس نے شام پر امریکی اتحادیوں کے میزائل حملوں کے دوران اپنا دفاعی میزائل نظام استعمال نہیں کیا اور شامی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے دفاعی میزائل نظام سے 70کے قریب میزائلوں کو مار گرایا تھا )