پینل انٹرویو:فاروق احمد انصاری،لیاقت علی جتوئی،رابعہ شیخ
بلال ادریس اللہ والا امریکا کی یونیورسٹی آف وسکونسن کے گریجویٹ ہیں۔ 2011میں معاشیات اور سیاسیات میں ڈبل میجر کرنے کے بعد 2012میں اپنے فیملی بزنس کے ساتھ منسلک ہوگئے ۔ دوسال بعد2014میں انہوں نے کمپنی کی باگ ڈور باقاعدہ طور پر اپنے ہاتھوں میں سنبھال لی ۔ بلال ادریس اللہ والا’’ انٹرنیشنل کنزیومر پراڈکٹس‘‘ کے آپریشنز اور انتظامی معاملات دیکھنے کے ساتھ ساتھ، اس کے دس سالہGrowth & Expansinon منصوبے کوبھی اپنی قیادت میں لے کر آگے چل رہے ہیں۔
جنگ: سب سے پہلے اپنے کاروبار کے بارے میں کیا تفصیلات ہمارے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گے؟
بلال ادریس اللہ والا: ہم بنیادی طور پر ایک کاسمیٹکس کمپنی ہیں۔ ہماری کمپنی کے پانچ نمایاں برانڈز ہیں اور سارے برانڈز ہی پاکستان میں پرانے ، جانے پہچانے اور مایہ ناز سمجھے جاتے ہیں، جنہیں پاکستانی صارفین 1960کی دہائی سے استعمال کررہے ہیں۔ ان میں ہمارا سب سے بڑا برانڈمدرکیئر ہے۔ ایڈمرل ہمارا دوسرا برانڈ ہے۔ اس کی شیونگ کریمز کافی مشہور ہیں۔ ایڈمرل کا نیا شیونگ فوم بھی جلد ہی دوبارہ مارکیٹ میں لارہے ہیں۔ ہمارے ایک اور برانڈ کانام بروچ ہے، جس کے پرفیومز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وائس رائے اور سوئس مس بھی ہمارے برانڈز ہیں۔ سوئس مس کوری لانچ کرنے پر ہم کام کررہے ہیں اور اس کی کچھ پراڈکٹس ہم پہلے ہی مارکیٹ میں لانچ کرچکے ہیں۔ ہم نے سب برانڈز کو علیحدہ حیثیت سے رکھا ہوا ہے اور کسی بھی سطح پرایک برانڈ دوسرے برانڈ کے ساتھ کام نہیں کرتا۔
جنگ: مدرکیئر برانڈ نام کے تحت آپ کن سیگمنٹ میں پراڈکٹس بناتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: ہم مدر کیئر برانڈ نام کے تحت1960ءی دہائی سے اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کررہے ہیں اور یہ اس قت سے ہمارا رجسٹرڈٹریڈ مارک ہے۔ اس برانڈ کے تحت ہم کاسمیٹکس کی رینج، بے بی شیمپو، بے بی سوپ، بے بی لوشن، بے بی آئل، بے بی لوشن سوپ، بے بی وائپس اور بے بی ڈائپرز بناتے ہیں۔ ہم بے بیHygieneکے علاوہ خواتین کی Hygiene پراڈکٹس بھی بناتے ہیں۔ ہم مدر کیئر برانڈ کے تحت بے بی کیئر ، بے بیHygiene اورFeminineسیگمنٹ میں پراڈکٹس بنارہے ہیں۔
جنگ: اس کاروبار میں کیوں آئے؟
بلال ادریس اللہ والا: یہ ہمارا فیملی بزنس ہے اور میری فیملی پاکستان بننے سے پہلے سے کاسمیٹکس کا کاروبار کررہی ہے۔ تبت کے نام سے آپ ضرور واقف ہوں گے ۔ جب فیملی کاروبار تقسیم ہوا تو یہ ہمارے حصے میں آگیا۔
جنگ: تبت سے ذہن میں فوری طور پر’’ سندر‘‘کریم کا خیال ابھرتا ہے ، جو آپ کا پراڈکٹ ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ بھی بتائیں آپ اسے اپنا اسپیشلٹی پراڈکٹ کیوں کہتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا:۔ ’’ سندر‘‘ ہماری وینشنگ اسنوکریم ہے۔ اسے ہم نے ایکسپورٹ مارکیٹ کوذہن میں رکھ کربنایا ہے۔ اسنوکریم ہمارا فیملی پراڈکٹ ہے۔کچھ اور گروپس نے بھی اسنوکریم بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
آج کے زمانے میں اسکن وائٹننگ پراڈکٹس نہیں بناتے ،اور اس کی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ اخلاقی ہے کیوں کہ دودن، سات دن اور چودہ دن میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ ہم نہیں کرسکتے۔ دودن میں رنگ گورا کرنے کے لیے کچھ اور چیزیں ڈالنا پڑتی ہیں، اور یہ کام ہم کبھی بھی نہیں کریں گے ۔ آپ کو شاید نہیں پتہ کہ اب تو کچھ کمپنیز ایمرجنسی وائٹننگ کریمز بنارہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر آپ کو رات میں کسی تقریب میں جانا ہے تو ایک ، دوگھنٹے میں رنگ گورا کرنے کے لیے ان کی کریم استعمال کریں۔
جنگ: آپ ساری مصنوعات پاکستان میں مینو فیکچر کرتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: اکثر پروڈکٹس ہم پاکستان میں بناتے ہیں مگر چند ایک ہم امپورٹ بھی کرتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر Raw Materials (خام مال) باہر سے آتے ہیں اور کچھ پیکیجنگ بھی امپورٹڈ ہوتی ہے۔
جنگ: آپ کن ملکوں کو اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کرتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: افغانستان اور سعودی عرب ایکسپورٹ کرتے ہیں۔پہلے یو اے ای اور قطر کوبھی ایکسپورٹ کرتے تھے۔جنوبی افریقا بھی ہماری ایکسپورٹ ہے۔ ایکسپورٹ کی بات چل نکلی ہے تو میں یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کاسمیٹکس پراڈکٹس بنانا Competitive نہیں ہے۔ جتنے میں یہاں ہمیں پیکیجنگ پڑتی ہے، اتنے میں باہر Finishedپراڈکٹ دستیاب ہے۔ اگر یہی پراڈکٹس ہم دبئ میں بیٹھ کر بنائیں تو ہماری لاگت60%تک کم ہوجائے گی ۔ پاکستان میں ٹیکسز بہت زیادہ ہیں۔
جنگ: آپ اس کاروبار میں تھرڈ جنریشن ہیں، جسے یہ کاروبار منتقل ہوا ہے۔ آپ کو اس کاروبار میں کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
بلال ادریس اللہ والا: بلاشبہ ہر جنریشن کواپنے وقت کے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔
وقت کے ساتھ تیزی سے ترقی کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اللہ سے امید ہے کہ اس میں وہ ہمیں کامیاب کریں گے، انشاء اللہ۔
جنگ: آپ کی ٹارگٹ کنزیومر مارکیٹ کیا ہے؟
بلال ادریس اللہ والا:ہر پاکستانی بچہ ہمارا ٹارگٹ کنزیومر ہے۔ ہر پاکستانی ماں ہماری ٹارگٹ کنزیومر ہے۔ پاکستان کے تقریباً سارے شہروں میں ہمارے برانڈز دستیاب ہیں۔ شہروں کے علاوہ ٹاؤنز اور چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بھی آپ کو ہماری چیزیں نظر آئیں گی۔
جنگ: اگر آپ کی پراڈکٹ لائن کی بات کریں تو مجموعی طور پر مدرکیئر اور دیگر برانڈز کوملاکر آپ کے کتنے پراڈکٹس مارکیٹ میں دستیاب ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: مجموعی تعداد اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے۔ تاہم یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہم بہت سارے پروڈکٹس بناتے ہیں۔
جنگ: آپ اپنی مصنوعات کی کوالٹی کوکس طرح ریٹ کریں گے؟
بلال ادریس اللہ والا: ہم اپنی مصنوعات بہترین اور اعلیٰ ترین معیار کے مطابق تیار کرتے ہیں۔ ہمارا شمار مارکیٹ میں دستیاب چند بہترین برانڈزمیں ہوتا ہے۔ ہم تمام خام مال امپورٹ کرتے ہیں جن کمپنیز سے ہم خام مال لیتے ہیں، کاسمٹیکس کے سارے بڑے برانڈز بھی ان ہی کمپنیز سے لیتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ ہماری مصنوعات اور ان کی پیکیجنگSecond to noneہے۔
جنگ: اور پرائسنگ اسٹریٹجی کیا ہوتی ہے آپ کی؟
بلال ادریس اللہ والا: ہم اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں قیمتیں ملٹی نیشنل برانڈز سے کم رکھنی پڑتی ہیں۔ ہماری لوکل انڈسٹری کے پاس وہ وسائل نہیں ہیں جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہوتے ہیں۔
جنگ: آپ کی کمپنی کی کامیابی کا کیا راز ہے؟
بلال ادریس اللہ والا: ہم نے کبھی معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مدرکیئر کوچھوڑ کر اگر سوئس مس کی بھی بات کریں تو شاید ہمارا کاروبار ٹرن اوور اتنا بڑا نہ ہو لیکن معیار میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ہم سوئس مس کی جو لپ اسٹک بناتے ہیں، آپ اس کا مقابلہ چار، پانچ ہزار والی امپورٹڈ لپ اسٹک سے بآسانی کرسکتے ہیں۔
جنگ: لپ اسٹک، نیل پالش اور اس طرح کی دیگر مصنوعات میں آپ جو خام مال استعمال کرتے ہیں کیا وہ حلال ہوتا ہے، کیوں کہ صارفین اس معاملے میں بڑی تشویش میں مبتلا رہتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا:ہمارے پورٹ کا جو نظام ہے، وہ اب اتنا آسان نہیں رہا کہ آپ ہرچیز وہاں سے کلیئر کرالیں۔ وہاں ہرچیز کی مکمل ڈاکیومینٹیشن مانگی جاتی ہے اور ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد ہی چیزوں کو کلیئر کیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنا بھی اندرونی مکنیزم بنایا ہوا ہے، ہم سپلائر سے گارنٹی لیتے ہیں کہ وہ جومال ہمیں دے رہا ہے وہ حلال ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر یورپ اور دیگر ملکوں میں بیٹھی کمپنیز اور سپلائرز کوبھی اس بات کا احساس ہے اور وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسلم ممالک کو بھیجی جانے والی چیزیں حلال ہوں۔
جنگ:کامپی ٹیشن کے لیے خود کوکیسے تیار کرتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: ہم کامپی ٹیشن سے کبھی نہیں گھبراتے۔ کاسمیٹکس میں چین کی مصنوعات تو بے تحاشا ہیں۔ بھارت کے سارے بڑے برانڈز یہاں پہلے ہی موجود ہیں۔ یورپ کے سارے برانڈز یہاں دستیاب ہیں۔ ایک افریقی کمپنی ہے ، جو خود کو بھارتی کمپنی ظاہرکرتی ہے، آج کل ا ن کی مصنوعات بھی مارکیٹ میں بہت نظر آنے لگی ہیں۔ ہمیں ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم صرف یہ کرتے ہیں کہ ہر وقت خود کو اپ گریڈ کرتے رہیں اور مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
جنگ: آن لائن بزنس کی طرف توجہ دے رہے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: یہ ایک بہت ہی زبردست اور تیزی سے فروغ پانے والا سیگمنٹ ہے۔ یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں اتنی تیزی کے ساتھ یہ ایک اہم ترین سیگمنٹ بن کر ابھرا ہے اور اب ہر کمپنی اس پر کام کررہی ہے۔ ہم بھی اس سیگمنٹ میں آہستہ اور مستحکم انداز میں کام کررہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
جنگ: مارکیٹنگ میں پرنٹ میڈیا کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے؟
بلال ادریس اللہ والا: صارفین کو برانڈ سے متعلق آگہی دینے کے لیے پرنٹ میڈیا بہت اہم ہے۔ میں گذشتہ دنوں پنجاب گیا تھا،وہاں اپنے ڈسٹری بیوٹرز ، ریٹیلرز اور اپنے اسٹاف سے ملاقاتوں میں اندازہ ہوا کہ ان کی اس بات پر نظر ہے کہ ہم جنگ اخبار میں اشتہارات دے رہے ہیں۔ ہمارے برانڈ کی رسائی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم ڈٖیجیٹل میڈیا پربھی کام کررہے ہیں۔
جنگ: ملکی سیاسی حالات،کاروبار پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا:سیاسی عدم استحکام کا کاروبار پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ مارکیٹ Sentiment ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ ہمارے قائدین کو اس بات کا جلد بخوبی احساس کرنا ہوگا۔
جنگ: سی پیک کوآپ کیسے دیکھتے ہیں؟
بلال ادریس اللہ والا: میرے خیال میں سی پیک کے اثرات کو دیکھنا ابھی باقی ہے۔ کچھ لوگ خوفزدہ بھی ہیں اس سے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تفصیلات نہیں ہیں کہ سی پیک کا ٹھیک ٹھیک اسکوپ کیا ہے اور اس کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے۔ کیا یہ صرف روڈنیٹ ورک کانام ہے، پاور پلانٹس کانام ہے یا اس سےبھی آگے ہے؟ جہاں تک انفرااسٹرکچر کی ترقی کا تعلق ہے تواس سے Connectivity بڑھے گی اور اس سے ہمیں بھی فائدہ ہوگا۔ لیکن اگر کاروبار اور صنعت کی بات کریں تو اس میں چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ ہمیں مساوی سہولتیں ملنی چاہئیں۔ ان کو ہرچیز پر ٹیکس کی چھوٹ دی جارہی ہے، جب کہ ہم پر مزید ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سب کے لیے ایک ہی پالیسی لاگو کرے۔