افغانستان کے شہر قندھار کے قریب میوند واقع ہے۔ 1880ء میں برطانوی فوج نے میوند پر حملہ کیا تو افغانوں نے اس حملے کی شدید مزاحمت کی ۔27جولائی 1880ء کو میوند میں جنگ شروع ہوئی تو تمام مقامی مرد اس جنگ میں کود پڑے ۔ اس دن 19سالہ ملالے کی شادی تھی ۔ شادی کے دن جنگ شروع ہونے کے بعد ملالے کے والد اور منگیتر بھی جنگ میں شامل ہو گئے ۔ اس زمانے کی روایات کے مطابق ملالے اپنے خاندان کی دیگر عورتوں کے ہمراہ میدان جنگ کے اطراف میں زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔ ایک موقع پر طاقتور برطانوی فوج نے افغان فوج پر دباؤ بڑھایا تو ملالے نے اپنے اشعار کے ذریعہ افغان فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر آج میوند کے میدان جنگ میں تم نے شکست کھائی تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔ جنگ کے دوران افغان فوج کا پرچم بردار زخمی ہو گیا پرچم گر گیا تو ملالے آگے بڑھی اور اس نے پرچم تھام کر دوبارہ لہرادیا ۔ افغان فوج نے ایک لڑکی کو پرچم تھامے دیکھا تو ان میں نیا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے دشمن پر بھرپور حملے شروع کر دیئے ۔ دشمن نے کچھ ہی دیر میں ملالے کو نشانہ بنا کر شہید کر ڈالا ۔ جنگ ختم ہوئی تو میوند کی ملالے افغانوں کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار بن چکی تھی ۔ آج افغانستان اور پاکستان کے پختون بڑے شوق سے اپنی بیٹیوں کا نام میوند کی ملالے کے نام پر رکھتے ہیں ۔ افغانستان میں یہ نام ملالئی یا ملالے پکارا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اسے ملالہ پکارا جاتا ہے 1998ء میں سوات کے ضیاء الدین یوسفزئی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تو انہوں نے میوند کی ملالے کے نام پر اپنی بیٹی کو بھی ملالہ کا نام دیا ۔ ننھی ملالہ سے میری پہلی ملاقات 18فروری 2009ء کو ہوئی ۔ یہ وہ دن تھا جب سوات میں طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدے کے بعد لوگ خوش تھے لیکن اس دن دوپہر کو سوات کے علاقے مٹہ میں جیونیوز کے نمائندے موسیٰ خان خیل کو شہید کر دیا گیا ۔ میں اس دن مینگورہ میں موجود تھا اور اپنے ساتھی کی شہادت پر بہت غمزدہ تھا ۔ ملالہ اپنے والد کے ہمراہ مجھے ملنے آئی اور موسیٰ خان خیل کی شہادت پر تعزیت کی ۔ گفتگو کے دوران مجھے پتہ چلا کہ ملالہ کا سکول کافی دن سے بند ہے اور سکول کی بندش کے خلاف وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ چکی ہے ۔ میں نے ملالہ سے پوچھا کہ کیا وہ میرے ٹی وی پروگرام میں اپنے سکول کے بارے میں بات کرنا پسند کریگی ؟اس نے فوراً حامی بھرلی۔ اسی شام ہم نے مینگورہ سے جیو نیوز پر ایک لائیو پروگرام کیا جس میں پہلی دفعہ ملالہ یوسفزئی کی جرات اور ذہانت پوری دنیا کے سامنے آئی ۔
ملالہ یوسفزئی نے 18فروری 2009ء کو سوات میں امن معاہدے کی حمایت کی تھی کیونکہ اسے امید تھی کہ اس امن کے نتیجے میں اسے سکول واپس مل جائے گا ۔ قبل ازیں بی بی سی کی ویب سائٹ پر بھی گل مکئی کے نام سے وہ اپنا سکول واپس مانگتی رہی ۔ وہ نہ تو کسی امیر سیاست دان کی بیٹی تھی نہ کسی بااثر جرنیل کی آنکھ کا تارا تھی ۔ اس کا باپ ایک سکول چلاتا تھا اور ملالہ کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا ۔ افسوس کہ سوات میں امن معاہدے کے بعد بھی ملالہ سمیت ہزاروں بچیوں کے سکول نہ کھل سکے ۔ ملالہ کی طالبان سے کوئی دشمنی نہ تھی وہ تو صرف یہ جانتی تھی کہ طالبان نے اس کا سکول بند کرایا اور کئی دیگر سکولوں کو بم سے اڑا دیا ۔ سوات میں امن معاہدے کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشن شروع ہوا تو ملالہ اپنے خاندان کے ہمراہ شانگلہ چلی گئی ۔ فوجی آپریشن ختم ہونے کے بعد وہ واپس مینگورہ آ گئی ۔ اس کا سکول کھل گیا لیکن کرفیو کی پابندیوں اور چیک پوسٹوں کی وجہ سے وہ پریشان رہتی تھی ۔ ایک دفعہ وہ اپنے والد کے ہمراہ اسلام آباد آکر مجھے ملی اور فوجی آپریشن کے بعد کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اسے خدشہ تھا کہ سکیورٹی فورسز اور مقامی آبادی میں اعتماد کا رشتہ برقرار نہ رہا تو طالبان واپس آ جائیں گے ۔ ملالے کی عمر صرف 14سال ہے لیکن وہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن بن چکی تھی ۔ چھوٹی سی عمر میں اسے کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈ مل گئے ۔کچھ عرصے سے ملالہ کو دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ مینگورہ میں فوجی حکام نے ملالہ کو سکیورٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی لیکن اسے اپنے ارد گرد بندوق برداروں کی موجودگی پسند نہ تھی ۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ تعلیم حاصل کرنے کا جنون ایک دن اس کا جرم بن جائے گا اور جہاد کے علمبردار اسے گولی مار کر بڑے فخر سے ذمہ داری بھی قبول کریں گے ۔
9/اکتوبر کو مینگورہ میں سکول سے گھر واپس جاتے ہوئے ملالہ کے سر میں گولی ماری گئی ۔ گولی مارنے والوں نے ملالہ کو فتنہ قرار دیا اور یہ دلیل پیش کی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف پراپیگنڈہ کر رہی تھی ۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ سفر کے دوران حضرت خضر نے ایک بچے کو مار دیا تھا کیونکہ یہ بچہ فتنہ بننے والا تھا ۔ ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک صحابی کی بیوی توہین رسالت کرتی تھی اس صحابی نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا لہٰذا ملالہ پر حملہ شریعت کے عین مطابق ہے ۔ میں نے طالبان کے اس موقف پر جید علماء سے بات کی اور کسی ایک نے بھی طالبان کے دلائل کو درست نہیں کہا ۔ علماء کا کہنا ہے کہ حضرت خضر ایک نبی تھے ۔ نبی کو غیب کا علم ہو سکتاہے کہ کوئی بچہ کل کو فتنہ بنے گا طالبان کو غیب کا علم کیسے ہو سکتا ہے ؟علماء کا خیال تھا کہ ملالہ نے توہین رسالت جیسا کوئی جرم نہیں کیا کہ اسے گولی مار دی جائے ۔ سکول بند کرنے پر طالبان کی مذمت ایسا کوئی جرم نہیں کہ ایک نہتی بچی پر حملہ کرکے اسے جہاد کہا جائے ۔ایک طرف طالبان ملالہ پر حملے کو جائز قرار دے رہے ہیں دوسری طرف کچھ لبرل فاشسٹ ملالہ پر حملے کی آڑ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیز کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ وہ دانشور اور کالم نگار جو لاہور اور کراچی میں بیٹھ کر ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں اور ڈرون حملوں کو خودکش حملہ آوروں کا بہترین علاج قرار دیتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ہمت پکڑیں ۔ آپ جنوبی وزیرستان نہیں جا سکتے تو مینگورہ چلے جائیں ۔ وہاں نہیں جا سکتے تو پشاور چلے جائیں ، لوگوں سے بات کریں آپ کو پتہ چلے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستانی معاشرے کو خطرناک حد تک تقسیم کر دیا ہے ۔ امریکہ اور فوج کے مخالفین خودکش حملوں کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ان کے بچے امریکی ڈرون حملوں اور فوج کی بمباری سے مرتے ہیں تو پاکستان کا میڈیا ان کے بچوں کیلئے آنسو کیوں نہیں بہاتا ؟ ڈرون حملوں کے حامی اور طالبان کے مخالفین کی باتیں سنیں تو وہ بھی لبرل انتہا پسندی کے آسمان کی بلندیوں سے نیچے آنے کیلئے تیار نہیں ۔ پاکستانی عوامی مذہبی دہشت گردوں اور لبرل انتہا پسندوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں یہ دونوں انتہا پسند ہمارے مستقبل کے دشمن ہیں کیونکہ دونوں جنگ پر یقین رکھتے ہیں ۔ ملالہ یوسفزئی دونوں کے خلاف تھی ۔ آج ہمیں سامراجی سازشوں کے خلاف وہ جرات مندانہ کردار دکھانا ہے جو میوند کی ملالے نے دکھایا تھا اور اندرونی سازشوں کے سامنے اس بہادری سے کھڑا ہونا ہے جو مینگورہ کی ملالہ نے دکھایا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ملالہ یوسفزئی جلد صحت یاب ہو کر دوبارہ آگے بڑھے اور علم حاصل کرے۔(آمین)