• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے پاکستان میں مقیم عہدیداروں نے پاکستان اور افغانستان میں انسداد پولیو مہم بیک وقت چلائی جانے کی ضرورت کا اظہار کیاہے۔ یہ یقیناًایک مفید تجویز ہے کیونکہ دنیا کے نقشے پر یہی دو ملک ایسے رہ گئے ہیں جہاں پولیو سے بچاؤکی مہم مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکی۔پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے لوگوں کے آپس میں نہ صرف دیرینہ گہرے مراسم ہیں بلکہ آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ اس لیے یہ اچھی سوچ ہے ۔ خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق دونوں کے لیے اس امر کو فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے کہ اس صوبے میں اب بھی33ہزار بچے مختلف وجوہات کی بنا پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جانے کی مہم میں شامل نہیں ہوتے جبکہ پنجاب،سندھ ،بلوچستان اوردیگر علاقہ جات میں یہ مہم باقاعدگی کے ساتھ کامیابی سے جاری ہے جس کی بنا پر ان صوبوں میں صورت حال بڑی حد تک تسلی بخش ہے۔ تاہم افغانستان کے حالات خیبرپختونخوا سے بھی ابتر ہیں اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں لوگوں کے دلوں میں پولیو سے بچاؤ کی دوا کے بارے میں بعض شکوک وشبہات اورخدشات پائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان علاقوں میں معتبر طبی ماہرین، علماء ،اساتذہ اوردیگر سرکردہ شخصیات کے توسط سے لوگوں کوآگہی دی جائے کہ ان قطروں سے کسی نقصان کااندیشہ نہیں بلکہ یہ اقدام معذوری سے حفاظت اورانسانیت کی خدمت کے لئے ہے۔پورے کنبے میں ایک بھی فرد کا معذور ہونا گھر کے ہرفرد کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے اور معذورافراد معاشرے پر عموماً بوجھ بن جاتے ہیں۔دنیا کے وہ ممالک جہاں 1960سے پہلے تک پولیو کے کیس عام تھے،ان میں1988سے اب تک اس کی شرح میں99فیصد کمی آئی ہے جو پولیو ویکسین کی کامیابی کا یقینی ثبوت ہے۔ لہٰذا پاکستان اور افغانستان میں بھی لوگوں کو چاہئے کہ پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں سے مکمل تعاون کریں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین