• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’حکومتی پالیسی اور صنعتی ترقی‘‘ کے موضوع پر پری بجٹ جنگ فورم کی رپورٹ

معیشت مشکل میں

اس وقت کراچی کی 50فی صد اور ملک کی40فی صد آبادی کچی آبادیوں میں مقیم ہے اور ایک کروڑ سے ایک کروڑ 20لاکھ گھروں کی کمی ہے، حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے، لیکن کوئی قابلِ عمل ہائوسنگ پالیسی نہیں بناتی، اگر ہم ہائوسنگ سیکٹر پر توجہ دیں، تو یہ 180ارب روپے کی انڈسٹری ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مارگیج کمپنی بنا کر ڈیولپرز کے لیے کم قیمت کے مکانات کی ایک اچھی پالیسی تشکیل دی ہے، آیندہ بجٹ میں ہائوسنگ سیکٹر کی ترقی کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جائے، ہائوسنگ اسکیم لائی جائے۔

معیشت مشکل میں

 ایک ریگولیٹری باڈی تشکیل دی جائے اور ٹیکس وصولی میں مڈل مین کا کردار ختم کر کے ٹیکس کو فکس کر دیا جائے،اگرٹیکس سسٹم کو آن لائن کر دیا جائے، تو 4ہزار ارب روپے کی کرپشن ختم ہو جائے گی،ری فنڈز کی ادائیگی سے ایکسپورٹ 10گنا بڑھ جائیں گی

محسن شیخانی

آج ملک میں کہیں بھی نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں، صنعت کاروں کی لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی انڈسٹریز بند کرنے پر مجبور ہیں،ہماری حکومتیں ہمیشہ ریونیو بیسڈ بجٹ بناتی ہیں اور ایسا بجٹ کبھی کامیاب نہیں ہوتا، اسکیم میں ہماری تجاویز کو شامل کیا گیا،پانچ سال بعد بھی پانی، بجلی اور گیس نہیں ملی، ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے سے برآمدات میں اضافہ ہوگا،نت نئے

معیشت مشکل میں

 ایس آراوز جاری کرنے کے بہ جائے ایک طویل المدت معاشی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم نہ کیے جانے کی وجہ سے انڈسٹری کو ٹیکنیشنز کی کمی کا سامنا ہے، ہمیں اپنی درآمدات کا کوئی متبادل تلاش کرنا ہوگا اور پیکیجنگ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے،بڑی مچھلیوں کو نوازنے کے بہ جائے وینڈرز کو مراعات دینی چاہئیں،حکومت کو درآمدات پر سے ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹا کر صنعت کاروں کی مالی مدد کرنی چاہیے

زکریا عثمان

آیندہ بجٹ انتخابی ہو گا، موجودہ حکومت کو چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے ہیں، لہٰذا وہ عوام اور صنعت کاروں کو سبز باغ دکھائے گی اور چوں کہ نئی حکومت اس بجٹ میں کیے گئے وعدوں کو عملی شکل نہیں دے پائے گی، سو وہ نیا بجٹ پیش کرے گی، ایمنسٹی اسکیم سے ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، آج سے پانچ برس پہلے بھی صنعتوں کو بجلی ، گیس اور پانی کی کمی کا سامنا تھا

معیشت مشکل میں

 اور آج بھی صنعت کار یہی رونا رو رہے ہیں،اس وقت ملک میں کم و بیش 8ہزار ارب ڈالرز مالیت کے غیر اعلانیہ اثاثے موجود ہیں، کیا یہ نا انصافی نہیں کہ مقامی صنعت کار سالانہ کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بیرونِ ملک اثاثے بنانے والے صرف چند فی صد ٹیکس ادا کر کے اپنا کالا دھن سفید کر وا لیں گے

عبدالحسیب خان

دیگر ممالک میں برآمد کنندگان کو حکومت مراعات دیتی ہے، جب کہ ہمیں ہمارے ری فنڈز ہی نہیں دیے جا رہے اور ہم اپنے سپلائرز کو ادائیگیاں نہیں کر پارہے، درآمدات پر ڈیوٹی عاید ہونے کی وجہ سے مصنوعات پر آنے والی لاگت بڑھتی جارہی ہے، سرمایہ داروں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو چھوڑ کر رئیل اسٹیٹ سمیت دوسرے شعبوں کا رخ کر لیا،حکومت کو ایس ایم ایز کو سہارا دینا ہو گا اوراس سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے،

معیشت مشکل میں

متعلقہ سرکاری ادارے انسپکشن کے نام پر ہمارے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، ایسے میں پیداوار تو کم ہو گی،ٹیکسٹائل کی وزارت قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا،جب تک ایمنسٹی اسکیم میں پائے جانے والے ابہام دور نہیں کیے جاتے، مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے،حکومت ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی اور ہمارے ری فنڈز ادا کرے

شبیر احمد


وفاقی حکومت آیندہ چند روز میں مالی سال19-2018ء کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے جا رہی ہے۔ یہ مسلم لیگ (نون) کی حکومت کا پانچ سال میں چھٹا بجٹ ہو گا۔ تاہم، اس کے ساتھ یہ قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ اگلے مالی سال کا بجٹ نئی حکومت پیش کرے گی اور پھر اپوزیشن جماعتیں اور بعض اقتصادی ماہرین حکومت کی جانب سے جاری کی گئی 5نکاتی ایمنسٹی اسکیم پر بھی اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کاروبار دوست تاثر کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی تھی اور اگرچہ ملک میں امن قائم ہونے سے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ملک کے سب سے بڑے صنعتی مرکز کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعت کار پانچ برس گزرنے کے بعد بھی شکوہ کناں ہیں کہ انہیں بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں تک میسّر نہیں اور حکومت کی جانب سے درآمدات پر عاید کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹیز سے مصنوعات پر آنے والی لاگت بڑھنے کے نتیجے میں ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہیں اور اس کا خمیازہ درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی کی صورت بھگتنا پڑرہا ہے، جو گزشتہ پانچ برس میں25ارب ڈالرزسے گھٹ کر19ارب ڈالرز سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔اگلے وفاقی بجٹ کے تناظر میں صنعت کاروں کے مسائل اور تجاویز جاننے کے لیے گزشتہ دنوں ’’ حکومتی پالیسی اور صنعتی ترقی‘‘ کے موضوع پر دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ میں جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں پاکستان بیڈ ویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین، شبیر احمد، وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے سابق صدر، زکریا عثمان، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر، سینیٹر عبدالحسیب خان اور آباد کے سابق چیئرمین، محسن شیخانی نے اظہارِ خیال کیا۔ ذیل میں شرکا کی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ :صنعتوں کی موجودہ صورتحال اور آیندہ مالی بجٹ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ نیز، حالیہ ایمنسٹی اسکیم سے متعلق آپ کیا کہیں گے؟

عبدالحسیب خان :بد قسمتی سے ماضی میں تعلیم و صحت کی طرح صنعتوں کی بہتری اور برآمدات میں اضافے کے لیے کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں بنائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور کسی کو اس بات کی پروا نہیں کہ اس خسارے کو کم کیسے کیا جائے گا۔ ہمیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جن کی ترسیلاتِ زر سے ہم اپنا بیرونی قرضہ اتار رہے ہیں۔ ان دنوں آیندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں جاری ہیں، لیکن میں اسے بجٹ نہیں مانتا۔ یہ صرف ایک انتخابی بجٹ ہوگا۔ میں 6سال سینیٹ میں رہا ہوں اور میں نے بجٹ کی کارروائی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ موجودہ حکومت کو چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے ہیں، لہٰذا وہ عوام اور صنعت کاروں کو سبز باغ دکھائے گی اور چوں کہ نئی حکومت اس حکومت کے کیے گئے وعدوں کو عملی شکل نہیں دے پائے گی، لہٰذا وہ نیا بجٹ بناکر پیش کرے گی۔ اب جہاں تک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی بات ہے، تو فیڈریشن تو اسے خوش آمدید کہہ رہی ہے، لیکن اس سے ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت ملک میں کم و بیش 8ہزار ارب ڈالرز مالیت کے غیر اعلانیہ اثاثے موجود ہیں۔ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ مقامی صنعت کار سالانہ کروڑوں روپے کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بیرونِ ملک اثاثے بنانے والے صرف چند فیصد ٹیکس ادا کر کے اپنا کالا دھن سفید کر لیں گے۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر یہ ایمنسٹی اسکیم نافذ العمل ہوتی ہے، تو میں ٹیکس دینا چھوڑ دوں گا۔

جنگ :موجودہ حکومت صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ کیا آپ ان سے اتفاق کرتے ہیں؟

عبدالحسیب خان :جی نہیں۔ آج سے پانچ برس پہلے بھی صنعتوں کو بجلی اور پانی کی کمی کا سامنا تھا اور آج بھی صنعت کار یہی رونا رو رہے ہیں۔

جنگ :لیکن حکومت تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے؟

عبدالحسیب خان :میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔

جنگ :آپ آیندہ بجٹ کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟

عبدالحسیب خان :اگر موجودہ حکومت انڈسٹری سمیت دیگر تمام شعبوں کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بجٹ تیار کرتی ہے، تو نئی حکومت کو اسے نافذ کرنے میں آسانی ہو گی، لیکن اگر حکومت نے آیندہ انتخابات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بجٹ بنایا، تو اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چار ماہ ہو گی۔

جنگ :تعمیرات سے متعلق موجودہ حکومت کی کیا پالیسی رہی ہے اور آیندہ بجٹ کے لیے کیا تجاویز دیں گے؟

محسن شیخانی :اگر ہم ہائوسنگ سیکٹر کی بات کریں، تو 2001ء میں ایک پالیسی آئی تھی اور اس کے بعد کوئی پالیسی نہیں آئی اور پھر ابھی تک اس پالیسی پر عملدرآمد بھی نہیں ہوا۔ ہائوسنگ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر اس ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ اگر اس میں اصلاحات کی جائیں، تو ملک میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ اگر ہماری تجاویز کی روشنی میں حکومت ڈی سی ریٹ 15فی صد تک لے جائے، ایک فی صد ٹیکسیشن کر دے اور صوبائی حکومتوں سے مشاورت کرے، تو اگر کسی پلاٹ کی رجسٹری ایک لاکھ میں ہوتی ہے، تو وہ 10لاکھ تک پہنچ جائے گی اور اس سے ملکی معیشت میں تبدیلی واقع ہو گی۔ مفتاح اسمٰعیل نے زمین کی اصل مارکیٹ ویلیو کو شامل کر کے ہماری تجویز پر عمل کیا ، لیکن اگر اس سلسلے میں پائے جانے والے ابہام بھی دور کر دیے جائیں، تو رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کا حجم کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اس وقت ہمارے ملک میں ایک کروڑ سے ایک کروڑ 20لاکھ گھروں کی کمی ہے اور اس وقت ایک گھر کی قیمت تقریباً 25لاکھ روپے ہے۔ یعنی اس وقت ملک میں 210ارب ڈالرز کا حجم رکھنے والی انڈسٹری موجود ہے۔ تعمیراتی سرگرمیاں بڑھنے سے رئیل سیکٹر سے جڑی دیگر صنعتوں کا پہیہ بھی چلنے لگے گا، ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور کچی آبادیوں کا خاتمہ ہو گا۔ اس وقت کراچی کی 50فی صد آبادی کچی آبادیوں میں مقیم ہے اور پورے پاکستان کی 40فی صد آبادی۔ یہ صورتحال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں ان آبادیوں میں رہنے والے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہو گا اور انہیں تعلیم و صحت جیسی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔

جنگ :کیا آباد نے اس حوالے سے حکومت کے سامنے کوئی اسکیم پیش کی ہے؟

محسن شیخانی :ہم نے کئی برس تک وفاقی حکومت، اسٹیٹ بینک، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ایک اسکیم پر کام کیا، لیکن آخر میں پتہ چلا کہ یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے اور اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یعنی ایک طویل عرصے تک مذاکرات جاری رہے اور کسی کو اس بارے میں علم ہی نہیں تھا۔ حکومت لاکھوں گھر بنانے کے دعوے کرتی ہے، لیکن اسے کوئی علم ہی نہیں ہوتا اور اس کا سبب یہ ہے کہ متعلقہ ماہرین سے مشاورت ہی نہیں کی جاتی اور غیر متعلقہ افراد کو آگے لایا جاتا ہے، جو فائدہ پہنچانے کے بہ جائے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں ایک مارگیج کمپنی بنا کر ڈیولپرز کے لیے کم قیمت کے مکانات کی ایک اچھی پالیسی تشکیل دی ہے، جو ابھی آخری مراحل میں ہے۔ اس پالیسی کے تحت اگر کوئی فرد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 50فی صد قرضہ لے گا، تو اسے اس پر صرف ایک فی صد سود ادا کرنا پڑے گا اور یوں عام افراد کو 8فی صد پر اپنا گھر مل جائے گا۔ ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ یہ گھر 21لاکھ روپے کا ہونا چاہیے۔

جنگ:کیا اس سلسلے میں آپ کو صوبائی حکومت کی معاونت حاصل ہے؟

محسن شیخانی :ہم نہیں چاہتے کہ اس معاملے میں حکومت شامل ہو اور ہم خود ہی زمین خریدیں گے۔ دراصل، حکومت اور کرپشن لازم و ملزوم بن چکے ہیں اور ہم عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

جنگ:آپ نے بجٹ کے لیے کیا تجاویز دی ہیں؟

محسن شیخانی :ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ مقامی صنعتوں سے ریگولیٹری ڈیوٹیز ختم کی جائیں اور ہماری لاگت کو کم کیا جائے۔ اس وقت سیمنٹ کی ایک بوری 300سے 350روپے میں برآمد کی جارہی ہے، جب کہ ملک میں اس کی قیمت 575روپے ہے۔ اسی طرح اگر اسٹیل پر آر ڈی اور اے آر ڈی نہ ہو، تو درآمد کرنے پر یہ 70ہزار روپے فی ٹن پڑتا ہے، لیکن اس وقت اس کی قیمت90ہزار روپے ٹن ہے۔ اسی طرح ہم نے ایک ہائوسنگ اسکیم لانے اور ایک ریگولیٹری باڈی تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔ ایک ایسی ریگولیٹری باڈی، جو پورے کو دیکھے۔ پھر ون ونڈو آپریشن بھی ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے شہر میں ہائی رائز تعمیر نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، مگر واٹر ٹینکرز تو پورے شہر میں پانی سپلائی فراہم کر رہے ہیں، تو پھر پانی کی قلت کیسی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ متعلقہ ادارے درست انداز میں کام نہیں کر رہے اور پانی کی مساوی تقسیم نہیں ہو رہی۔ اگر ایک ادارے میں 10کی جگہ 50افراد کو بھرتی کر لیا جائے، تو وہ ادارہ کیسے کام کرے گا۔ ہم نے فکس ٹیکس کی تجویز بھی دی تھی، جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ اب مڈل مین کا کردار ختم کرنا ہو گا۔ ہم ایف بی آر کے بکھیڑوں ہی میں پڑے رہتے ہیں اور اپنے کام پر توجہ نہیں دے پاتے۔

جنگ:جب موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی تھی، تو اس نے پرو بزنس بجٹ کی اصطلاح استعمال کی تھی، تو موجودہ حکومت گزشتہ پانچ برس کے دوران کتنی پرو بزنس رہی؟ اس پر روشنی ڈالیے۔ پھر آپ کو کچھ تحفظات بھی تھے اور آپ نے تجاویز بھی دی تھیں، تو ان پر کتنا عملدرآمد ہوا؟ نیز، ری فنڈز کا مسئلہ حل ہوا یا نہیں اور اس وقت انڈسٹری کی کیا صورتحال ہے؟

زکریا عثمان:میں ہمیشہ یہ کہتا آیا ہوں کہ ہماری حکومتیں ریونیو بیسڈ بجٹ بناتی ہیں اور ایسا بجٹ کبھی کامیاب نہیں ہوتا، جب کہ دیگر ممالک میں اقتصادیات پر مبنی بجٹ بنائے جاتے ہیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ اگرچہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر تنقید کی جا رہی ہے، لیکن میں اسے ایک اچھی پیش رفت قرار دیتا ہوں اور ہمیں اسے سراہنا چاہیے۔ یعنی اب ہم کم از کم ایک نظام میں تو شامل ہو رہے ہیں اور چلتے چلتے اپنی منزل تک پہنچ ہی جائیں گے۔ میں نے شیڈو بجٹ میں یہ تجویز دی تھی کہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر ہی این ٹی این ہونا چاہیے، جس پر عمل کیا گیا ۔ دوسری تجویز یہ دی تھی کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ٹیکس کی شرح کم کرنا ہو گی اور اس پر بھی عمل کیا گیا ہے۔ اسی طرح میں نے ٹیکس وصولی کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجویز دی تھی اور اس پر بھی عملدرآمد کیا گیا ہے۔ البتہ جب ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا جا رہا تھا، تو میں نے اس کی مخالف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے صنعت کاروں کی مشکلات بڑھیں گی اور ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کر کے اشیا کو مہنگا نہ کیا جائے۔ صنعت کاروں کو خام مال درآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور مثال کے طور پر اگر حکومت کو اس مد میں 40روپے ملتے ہیں، تو اس میں سے نصف ایکسپورٹرز کو دیے جائیں، تو اس طرح اس کی لاگت کم ہو جائے گی۔ یوں درآمدات بھی جاری رہیں گی اور برآمدات بھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھنے سے برآمدات کا سلسلہ رک جائے گا۔ اسی طرح یوٹیلیٹی کے مسائل بھی حل نہیں ہو رہے۔ ہم سے کہا گیا تھا کہ آپ کو 2018ء میں یوٹیلیٹی ملے گی، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس دام میں ملے گی اور یہ میری لاگت اور مسابقتی ممالک کے مطابق ہو گی یا نہیں۔ اب ہمیں بجلی، گیس تو ملی نہیں، البتہ کے ای اور ایس ایس جی سی کے درمیان ایک تنازع شروع ہو گیا، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو یہ تنازع ختم کروانا ہو گا۔ اب جہاں تک انڈسٹریلائزیشن کی بات ہے، تو 1970ء کی دہائی کے بعد سے لمیٹڈ کمپنیز اور بڑی صنعتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اسی طرح ایس ایم ایز کو فروغ نہیں دیا گیا، حالانکہ جنوبی کوریا نے ہماری صنعتی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ تصور اپنایا تھا۔ اب جب صنعتوں کو فروغ ہی نہیں ملے گا، تو ملکی پیداوار میں کیسے اضافہ ہو گا اور ملک میں تبدیلی کیسے رونما ہو گی۔

معیشت مشکل میں

جنگ :پھر ملک میں بے روزگاری بھی بڑھتی جا رہی ہے؟

زکریا عثمان :جی بالکل۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ ہی سے نوجوان جرائم کی جانب راغب ہوتے ہیں، لیکن اگر حکومت انہیں روزگار فراہم کرے اور ان کی ضروریات پوری کرے، تو وہ کبھی بھی کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔

جنگ :اس وقت میں نئی سرمایہ کاری اور نئی صنعتوں کی کیا صورتحال ہے؟

زکریا عثمان:ایوب خان نے اپنے دورِ حکومت میں ایک پنج سالہ منصوبہ بنایا تھا اور پھر 1958ء سے 1968ء تک ملک میں صنعتوں کو جو فروغ ملا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے یہ سب منصوبہ بندی کے تحت کیا تھا اور اس وقت بھی اسی دور میں قائم کی گئی صنعتیں چل رہی ہیں۔ اسی طرح ویلیو ایڈیشن پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور ایک برانڈ بنانے میں 50برس کا عرصہ گزر گیا۔ اس وقت ملک میں کہیں بھی نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں، بلکہ ہمارے شعبے میں تو پرانی صنعتیں بھی گودام میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ آج صنعت کاروں کی لاگت ہی اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ مصنوعات تیار اور انہیں برآمد کرنے کے بہ جائے اپنی انڈسٹریز بند کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت نے صنعت کاروں کو نہ کوئی مراعات دیں اور نہ ہی نئے انڈسٹریل زونز قائم کیے۔ کسی صنعت کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں تین سے پانچ برس لگتے ہیں اور یہاں تو ہر روز ہی نئے نئے ایس آر اوز جاری کردیے جاتے ہیں، حالانکہ ایک طویل المدت صنعتی پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ بیرونِ ملک صرف کالا دھن منتقل نہیں ہوا، بلکہ لوگوں نے خوف کے مارے اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کیا۔ آپ ڈالرز کی بات کرتے ہیں، ہم نے تو خوف سے اپنے بچے بھی بیرونِ ملک بھیج دیے۔ اب حالات ٹھیک ہونے کے بعد اگر کوئی ملک میں آنا چاہتا ہے، تو ہمیں اسے سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ پھر اس ایمنسٹی اسکیم سے پاکستانی تارکینِ وطن بھی سکھ کا سانس لیں گے اور بیرونِ ملک یہ بتا کر اپنے بینک اکائونٹس کھول سکیں کہ انہوں نے اپنی آمدن پر ملک میں ٹیکس ادا کر دیا ہے۔

جنگ:ماضی میں برآمدات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا بہت بڑا حصہ رہا ہے، جو اب بہ تدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے آپ کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے روپے کی قدر کم کر دی ہے، تو کیا اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو سہارا ملے گا؟ نیز، اس وقت ٹیکسٹائل سیکٹر کی کیا صورتحال ہے؟

شبیر احمد :ہم نے کبھی بھی روپے کی قدر کم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، بلکہ ہم نے روپے کی قدر کو حقیقت پسندانہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ روپے کی قدر کم کرنے سے صرف ایک مرتبہ ہی فائدہ ہوتا ہے، لیکن پھر افراطِ زر اور مہنگائی میں اضافے سے بار بار کا نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اس کی برآمدت سے چلتی ہے، کیوں کہ اس سے زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ برآمدات پر توجہ نہ دینے ہی کی وجہ سے ڈالر 117تک پہنچا ہے اور اسی وجہ سے سرمایہ داروں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو چھوڑ کر رئیل اسٹیٹ سمیت دوسرے شعبوں کا رخ کر لیا۔

جنگ:جب موجودہ حکومت آئی تھی، تو ہماری سالانہ ایکسپورٹ کا حجم 25ارب ڈالرز تھا، جو اس وقت کم ہو کر19 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے، تو اس کا کیا سبب ہے؟

شبیر احمد:دیگر ممالک میں برآمدت کنندگان کو حکومتیں مراعات دیتی ہیں، جب کہ ہمیں ہمارے ری فنڈز ہی نہیں دے جا رہے۔ ہم نے اپنے سپلائرز کو ادائیگیاں کرنی ہیں، جو ہم نہیں کر پا رہے، جس کی وجہ سے وہ سپلائی روک دیتے ہیں، تو ایسے میں ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔ پھر درآمدات پر ڈیوٹیز عاید ہونے کی وجہ سے مصنوعات پر آنے والی لاگت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کو ایس ایم ای سیکٹر کو سہارا دینا ہو گا اوراس سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ غیر ملکی خریدار بین الاقوامی قوانین سے مطابقت پیدا کرنے کی صورت ہی میں آرڈرز دیتے ہیں، جو ہم ناکافی سہولتوں کے باعث نہیں کر پا رہے۔ نتیجتاً ہماری انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے۔ پھر متعلقہ سرکاری ادارے بھی انسپکشن کے نام پر ہمارے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، تو ایسے میں پیداوار تو کم ہو گی۔ ایسی صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ٹیکسٹائل سیکٹر میں بہتری لانی ہے اور ایکسپورٹس کو بڑھانا ہے، تو حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔

جنگ:حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کی بہتری کے لیے ٹیکسٹائل کی وزارت بھی قائم کی تھی۔ اس کا کوئی فائدہ ہوا؟

شبیر احمد :اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ اگر صرف کامرس کی وزارت ہی رہتی، تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ اب ہم ٹیکسٹائل منسٹری میں جاتے ہیں، تو وہ کامرس منسٹری کی طرف بھیج دیتے ہیں اور کامرس منسٹری والے دوسرے سرکاری اداروں کی طرف بھیج دیتے ہیں۔ اب میں ایمنسٹی اسکیم کی بات کروں گا۔ اگرچہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، لیکن جب تک سارے معاملات واضح نہیں ہوتے، ملک میں سرمایہ واپس نہیں آئے گا۔ لوگوں نے سب سے پہلے نیشنلائزیشن کے زمانے میں اپنا پیسہ بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کیا۔ دوسری مرتبہ ڈالر اکائونٹس منجمد کرنے کے نتیجے میں یہ نوبت آئی۔ یعنی ملک میں پائی جانے والی بے یقینی کی وجہ سے پاکستانیوں نے اپنا سرمایہ باہر بھیجا۔ پھر سرمائے کی منتقلی کے رجحان کو اس وجہ سے بھی تقویت ملتی ہے کہ دوسرے ممالک میں ٹیکس ادائیگی کے بدلے میںسہولتیں بھی ملتی ہیں، جب کہ ہمارے ملک میں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ حکومت نے ٹیکس کی رقم کہاں خرچ کی۔

جنگ :کیا ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ میں بہتری کے امکانات ہیں اور پھر ویسے بھی ہم فنش گڈز سے زیادہ کاٹن جیسا خام مال ہی زیادہ برآمد کرتے ہیں؟

شبیر احمد :اب بھی کاٹن کی ایکسپورٹ ہو رہی ہے، لیکن اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کے معاملے میں بنگلادیش ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ وہ کاٹن درآمد کر کے اپنی ٹیکسٹائل منصوعات برآمد کر رہا ہے۔ اس وقت بھی ٹیکسٹائل سیکٹر میں بہت زیادہ مواقع پوشیدہ ہیں اور ملکی برآمدات میں اضافے کے لیےحکومت کواس شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری ایکسپورٹس میں اضافہ نہیں ہوتا، تو ایک مرتبہ پھر روپے کی قدر میں گراوٹ دیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

جنگ: آیندہ بجٹ کے لیے کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟

شبیر احمد :میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کرے، کیوں کہ اس سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہمیں ہمارے ری فنڈز ادا کرے۔

جنگ :حکومت ری فنڈز دینے کے وعدے تو کرتی رہی ہے۔ بہر کیف، اس وقت کتنا ری فنڈ ادا کرنا ہے؟

شبیر احمد :جی بالکل۔ سابق وزیرِ خزانہ، اسحٰق ڈار نے کئی مرتبہ وعدہ کیا اور ہمیں یہاں تک کہا گیا کہ چیک تیار ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک ری فنڈز نہیں ملے اور رقم تقریباً 300سے 400ارب بنتی ہے۔ افراطِ زر اور مہنگائی کی وجہ سے لاگت بڑھنے کے نتیجے میں ہم صنعت کاروں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ اگر حکومت کو ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے، تو اسے ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دینی ہو گی۔

احمد رضا :شبیر احمد صاحب کا کہنا ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ دن بہ دن گر رہی ہے، لیکن اچھی حکومت تو اسی صورت ہی آئے گی کہ جب عوام اچھے نمایندوں کا انتخاب کریں گے اور تعلیم کی کمی کے باعث وہ یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ لہٰذا جب تک عوام تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے اور ان میں شعور نہیں ہو گا، تو وہ کیسے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے۔ اس کے لیے ہمیں تعلیم کے شعبے پر توجہ دینی ہو گی۔

شبیر احمد:آپ کی بات بالکل درست ہے۔ حکومت نے صنعت کاروں کے فنڈ ہی سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے، لیکن یہ فنڈ جدید تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بہ جائے وزارت کے اخراجات پورے کرنے ہی میں خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ یعنی حکومت ہمارا پیسہ خود پر خرچ کر رہی ہے، لیکن جب تک تعلیم کو فروغ نہیں دیا جاتا، ملک ترقی نہیں کرے گا۔

شاہانہ عروج کاظمی :یہاں نئی انڈسٹریز لگانے کی بات کی گئی ہے، تو میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس وقت پوری دنیا میں میڈیکل ٹیکسٹائل انڈسٹری ڈیولپ ہو رہی ہے، جو تمام اسپتالوں اور طب کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کی ضروریات پوری کرتی ہے، تو کیا ہمارے ملک میں بھی اس حوالے سے کوئی کام ہو رہا ہے؟

شبیر احمد :یہاں بھی سرجیکل ٹیکسٹائل آئٹم تیار ہو رہے ہیں، لیکن ہمارا کسٹم کا عملہ چھان بین کے دوران اُن کے ساتھ جو حال کرتا ہے، اس کے بعد بیرونِ ملک کوئی بھی انہیں لینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر منور :اس وقت ٹیکنیکل ٹیکسٹائل کا بھی خاصا اسکوپ ہے اور بھارت اس شعبے میں بہت ترقی کر رہا ہے، تو ہم اس طرف توجہ کیوں نہیں دے رہے؟

زکریا عثمان:پاکستان میں اس شعبے کو اسکوپ اس لیے نہیں ہے کہ یہاں کبھی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ آج بھی ملک میں ٹیکنیشنز کی قلت ہے۔ میرا تعلق پلاسٹک انڈسٹری سے ہے اور ہمیں نہ ٹیکنیشن مل رہے ہیں اور نہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے۔ اس وقت ایشین ٹائیگرز روایتی ٹیکنالوجی کا گڑھ ہیں اور یہی ان کی ترقی کا سبب ہے، جب کہ سائٹ کے علاقے میں ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم ہے، جہاں بجلی ہے اور نہ گیس اور پانی۔ 1960ء کی دہائی میں ملز میںٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے فارغ التحصیل طلبا ہی کو بھرتی کیا جاتا تھا، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے، جب کہ اس کے برعکس ملائیشیا اور تائیوان وغیرہ میں گلی کوچوں میں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس قائم ہیں۔ ہم ’’بابو‘‘ تو پیدا کر رہے ہیں، لیکن ٹیکنیشنز نہیں۔

جنگ: لیکن یہ ادارے تو ایف پی سی سی آئی بھی قائم کر سکتی ہے اور صرف حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا؟

زکریا عثمان :ہم نے ملیر میں ایک ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے، جس میں 7سے8ہزار طلبا زیرِ تعلیم ہیں، مگر حکومت کو بھی تو ہماری مدد کرنی چاہیے، کیوں کہ جب ان اداروں کا حجم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، تو انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں یہاں ایک اہم بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی درآمدات کا کوئی متبادل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ دنیا بھر میں یہ کہا جاتا ہے کہ پیسہ کمانا مشکل ہے، لیکن بچانا آسان ہے۔ سو، جب متبادل ذرایع پیدا ہو جائیں گے، تو درآمدات خود بہ خود ختم ہو جائیں گی۔ یعنی، ہمیں متبادل ذرایع پر کام کرنا چاہیے، جو ابھی تک نہیں کیا گیا۔

جنگ :پچھلے دنوں درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح بڑھائی گئی، تو کیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑا؟

زکریا عثمان :میں پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ حکومت کو آر ڈی ختم کرنا ہو گا اور لاگت کم کرنے کے لیے صنعت کاروں کی مدد کرنا ہو گی۔

شبیر احمد: میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم فوڈ آئٹمز درآمد کر کے اپنا زر مبادلہ ضایع کر رہے ہیں۔

زکریا عثمان:ہمیں پیکیجنگ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے۔ حکومت نے شاہراہوں کا جال بچھا کر اچھا کام کیا ہے اور میں اسے سراہتا ہوں۔ جرمنی نے اسی طرح ترقی کی۔ سڑکوں کی وجہ سے مال بہ آسانی منڈی تک پہنچتا ہے۔ آج کل ہر شخص پیکیجنگ دیکھ کر ہی چیز خریدتا ہے، لیکن ہم نے پیکیجنگ پر کوئی توجہ نہیں دی اور اسی لیے ہماری ایکسپورٹ نہیں ہوتی۔ شبیر احمد کی بات درست ہے کہ کسٹم حکام پیکیجنگ کو کھول دیتے ہیں اور میں نے اس بارے میں اعلیٰ حکام سے بات کی ہے۔

جنگ: حکومت نے ایکسپورٹ سیکٹر کو ’’زیرو ریٹڈ‘‘ کر دیا تھا۔ کیا اس کے مثبت اثرات سامنے آئے؟

زکریا عثمان: بات دراصل یہ ہے کہ حکومت افراتفری میں ایک پالیسی بناتی ہے اور پھر اس پر عملدرآمد میں اتنی تاخیر کر دی جاتی ہے کہ اس کے ثمر بار نتائج ہی نہیں نکلتے۔

شاہانہ عروج کاظمی: پاکستان ایک زرعی ملک ہے، تو ہم اپنی زرعی مصنوعات برآمد کیوں نہیں کرتے اور اس کے برعکس پھل درآمد کر کے اپنا قیمتی زر مبادلہ ضایع کر رہے ہیں؟

زکریا عثمان:اس وقت حلال انڈسٹری جیسی ایک بڑی صنعت فروغ پزیر ہے، لیکن اندرون سندھ اگر کوئی کیٹل فارمنگ کرے، تو چور بھینسیں تک لے جاتے ہیں اور پھر پولیس کہتی ہے کہ جب مسروقہ بھینس پر کسی کا نام نہیں لکھا، تو ہم اس تک کیسے پہنچیں۔ اس وقت برائلر چکن پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں، جب کہ میرا ماننا ہے کہ پولٹری فارم سے اچھا کوئی بزنس ہی نہیں ہے۔ اس وقت اسمبلی میں 70فی صد زراعت سے وابستہ لوگ بیٹھے ہیں اور زراعت پر ٹیکس لگانا چاہیے۔

جنگ:کراچی کی بڑھتی آبادی کے پیشِ نظر ہر سال مکانات کی طلب میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے اور کیا آپ نے اس حوالے سے کوئی اسٹڈی کی ہے؟

محسن شیخانی:کراچی میں ہر سال اوسطاً8لاکھ افرا د کا اضافہ ہو رہا ہے، جن میں سے صرف نصف کو اپنی رہائش ملتی ہے۔ دراصل، شہریوں کی قوتِ خرید ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اچھے علاقے میں مکان خرید سکیں اور مجبوراً انہیں کچی آبادیوں میں رہنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ہائوسنگ انڈسٹری پر توجہ دیں، تو یہ 180ارب روپے کی انڈسٹری ہے۔ میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ حکومت جن اداروں اور افراد سے ٹیکس وصول کرتی ہے، انہیں اعتماد میں لے کر ان کے مسائل حل کرے اور مڈل مین کا کردار ختم کر کے سسٹم کو آن لائن کر دے۔ اگر سسٹم کو آن لائن کر دیا جائے، تو 4ہزار ارب روپے کی کرپشن ختم ہو جائے گی۔ پچھلے سال جب ٹیکس سسٹم آن لائن ہوا تھا، تو ہم نے مقررہ مدت سے پہلے ہی اپنے سیکٹر کا ٹیکس جمع کروا دیا تھا، کیوں کہ ہمیں یقین تھا کہ یہ ٹیکس حکومت کے پاس جا رہا ہے، لیکن جب یہ آن لائن سسٹم ختم کر دیا گیا، تو ہم نے ایف بی آر کے پاس جانا چھوڑ دیا۔ اسی طرح ہمارے ری فنڈز دیے جائیں، جو ہمارا حق ہے اور اسی صورت ایکسپورٹ انڈسٹری کو عروج ملے گا اور ہماری برآمدات میں 10گنا اضافہ ہو گا۔

جنگ :کیا ہائوسنگ انڈسٹری پر سی پیک کے اثرات مرتب ہوں گے؟

محسن شیخانی: جی یقیناً اثرات مرتب ہوں گے اور میں ان قیاس آرائیوں کو بالکل مسترد کرتا ہوں کہ اس منصوبے کی وجہ سے غیر ملکی پاکستانی معیشت پر قابض ہو جائیں گے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ پھر ہمارا میڈیا جس انداز میں دنیا کے سامنے پاکستان کا منفی چہرہ پیش کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان نہیں آئے گا۔

جنگ :اس وقت بینک کتنی شرحِ سود پر قرضے فراہم کر رہا ہے؟

زکریا عثمان: اگر کسی ادارے کی ساکھ اچھی ہے اور اس کے تعلقات بھی ہیں، تو اسے 8فی صد شرحِ سود پر قرضے ملتے ہیں۔ بہ صورتِ دیگر 9.5فی صد پر۔

جنگ:آپ شرحِ سود کتنی رکھنے کی تجویز دیں گے؟

زکریا عثمان:اس بی ایم آر کے لیے 4.5فی صد شرحِ سود رکھی گئی ہے، لیکن صرف مخصوص افراد کے لیے، جب کہ میرا ماننا ہے کہ ہمیں چھوٹے آدمی کو بڑا کرنا چاہیے۔ یہاں بڑی مچھلیوں ہی کو نوازا جا رہی ہے اور ان کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے، حالاں کہ ہمیں وینڈرز کو مراعات دینی چاہئیں۔

جنگ :مستقبل میں پاکستان کا شمار درآمد کنندہ ملک کے طور پر ہو گا یا برآمد کنندہ ملک کی حیثیت سے؟

زکریا عثمان :اگر ہم نے کوئی سسٹم نہ بنایا، تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ یعنی برآمدات گھٹتی اور درآمدات بڑھتی رہیں گی۔ ہم ’’ایگرو بیسڈ‘‘ ملک ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اپنی زراعت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی صنعت کا فروغ دینا چاہیے۔ حکومت کو درآمدات پر سے ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹا کر صنعت کاروں کی مالی مدد کرنی چاہیے اور دیگر سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں۔ اسی طرح ہم پر بوجھ کم ہو گا، برآمدات بڑھیں گی اور یہ ملک ترقی کرے گا۔

تازہ ترین