• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زکوٹا جن اور بل بتوری کہاں گئے؟

مجھے کام بتائو ، میں کیا کروں، میں کس کو کھائوں؟ ایک ایسا مشہور ڈائیلاگ جو ایک فنکار کی زندگی کی تلخ حقیقت بن گیا۔ ایک ایسا وقت آگیا جب نہ اس کے پاس کام تھا، نہ کچھ کرنے کو تھا اور نہ ہی کچھ کھانے کے لئے۔۔ 90ء کی دہائی میں پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا مشہور ڈرامہ سیریل ’’عینک والا جن‘‘ کے کرداروں سے کون واقف نہیں۔نستور جن، زکوٹا، حامون جادوگر اور بل بتوڑی کے کرداروں نے ذہنوں میں ان مٹ نقوش چھوڑے۔ بچے اس جنون اور جادوگروں پر مشتمل ڈرامے کو بہت شوق سے دیکھتے تھے جو ایک طلسماتی دنیا کی عکاسی کرتا تھا۔

عینک والا جن پاکستانی تاریخ کا سب سے کامیاب ڈرامہ رہا۔اور اس کے کرداروں کی مقبولیت کا اندازہ یہاں سے لگالینا چاہئے کہموجودہ ونڈر لینڈز کے بھوت بنگلوں میں آج بھی بل بتوڑی اور زکوٹا جن کی آوازوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول اس ڈرامہ میں مرکزی کردا ادا کرنے والے اداکار منا لاہوری جنہیں “زکوٹا “ کے نام سے شہرت ملی، آج ہم میں نہیں رہے۔ منا لاہوری کا اصل نام مطلوب الرحمان تھا۔ان کی 3 بیٹیاں اور3 بیٹے ہیں۔جن میں سے دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے جبکہ باقی چار ابھی زیرکفالت ہیں۔وہ کئی برس سے تنگدستی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ، قوت گویائی شدید متاثر ہوئی، جو اتنی اونچی آواز میں منتر پڑتا تھا، ایک وقت میں اس کی آواز مدھم ہوگئ۔ انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ حکومت سے اپیل کی کہ علاج معالجہ کے حوالے سے ان کی مدد کی جائے مگر حکومتی عدم توجہی کے باعث وہ ایڑیاں رگڑ تے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 

یاد رہے کہ گوجرانوالہ میں سٹیج ڈرامے کے دوران منا لاہوری پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہوگیاتھا ، جس کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں پاتے تھے۔وہ کافی عرصے سے میو ہسپتال لاہور میں زیر علاج تھےلیکن بد قسمتی سے وہ صحت یاب نہ ہوسکے اور جمعہ کی شام اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

پاکستان میں فنکاروں کو ان کٹھن مراحل اور منفی رویوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک طویل عرصہ گزر گیاہے۔ہمارے آرٹسٹ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں اپنی جان سے ہی گزر جاتے ہیں۔جو ہمارے اندر جینے کی امنگ پیدا کرنے آتے ہیں ،وہ خود مر جاتے ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فنکار کی اس طرح عزت اور قدر نہیں کی جاتی جس طرح باقی ممالک میں کی جاتی ہے ۔وہاں انہیں ایسا مقام دیا جاتا ہے کہ انہیں اپنے فن پر فخر ہوتا ہے۔ وہ ریاست محبت اور تہذیب سے دور ہوتی ہے جہاں بڑھاپے میں فنکار رسوا ہوتے نظر آتے ہیں۔ 

ہمارے ہاں فنکار کو اس کے عروج کے بعدایسا زوال دکھایا جاتا ہے کہ وہ غربت اور بیماری کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہسپتالوں، سڑکوں اور درباروں کو اپنی باقی زندگی کی پناہ گاہ بنا لیتے ہیں۔

منا لاہوری کی عمر 68 برس تھی۔ انھیں نوے کی دہائی میں پی ٹی وی لاہور سینٹر سے نشر ہونے والے بچوں کے ٹی وی ڈرامہ ’عینک والا جن‘ کے کردار زکوٹا جن سے شہرت ملی اور ان کا ایک ڈائیلاگ ’مجھے کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں‘ زبان زد عام ہوا۔منا لاہوری ٹی وی کے علاوہ تھیٹر میں بھی اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے۔انہوں نے اپنے چالیس سال ٹی وی اور سٹیج کی خدمت میں گزارے۔ 

الحمرا آرٹس کونسل میں بھی کئی ڈراموں میں کام کرتے رہےلیکن انہیں بہت کم پیسے دئے جاتے تھے جس میں ان کا گزارہ مشکل ہوتا تھا۔اپنی اداکاری اور ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے منفرد مقام رکھنے والے اس فنکار پر بیماری کا ایسا حملہ ہوا کہ وہ کئی برس تک فن کا مظاہرہ نہ کرسکے اور مالی حالات بھی ایسے خراب ہوئے کہ مدد کی اپیل کرتے رہے۔ حکومت کی طرف سے فنکاروں کے لئے قائم کئے جانے والے فنڈ کو بھی بند کردیا گیا۔

پنجاب آرٹس کونسل میں 16شو منعقد کئے جاتے ہیں جس میں سے 15شوز کے پیسے پروڈیوسر کو جاتے ہیں جبکہ ایک شو کے پیسے بوڑھے فنکاروں کے لئے مختص کردیئے جاتے ہیں۔ ہر فن کار اپنا حصہ تو دیتا ہے لیکن ضرورت مند اور بوڑھے فنکاروں کو تب پیسے ملتے ہیں جب دو چار بڑے فنکاروں کی سفارش ہوتی ہے۔

موت تو برحق اور بے درد ہے۔ پوچھتی بھی نہیں کہ کس کو کھاؤں؟ جس جس کو کھانا ہوتا ہے بنا پوچھے خاموشی سے آتی ہے اور کسی کو بھی لے کے چلتی بنتی ہے۔ موت کے آگے کس کا زور ہے لیکن زکوٹا جن کی موت نے ایک سوال پھر سے کھڑا کر دیا کہ آ خر فنکار اتنی کسمپرسی میں کیوں مرتے ہیں؟ اس سال منا لاہوری ہم سے بچھڑ گئے،پچھلے سال نصرت آرا عرف 'بل بتوڑی بھی انتہائی غربت میں زندگی کے آ خری دن کاٹ کر گزر گئیں۔ 

نسطور جن کا کردار ادا کرنے والے اداکار کے بارے میں بھی کچھ اچھی خبریں نہ سنیں۔ کس کس کا نام گنواؤں؟ ہزاروں شاعر، گلو کار، موسیقار اور فنکار اسی طرح علاج معالجے کے لئے غربت و افلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر یا ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا مرجاتے ہیںاور پھر ان کی موت پر سوگوار ہوا جاتا ہے اور کچھ الفاظ ادا کر کے انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

جگ دی اے ریت وکھری

ٹنگ انوکھے چال دے نیں

جیوندیاں دی کوئی بات نہیں پچھدا

قبراں تے دیوے بالدے نیں

فنکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں اس لیے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ اس معاشرے کے لوگ کہیں اپنی زندگیوں کی بے رنگی سے تنگ آ کر مر ہی نہ جائیںلیکن ہماری بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے والے یہ لوگ خود مرجاتے ہیں۔جو انسان اپنا اصل چھوڑ کر ہمیں ہنسانے اور ہمیں زندگی کا مطلب سمجھانے کے لئے کسی بھی کردار میں ڈھل جاتے ہیں، آج ان کرداروں کا کیا ہوا؟ ہمارے چہرے پر ہنسی لانے والے فنکار آج کہاں گئے۔ آہ! وہ ہمیں چھوڑ گئے اور افسوس یہ کہ ان کے اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے ہم نے انہیں چھوڑ دیا اور آج ان کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد ہمیں ان کا نام لینا یاد آگیا۔

گزشتہ سال عینک والا جن کی ایک اور اداکارہ جنہوں نے اپنی اداکاری سے نہ صرف بچوں میں مقبولیت حاصل کی بلکہ ہر عمر اور نسل سے تعلق رکھنے والے انسان نے ان کے اس کردار کواتنا پسند کیا کہ وہ ’’بل بتوڑی‘‘ کے نام سے مقبول ہو گئیں۔نصرت آرا عرف بل بتوڑی نے 18سال کی عمر میں تھیٹر سے کام شروع کیا۔ اسٹیج ڈرامہ ’’کیوں ایسا ویسا‘‘ سے کام شروع کیا جس کے ڈائریکٹر رشید اختر تھے۔ اس کے بعد ’’آمنا سامنا‘‘ میں کردار اداکیا جس میں نصرت آرا بیگم نے مراسن کا رول ادا کیا۔ 

جس کے بعد ان کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ڈیڑھ سال تک مشہور ڈرامہ سیریل الف لیلا میں کام کیا۔ اشفاق احمد کے ڈراموں میں بھی انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو چار عشرے دئیے۔ بل بتوڑی کا پہلا ڈرامہ’’ جوگ سیال‘‘ تھا جس میں انہوں نے ’’لال خالہ‘‘ کا کردار ادا کیا۔انہیں سٹیج پلے ’’جن اور جادوگر‘‘ میں بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔کامیابی کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے ان پر انڈسٹری کے دروازے بند کر دئیے گئے۔اس کے بعد ان کے مالی حالات خراب ہوتے گئے اور ان حالات کا ان پر اتنا دبائو تھا کہ وفات سے دو سال قبل انہیں فالج کا اٹیک ہوگیا اور گزشتہ سال دل کا دورہ پڑنے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملیں۔

اپنی وفات سے پہلےانہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ’’ بل بتوڑی کے ہٹ کریکٹر کے بعد لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگ گئی ہے تو ان لوگوں نے اس ڈرامے کے بعد مجھے رولز دینا بند کردیئے تاکہ میری ایگو توڑ سکیں۔ اس وقت مجھ پر انڈسٹری کے دروازے بند ہوگئے اور داتا صاحب کے دروازے کھل گئے۔‘‘

انہوں نے زندگی کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی میں گزارے۔ وہ کرائے کے دو کمروں کے گھر میں رہتی تھیں۔ حکومت سےایک گھر دینے کی اپیل کرتی رہیں۔ ان کے مالی حالات اتنے خراب ہوگئے کہ دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئیں۔ اپنا پیٹ بھرنے اور سانسیں جاری رکھنے کے لئے وہ درباروں اور مزاروں پر جا کر لنگروں سے کھانا کھا لیا کرتی تھیں۔ 

گھر میں چینی لانے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہ درباروں سے مکھانے لے آیا کرتی تھیں اور انہیں پیس کر چائے میں یا حلوہ بنانے کے لئے استعمال کرتی تھیں تاکہ مٹھاس آجائے۔ہمارے ملک میں ایسے ایسے لوگوں کو ایوارڈ مل جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہیں کہ انہیں کس بات پر ایوارڈ ملا ہے لیکن ہمارے ان فنکاروں کو کبھی ہمیں انٹرٹین کرنے کا ریوارڈ بھی نہیں ملا۔

فنکاروں کو خراج تحسین ان کی زندگی میں ہی ملنا چاہئے۔ مرنے کے بعد جو کچھ بھی ان سے متعلق کہا جاتا ہے یا کیا جاتا ہے، وہ خود ان کے کسی کام کا نہیںہوتا۔ہمارے ملک میں فنکاروں کے بڑھاپے اور ان کی بیماری میں لوگ تو ان سے دوری اختیار کر ہی لیتے ہیں، حکومت بھی نہیں پوچھتی۔ ان کی زندگی میں جب ان کو اپنی بیماری میں علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کی کوئی مدد کرنے کے لئے آگے نہیں بڑھتا اور جب ان کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں تو ان کے لواحقین کے لئے نقدی امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 

ایسا کیوں کرتے ہیں ہم؟ ہم کیوں اتنے بے حس ہوجاتے ہیں؟ اس بیماری، لاچاری اور غربت میں اگر حکومت کی جانب سے ان کی دواوٴں کا ہی خرچہ اٹھالیا جاتا تو وہ شاید زندگی کی کچھ اور خوشگوار بہاریں دیکھ لیتے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں فنکاروں کے رہنے کی جگہ نہیں۔ نہ تو حکومتی ادارے فنکاروں کی کسی طرح مدد کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس لوک ورثے کے مٹنے کا کچھ غم ہے ورنہ فنکار ہی ملک کا اصل لوک ورثہ ہوتے ہیں۔ ماضی میں یہی کچھ علن فقیر اور مہدی حسن جیسے بہت سے فنکاروں کے ساتھ ہوچکا ہےاور کچھ فنکار توایسے ہوتے ہیں جومجبور ہوکر دوسرے ممالک میں جا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ 

حیرت تو یہ ہے کہ اس پر پھر یہ پوچھا جاتا ہے کہ فنکار ملک چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں؟یہ نہیں پوچھا جاتا کہ یہ فنکار اپنے کام سے فارغ ہوکر بڑھاپے میں کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور سب اپنے اپنے معمول پہ لوٹ جاتے ہیں۔ زندگی رواں ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک اور خبر آ تی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین