محمد طارق نعما ن گڑنگی
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت حبیب رضی اللہ عنہ کو رسولِ اقدسﷺ نے مسیلمہ کذاب کے پاس اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ،تاکہ اسے راہ راست پر لایا جاسکے۔ اس بدبخت نے سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرلیا اور ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور ان سے پوچھا:''کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں'۔پھر اس نے پوچھا:
''کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں'۔انہوں نے کہا، میں بہرہ ہوں،میں سنتا نہیں۔ مسیلمہ کذاب نے یہ سوال بار بار کیا۔ ہر بار حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا تو اس بدبخت نے ایک ایک عضو کاٹ کر حضرت حبیب بن زید رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کو جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ رسول اقدسﷺ نے دلاسہ دیتے ہوئے اس خاندان کے لیے خیرو برکت کی دعا کی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب مسیلمہ کذاب سے نبردآزما ہونے کے لیے لشکر روانہ کیا تو اس میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریبا ًساٹھ برس تھی اور ان کے بیٹے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی ہمراہ تھے۔ اس معرکے میں حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا کا ایک بازو کٹ گیا۔ اس کے علاوہ تقریبا گیارہ زخم جسم پر لگے۔
مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے والوں میں حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے کٹے ہوئے ہاتھ کا علاج کرنے کے لیے تیل گرم کیا اور جلتے ہوئے تیل میں زخمی بازو کو داغ دیا، جس سے خون رک گیا۔ حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کو اپنے بازو کے کٹ جانے کا اتنا غم نہیں تھا ،جتنی خوشی مسیلمہ کذاب کے واصل جہنم ہونے کی تھی۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک روز بہت عمدہ چادریں ان کے پاس آئیں۔ ایک چادر بہت ہی عمدہ اور بڑے سائز کی تھی۔ ساتھیوںنے مشورہ دیا کہ یہ چادر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کو دے دی جائے تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ چادر اس خاتون کو دی جائے گی جو صفیہ ؓ سے کہیں بہتر ہے۔ میں نے اس خاتون کی تعریف رسول اقدسﷺ کی زبان مبارک سے سنی ہے۔ اس کے بعد یہ چادر حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کردی گئی۔
ایک روز حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے رسول اقدسﷺ کی خدمت میں عرض کیا، یارسول اللہﷺ!قرآن حکیم میں اکثرو بیش تر مردوں کا ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ عورتیں بے چاری محروم رہتی ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی:''بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، اللہ کے آگے جھکنے والے مرد اور اللہ کے آگے جھکنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقات دینے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔''
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا صحابیاتؓ میں اعلیٰ درجے پر فائز تھیں۔ غزوہ ٔاُحد میں جب گھمسان کی جنگ ہورہی تھی، رسول اللہﷺ نے حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا، ان کے خاوند اور دونوں بیٹوں کی جاں نثاری کا انداز دیکھتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:''اللہ تم پر رحم کرے اے خاندان'۔ام عمارہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ، دعا کیجئے کہ اللہ ہمیں جنت میں آپ کا ساتھ نصیب فرمادے تو آپﷺ نے یہ دعا کی:''الٰہی ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنادینا'۔اللہ ان سے راضی اور وہ اپنے اللہ سے راضی۔
سبحان اللہ ،اللہ اکبر یہ تھیں، وہ مبارک ہستیاں جن پہ عرش والے کو بھی ناز تھا اور انہیں دنیامیں ہی امام الانبیاء،سید المرسلین ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی زبان مبارک سے جنت کی بشارتیں سنادیں ۔اللہ پاک ہمیں بھی ان کے مبارک نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)