• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا باصلاحیت اساتذہ کے انتخاب میں ہم کامیاب ہوئے؟

کیا باصلاحیت اساتذہ کے انتخاب میں ہم کامیاب ہوئے؟

ایک اچھے استاد کے اچھے اثرات طالب علموں پر مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے تربیت کس طرح کی جائے اس کا کونسا راستہ درست ہے جسے اختیار کیا جائے۔ یہ رجحان اچھا ہے کہ اب لوگوں کی سوچ معیاری تعلیم پر مرکوز ہے اس بات کا کھلے عام اظہارہوتا ہے کہ جو تعلیم ہمارے بچوں کو دی جارہی ہے عام طور پر بہت خراب ہے اس خرابی کے لئے بہت سے ثبوت اور شواہد بھی پیش کرنے ہوں گے اور اس کاحل بھی نکالنا ہوگا۔

اساتذہ کا انتخاب کیسے کیا جائے

ایک تویہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ہم ابھی تک اچھے اور باصلاحیت اساتذہ کا انتخاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے لوگ جب تعلیم سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو وہ ٹیچر کے لئے درخواست دیتے ہیں، ہمارے پاس کوئی ادارہ ایسا نہیں جو یہ پرکھ سکے کہ ٹیچر بننے کے لئے کیا ضروریات ہیں اور تجربہ کتنا ہے؟ اس بات کی پروا نہیں کی جاتی کہ اچھے ٹیچر کے لوازمات کیاہونے چاہئیں۔ تعلیمی ادب سے پتا چلتا ہے کہ ایک ٹیچر کا تعلیمی پس منظر کیا ہے اور کس قسم کی سرٹیفیکشن ہے، یہ بات صرف نظر کی جاتی ہے کہ اچھے ٹیچرکے خواص کیا ہونے چاہئیں۔ 

کیا باصلاحیت اساتذہ کے انتخاب میں ہم کامیاب ہوئے؟

اس لئے ٹیچرکا معیار کبھی بہتر نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ ٹیسٹ لئے جاتے ہیں تعلیمی اسناد بھی دیکھی جاتی ہیں لیکن تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان ہے کیونکہ اس سلسلے میں کسی سطح پر کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ عبوری دور کے تین سال میں یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کون اچھا ٹیچر ہے کون نہیں۔ البتہ جو اچھے اساتذہ نہیں ہیں ان کو الگ کیا جاسکتا ہے معیاری تعلیم اور معیاری اساتذہ کا انتخاب آئندہ نسلوں کی ذہنی آب یاری کرتا ہے۔

عارضی اساتذہ کے لئے تین سال عبوری وقت مقرر کیا جائے

اب یہ ماہرین تعلیم کا کام ہے کہ اچھے ٹیچر کو ڈیفائن کریں اور ان کے لئے عارضی یا عبوری دور مقرر کیا جائے جس میں دیکھا جائے کہ آیا اساتذہ اچھے ٹیچر کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ خراب ٹیچر کو اس دوران الگ کیا جاسکتا ہے پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ جو اساتذہ PROBATIONARY کے لئے وقت لیتے ہیں ان کو نکالنا محدود سطح پر بھی مشکل ہوجاتا ہے پنجاب حکومت تو تین سال بعد ٹیچرز کو پکا کردیتی ہے۔ 

کسی کی کارکردگی نہیں دیکھی جاتی اس کے منفی اثرات طالب علموں پر پڑتے ہیں۔ اگر تین سال میں ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر حکومتوں کو چاہئے کہ کم از کم سرکاری اسکولوں کے لئے ٹیچر کی تربیت کے لئے چھ ماہ یا ایک سال کے لئے تربیت گاہیں بنائی جائیں۔ ٹیچر کی ٹریننگ بھی اتنا بڑا ثبوت نہیں کہ تربیت یافتہ اساتذہ اچھے ہوتے ہیں۔ پڑھانا اور کمٹمنٹ سے پڑھانا بھی آرٹ ہے۔ اس کا تعلق استاد شاگرد کے رشتے اور دونوں کے حصول علم سے لگن پر ہے۔

اساتذہ کی کسٹمائزڈ ٹریننگ

یہ بات تجربے میں آئی ہے کہ انفرادی طور پر اساتذہ کو کسٹمائزڈ ٹریننگ دی جائے تو اس کے اثرات مثبت مرتب ہوتے ہیں۔ جینرک ٹریننگ سے اچھے اساتذہ نہیں پیدا ہوتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح اساتذہ کی کسٹمائزڈ ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے۔ جب بہت بڑی تعداد میں اساتذہ کی ضرورت ہو۔ سرکاری شعبے میں پاکستان میں آٹھ لاکھ اساتذہ کی طلب ہے ان کی تربیت کیسے کی جائے۔ یا تو ایک معیار اچھے ٹیچرکا مقرر کیا جائے اور جہاں ضرورت ہو انفرادی سطح پر کسٹمائزڈ ٹریننگ دی جائے تو ایسا کرلیا جائے۔

اساتذہ کی روایتی تربیت

اب تک پاکستان میں روایتی تربیت دی جاتی ہے جسے جینرک بھی کہا جاتا ہے جب ٹیچر سرکاری اسکولوں میں مقرر کیا جاتا ہےتو ایک پروگرام کے تحت روایتی تربیت دی جاتی ہے۔ بعض اساتذہ قدرتی طور پر پڑھانے کی ذہانت سے واقف ہوتے ہیں یہ اساتذہ جنون کی حد تک پڑھانے میں فرحت محسوس کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد اب بہت کم ہوگئی ہے۔ روایتی تربیت یافتہ ہی مقبول رہی ہے اور سرکاری اسکولوں میں روایتی تربیت یافتہ اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔

صوبوں کا پروفیشنل ٹیچنگ پروگرام

مشاہدے میں آیا ہے کہ صوبوں میں پروفیشنل ٹیچنگ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جو ان کے عمر بھر کے کیرئیر میں وقتاً فوقتاً مذکورہ پروگرام پر عمل کیا جاتا رہے گا۔ یہ پروگرام بھی نوعیت کے اعتبار سے جینرک ہی ہوتے ہیں۔ کسی خاص مضمون کا ٹیچراپنے مضمون میں کمی کا شکار ہوتا ہے تو پروگرام کے تحت اس کمی کو تربیت کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے اس قسم کے پروگرام سالہا سال سے چل رہے ہیں۔ لیکن طالب علموں پر تعلیم کے حصول میں کوئی بہتر نتائج سامنے نہیں آسکے۔

پنجاب نے اسپیشلسٹ سسٹم کا اجراء کیا

حال ہی میں اساتذہ کی تربیت کے مسئلہ پر پنجاب حکومت نے اپنے اپنے مضمون میں اسپیشلسٹ ہونے کو تربیت کا مرکزی خیال بنادیا یہ کسٹمائزڈ پروگرام کی ایک بہتر شکل ہے۔ 20ہزار اپنے اپنے مضامین میں اسپیشلسٹ اساتذہ کی تقرری کا آغاز کیا گیا ہے۔

اسے اس لئے کسٹمائزڈ کیا جارہا ہے تاکہ ایکسپرٹس باالفاظ دیگر ماہرین تعلیم کو ٹیچرز کے قریب لایا جاسکے پروگرام بالکل نیا ہے لہٰذا اس کا فی الحال تجزیہ کرنا مشکل ہے کیونکہ ابھی جانچناہے اس لئے نتیجہ خیز نہیں ہوگا کیونکہ اس پروگرام کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے لیکن اس کےلئے بعض چیزوں کو نمایاں کرنا ضروری ہے۔ 

اسپیشلسٹ اساتذہ ٹیلنٹ پول سے تنخواہ پر لئے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ بہتر اور کم بہتر ہونے میں فرق ہوسکتا ہے، قائد اعظم اکیڈمی برائے ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ جو پنجاب کی ٹیچر ٹریننگ بھی کرتی ہے کئی خصوصی ماڈل تیار کررہی ہے، بعدازاں اسے اسپیشلسٹس اساتدہ کے ساتھ شیئر کیا جائے گا ماڈل مختلف ہوں گے اور اساتذہ پر منحصر ہے کہ وہ کون سے ماڈل کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس میں کسٹمائزیشن اور تعلیم کے معیار کے درمیان توازن رکھنا پڑے گا یہ ایک تجرباتی پروگرام ہے اور اس کو پرکھنے کے لئے وقت درکارہوگا، ابھی تیکنیکی پہلوئوں کو بھی دیکھنا ہے پھر اسے کوالٹی ایجوکیشن کے لئے پیش کرنا ہوگا۔ بعدازاں اس کے طالب علموں کی لرننگ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کو جانچنا پڑے گا۔

تازہ ترین