طبلے کی تھاپ، ہارموینم کی سماعتوں میں رس گھولنے والی دُھن، دل میں اتر جانے والا صُوفیانہ اور عارفانہ کلام اور لیونگ لیجنڈ صُوفی گلوکارہ عابدہ پروین کی میٹھی آواز، ان کا دل نشیں انداز، محفل میں رنگ جمادیتا ہے۔ صوفیانہ گائیکی کی ملکہ عابدہ پروین جب نغمہ سرا ہوتی ہیں تو محفل پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔ گائیکی کے ذریعے صُوفیانہ کلام کو عابدہ پروین نے دنیا بھر میں پھیلایا اور اب وہ استاد راحت فتح علی خان کے ساتھ مل کر مختلف ممالک میں صُوفی کنسرٹ کریں گی ۔ انھوں نے صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صوفی شعرا کے پیغام کو پھیلایا۔ عابدہ پروین کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے ہے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔
2012 میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انہیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا،اسی برس انہیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔گزشتہ دنوں کراچی فلم سوسائٹی کی تقریب میں عابدہ پروین نےمقبول کلام ’’جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے‘‘ پیش کیا تو شرکا بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔یہ حقیقت ہے کہ منفرد آواز اور ڈوب کر صوفیانہ کلام گاکر انہوں نے برصغیر میں موسیقی کی اس صنف کو خوب پروان چڑھایا۔
اگرچہ عابدہ پروین کو صُوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام سے خاص شہرت حاصل ہوئی، لیکن انہوں نے دیگر صوفی شاعروں ، امیر خسرو،بلھے شاہ،سچل سرمست،سلطان باہو، کبیر اور وارث شاہ کا کلام بھی گایا ہے۔ اردو،سندھی،سرائیکی،پنجابی اور فارسی زبان میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ان کی خوب صورت آواز میں لوگ آج بھی’’ماہی یار دی گھڑولی،دامن لگا مولیٰ میں تو تیری آں،تیرے عشق نچایا، ارے لوگوں تمھارا کیا،نگاہِ درویشانہ،رموزِ عشق،سوزِ عشق،جیوے سائیاں جیوے‘‘پر جھوم اٹھتے ہیں۔
کئی برسوں سے اپنی منفرد گائیکی کی بدولت سماعتوں پر راج کرنے والی صفِ اول کی گائیکہ، عابدہ پروین کہتی ہیں کہ ’’میں نے 3 برس کی عمر میں گانا شروع کیا، میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں سُر ہی سُر تھے۔ میرے والدصاحب گائیک تھے۔ میں نے زندگی کا بیش تر حصّہ اپنے والد کے ساتھ گزارا۔ ، جو خود بہ خود میرے اندر سماتا گیا۔ موسیقی کے معاملے میں ہم باپ بیٹی میں بہت ہم آہنگی تھی۔ اُس زمانے میں لڑکیوں کوگانے کی اجازت نہیں ملتی تھی، بس یوں سمجھ لیں کہ میرے والد اُس زمانے کے لبرل انسان تھے۔
جب اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی کام کرانا چاہتا ہے تو پھر خودبہ خود راہیں بن جاتی ہیں۔ کسی پابندی کے بارے میں نہ میرے ذہن میں کچھ تھا اور نہ میرے والد کو ایسا خیال آیا۔میں خود کو آج بھی طالبِ علم سمجھتی ہوں، میرے پاس آج بھی دُنیا کے تمام بڑے گائیکوں کی کیسٹس موجود ہیں۔ میری تمام تر دل چسپی موسیقی میں تھی، لہٰذا میں نے اپنی موسیقی کی تعلیم جاری رکھی اور اُستاد سلامت علی خان صاحب کی شاگرد بن گئی۔مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مستقبل کے لیے بہت اچھے گائیک منظرعام پر آرہے ہیں۔
یہ بچّے سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی مشکل دُھنیں تیار کی ہیں جو آسان بات نہیں ہے۔ نئےگلوکار ریاضت سے جُڑ جائیں، صرف گلوکاری تک خود کو محدود نہ رکھیں۔ استادوں سے فیض پائیں۔ فن کو آگے بڑھائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ آنے والے بچّے عارفانہ موسیقی سیکھیں، کیوں کہ عارفانہ کلام کا رنگ الگ ہی ہے، پاکستان میں بہت اچھے استاد ہیں، میری یہ خواہش ہے کہ پاکستانی بچّے اچھے استادوں سے سیکھیں۔‘‘ عابدہ پروین نے اپنی فیملی کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’’میری اور بہنیں بھی ہیں، مگر کسی ایک کو بھی موسیقی کا شوق نہیں ہے۔ اپنے زمانے میں، میں بہت کم فلمیں دیکھتی تھی، مجھے محمد علی کی فلمیں بہت پسند تھیں۔
اُس زمانے میں مجھے خواجہ خورشید انور کا میوزک بہت پسند تھا، کیوں کہ اُن کے کام میں لگن اور محنت نظر آتی تھی اور وہ میوزک اتنا بہترین ہوتا تھا کہ گانے والے کو دوبارہ زندہ کردیتا تھا۔‘‘ شہرت اور شناخت کب ملی؟ اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’’ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم نے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے عرس مبارک کے لیے کلام تیار کیے تھے۔ اُس اجتماع میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ تھے ۔ ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں اُنہوں نے موسیقی کو 30 سُروں کا سلوپ دیا ہے۔ ہر کلام کو اُنہوں نے موسیقی میں ڈھالا ’’تمبورہ‘‘ 5 تاروں پرمشتمل ہوتا ہے، وہ اُنہوں نے خود ایجاد کیا۔
اُس کے تاروں کو جب چھیڑتے ہیں تو اُس میں سے ایسے سُر نکلتے ہیں، جو سماں باندھ دیتے ہیں۔ درحقیقت موسیقی کا اصل مقصد اپنے دِل کے پیغام کو دِل سے نکال کر دوسروں کے دل میں پیوست کرنا ہے،جب میں نے اُس اجتماع میں کلام سنایا تو اللہ نے لاکھوں لوگوں کے سامنے بہت عزت دی، مجھے لطیف ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ کراچی ٹیلی ویژن پر سلطانہ صدیقی ایک پروگرام ’’آواز و انداز‘‘کرتی تھیں، اُنہوں نے اپنے پروگرام میں، میری پوری سہ ماہی چلائی، وہ زمانہ غزلیات کا تھا، جسے خاص لوگ سُنتے تھے۔
اُس وقت صُوفی موسیقی کو علاقائی موسیقی کہا جاتا تھا، جب ہم نے علاقائی موسیقی کے لیے پروگرام شروع کیے تو وہ چاروں طرف چھا گئی، جس میں ’’گھڑولی‘‘بھی شامل ہے، جو کافی مقبول ہوا تھا، پوری دُنیا میں جہاں بھی درگاہی کلام سُنا جاتا ہے،
وہاں ’’گھڑولی‘‘ کی فرمائش کی جاتی ہے۔ ملکہ ترنّم نورجہاں بہت اچھا گاتی تھیں، میں نے آج تک اُن کے گائے ہوئے گانوں کو دہرانے کی بھی کوشش نہیں کی، کیوں کہ میں جانتی ہوں ،میں اُن جیسا کبھی نہیں گاسکتی۔ وہ بہت محنت اور لگن سے گاتی تھیں اور اپنے وجود کو موسیقی میں شامل کرلیتی تھیں۔ میں جب گھر میں ریاض کرتی ہوں تو لتا جی کے گانے گاتی ہوں اور بہت لطف اندوز ہوتی ہوں۔
درگاہی رنگ ہمیشہ نیا ہوتا ہے،کبھی پرانا نہیں ہوتا، صوفی میوزک پوری دُنیا کا مرکز بنا ہوا ہے۔ میں اولیائے کرام کے کلام کو شاعری نہیں کہتی، بلکہ میں کہتی ہوں کہ وہ اُن کا اندازِ گفتگو ہے، اُن کا احوال ہے جو اُنہوں نے بیان کیا ہے، وہ اُن کے دِل کا احوال ہے جو دِلوں میں پیوست ہو جاتاہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میری سجاوٹ میری سادگی میں ہے، اگر میں اپنی سجاوٹ کروں گی تو ہوسکتا ہے میرے سننے والوں کو اعتراض ہوجائے، اُس وقت میں کیا کروں گی؟ میں نے اب تک جو حسن اپنے کلام میں دیکھا ہے، وہ کبھی خود میں دیکھا ہی نہیں، جتنا خوب صورت میرا مرشد ہے، اُتنی خوب صورتی تو میں نے کسی میں نہیں دیکھی اور نہ ایسا ممکن ہے۔‘‘
اپنے بھارت کے دورے کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے ہندوستان میں یہ بات دیکھی کہ نہ وہ کسی کی دولت دیکھتے ہیں، نہ ہیرے جواہرات۔ اُنہیں جہاں بھی فن نظر آتا ہے، وہ اُس کی عزت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس یہ ہمارا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ میری بہت قدر کرتے ہیں اور اِن لوگوں کی قدر ہی ہم دوسرے ملک لے کر جاتے ہیں۔ مجھے جب کلکتہ بلایا گیا تھا، وہاں میڈیا نے ہم سے انٹرویو میں کہا کہ ’’آپ ساری دُنیا سے مقبول ہوکر پھر یہاں آئی ہیں۔ امیتابھ بچن میرے بہت بڑے فین ہیں اور میں بھی اُن کی بہت بڑی فین ہوں، ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔
بھارت میں قیام کے دوران دلیپ صاحب کے گھر میری اُن سے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے انہیں کلام سنایا تھا، وہاںفلم والوں نے مجھ سے رابطہ کیا تھا، لیکن میرا کام بالکل الگ ہے اور فلمی رنگ بالکل الگ ہے۔ میں ممتاز کمپوزر استاد نذر حسین خان سے زیادہ متاثر رہی ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے اُستاد فیروز خان کے ساتھ کام کیا۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے رسالے پر بھی اُن ہی کے ساتھ کام کیا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان میں آج تک ایسا کام نہیں کیا۔