• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان امریکا کو انکار کرسکتا ہے، چیف جسٹس

حلف دیکر نہ آنا جعلسازی نہیں؟ کیا پاکستان امریکا کو انکار کرسکتا ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جنگ، ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل) سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا امریکانے حسین حقانی کی حوالگی سے انکار کیا ہے؟ جس پر ڈی جی ایف آئی نے انکشاف کیا کہ حسین حقانی کی تحویل کے معاملے پر امریکی حکام تعاون نہیں کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارا بندہ بھی آپکے پاس ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی امریکی ملزم وہاں کی سپریم کورٹ میں بیان حلفی دیکر یہاں آجائے اور واپس نہ جائے تو کیا یہ انکے ساتھ جعلسازی نہیں ہوگی؟کیا یہ اس ملک و قوم کے ساتھ دھوکہ بازی نہیں ہوگی ؟ اورکیا امریکا کے مانگنے پر پاکستان انکار کرسکتا ہے؟ شوگر ملزکی جانب سے کسانوں کو گنے کی قیمتوں کی عدم ادائیگی کے مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ شوگر ملز کسانوں کو ادائیگی کر کے بیان حلفی جمع کرایں، ادائیگی نہ ہوئی تو مل کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ غیر متعلقہ افراد کو سیکورٹی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ جن کو خطرات لاحق ہیں ان کو سیکورٹی ضرور فراہم کریں۔ عدالت عظمیٰ نے نااہل ارکین کو پانچ پانچ لاکھ روپے جمع کرانے، پی ڈبلیو ڈی ملازمین کو3دن میں تنخواہوں کی ادائیگی اور حکومت ایک ہفتے کے اندرواٹرپالیسی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے شکر پڑیاں کرکٹ اسٹیڈیم تعمیر کیس میں حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ، چیئرمین سی ڈی اے اور سیکرٹری کیڈ کو اس حکم پر عدم عملدرآمد کے حوالے سے وضاحت دینے کیلئے طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت ہوئی۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، بشیرمیمن پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی کہ ملزم حسین حقانی کی وطن واپسی کیلئے ریڈوارنٹس کے اجراء کیلئے انٹر پول نے تعاون کرنے کی بجائے تکنیکی بنیادوں پر معاملات کو لٹکانا شروع کردیا ہے جبکہ ملزم حسین حقانی کو پاکستان کے حوالے کرنے پر امریکی حکام تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں اور انھوں نے اس معاملے میں پاکستان سے مزید دستاویزی ثبوت مانگے ہیں۔میں نے امریکی حکام سے با ت کی ہے۔انہوں نے کہاکہ آپ کے پاس بھی ہماراایک بندہ ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے سوال کیا کہ امریکی حکومت نے حسین حقانی کو پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے؟ کوئی امریکی سپریم کورٹ کو بیان حلفی دے کر پیش نہ ہو تو امریکا کے مانگنے پر پاکستان انکار کرسکتا ہے۔ امریکا سے کون پوچھے گا کہ حسین حقانی پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں واپسی سے متعلق بیان حلفی دیکر گیا تھا ،اگر کوئی امریکی ملزم وہاں کی سپریم کورٹ میں بیان حلفی دیکر یہاں آجائے اور واپس نہ جائے تو کیا یہ انکے ساتھ جعلسازی نہیں ہوگی؟کیا یہ اس ملک و قوم کے ساتھ دھوکہ بازی نہیں ہوگی ؟ اورکیا امریکا کے مانگنے پر پاکستان انکار کرسکتا ہے؟ڈی جی نے مزید بتایا کہ میں نے وہاں پر ملزم حسین حقانی سے متعلق ساری صورتحال واضح کی ہے کہ اسے 6 اپریل کو پاکستان کی عدالت نے مفرور قرار دیا ہے، تاہم انٹرپول حکام نے ریڈ وارنٹس کے اجراء کیلئے میمو گیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید معلومات مانگی ہیں، جس پر ہم نے انہیں بتایا ہے کہ ملزم کے خلاف یہ کوئی سیاسی نوعیت کا مقدمہ نہیں بلکہ فوجداری نوعیت کا ہے ، امریکی حکام کو بھی ریڈ وارنٹس سے متعلق آگاہ کیا ہے۔ انہوںنے بتایا کہ ہم نے انہیںحسین حقانی کے خلاف ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن کیس کا حوالہ دیا تھا، جواب میں امریکا کے حکام نے میمو گیٹ کمیشن کا ذکر کیا ہے اور انہوںنے بھی اپنا ایک ملزم حوالے کرنے کی بات کی ہے۔ انہوںنے کہا کہ میں نے انہیں بتایا ہے کہ ملزم ہمارا شہری ہے، جو سپریم کورٹ میں بیان حلفی دیکر آیا ہے کہ یہ چار روز کے اندر واپس آجائے گا، میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کے خلاف قومی خزانے سے 4.1ملین روپے کی بدعنوانی کا مقدمہ درج ہے ،یہ پاکستان جاکر حساب پیش کرے، میں نے یہ بھی کہا کہ ہم ایک غریب ملک ہیں، میری تو اپنی تنخواہ ایک ہزار ڈالر کے برابر ہے ،ہمارے لئے 4.1ملین روپےبہت بڑی رقم ہے۔ انہوںنے کہا کہ وہاں جاکر مجھے اندازہ ہو ا ہے کہ اس کیس کے پیچھے بہت سے عالمی معالات بھی موجود ہیں ، ہمیں وہاں پر کسی بھی قسم کی سپورٹ حاصل نہیں ،ہمارے ملک کے اور بھی بہت سے معاملات ہیں ،انہوںنے کہا کہ (ایم کیو ایم کے سربراہ ) الطاف حسین کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوتارہا ہے ، انٹرپول میں 5 بھارتی موجود ہیں مگر ہمارا ایک بھی نمائندہ نہیں،اس سے پہلے وہاں پر پاکستان کا بھی ایک افسر مقرر ہوتا تھا جو اپنے ملکی مفادات کو بھی دیکھتا تھا۔ انہوںنے کہا کہ ہم ملزم کے ریڈ وارنٹ کیلئے انٹرپول اتھارٹی سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ احمر بلال صوفی ایڈووکیٹ کو امائیکس مقرر کرتے ہیں وہ یہاں آکر عدالت کی معاونت کریں کہ ملزم حسین حقانی کو کس طرح وطن واپس لایا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی ۔ عدالت عظمیٰ نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو تمام سرکاری ملازمین کو3 روز کے اندر تنخواہیں ادا کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری خزانہ کو بیان حلفی جمع کرانیکا حکم جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی تو وفاقی سیکرٹری خزانہ عارف خان پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کیا ملک بھر کے تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں مل چکی ہیں؟ انہوں نے بیان کیا 6 لاکھ 56 ہزار ملازمین کو تنخواہیں مل چکی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم اور صدرمملکت کو تنخواہیں دیدیں لیکن مجھے اسوقت اد اکی جائے جب تمام ملازمین کو تنخواہ مل جائے۔

تازہ ترین