تحریر:کان کوفلن
اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے پیر کے روزکیے جانے والے یہ انکشافات کہ ایران ایٹمی ہتھیارتیارکرنے کے لئے خفیہ جوہری پروگرام پرعملدرآمد کرتا رہا ہے،کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات پر راضی کرلیا جائے کہ وہ تہران کے ساتھ متنازع جوہری معاہدے کو منسوخ کردے۔
واشنگٹن کو اس جوہری معاہدے کو جاری رکھنے یا اس سے نکل جانے کے بارے میں بارہ مئی تک فیصلہ کرنا ہے۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے ایران کے ساتھ اس معاہدے پر پہنچنے کے لئے بھاری سیاسی سرمایہ کاری کی گئی تھی جو بعدازاں بالاخر 2015کے موسم گرما میں نافذ العمل ہوگیا تھا۔
مسٹراوباما اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایران اورچھ بڑی طاقتوں،بشمول برطانیہ، کے مابین جس معاہدے پر مذاکرات کیے گئے، مقتدر ایرانی رہنماؤں(آیات اللہ)کو جوہری پروگرام سے متعلق اپنی سرگرمیوں،جس کے بارے میں بہت سے مغربی انٹیلی جنس حکام کو یقین تھا کہ اس کا مقصد ایٹمی ہتھیارتیارکرنا تھا، کو کم کرنے پرآمادہ کرنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ یاذریعہ تھا۔ایران کی اس معاہدے پرآمادگی کے بدلے میں مغرب کو تہران کے خلاف عائد بہت سی مفلوج کردینے والی پابندیوں کو ہٹانے پر رضامند ہونا پڑاتھا۔
اسرائیل،اگرچہ،ایران کے اس اصرارپر کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طورپر پرامن مقاصد کے لئے ہیں ،کے بارے میں گہرے شکوک وشبہات میں مبتلا رہاہے۔اسرائیلی وزرأتہران کی جانب سے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے کام کو جاری رکھنے کے فیصلے پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں جو ایٹمی ہتھیارلے جانے کی صلاحیت کے حامل ہیں اور یہ اسرائیل کو براہ راست ہدف بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
یروشلم میں اس حوالے سے بھی بے چینی بڑھتی رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے انقلابی گارڈزکا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے ،خاص طورپر پڑوسی ملک شام میں جہاں ایران نے اپنے خودکفیل مسلح دستوں کے مراکز کا ایک جال( نیٹ ورک)بچارکھا ہے۔
بن یامین نیتن یاہو نے تل ابیب (اسرائیلی دارالحکومت) میں وزارت دفاع میں تقریر کی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ان مذکورہ بالا اقدامات کو کس قدرسنجیدگی کے ساتھ دیکھاجاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جب گزشتہ اتوارکی شب اسرائیلی فوج نے پڑوسی ملک شام میں ایرانی ٹھکانوں پر ایک اورمیزائل حملہ کیا ۔
نیتن یاہو اس لیے یہ امید کررہے ہوں گے کہ ان کے حالیہ انکشافات ،جس کے بارے میں وہ اصرارکرتے ہیں کہ ’’نئے اور جامع شواہد‘‘ہیں، کہ ایران کئی دہائیوں تک اپنے جوہری عزائم سے متعلق اپنے حقیقی مقاصد کا دائرہ کاردنیا سے چھپاتا رہا ہے،مسٹرٹرمپ کو رواں ماہ ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے سے چھٹکاراحاصل کرنے پر آمادہ کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اپنی تقریر میں اس اسرائیلی رہنما (وزیراعظم) نے کہا کہ یہ یہودی ریاست (اسرائیل)نے ایران کے جوہری ہتھیار تیار کرنے جسے’’پراجیکٹ عماد‘‘(منصوبہ عماد) کہا جاتا ہے،سے متعلق تہران کے اس منصوبے کے بارے میں دسیوں ہزاروں خفیہ دستاویزات حاصل کرلی ہیں۔یہ جوہری منصوبہ اس وقت سے تہران میں ایک خفیہ مقام پر چھپا کررکھا جارہا تھا جب ایران کا دنیا کی چھ بری طاقتوں بشمول برطانیہ،کے ساتھ یہ جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔
ان دستاویزات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اس بات کو ظاہرکرتی ہیں کہ ایران اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر کام جاری رکھنے کی صلاحیت اورمہارت حاصل کرچکا ہے۔
ایران کا اپنے جوہری پروگرام سے متعلق عزائم کے بارے دوٹوک وضاحت پیش کرنے میں ناکامی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایک دہائی یا اس سے زائدعرصہ قبل جب وہ اس جوہری معاہدے پر دستخط کررہا تھا ،ایرانی حکام بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے)،اقوام متحدہ کا حمایت یافتہ ایٹمی سرگرمیوں کی نگرانی کا ذمہ دارادارہ،کے ساتھ تعاون کرنے کے سلسلے میں تواتر کے ساتھ ناکامی سے دوچار رہے تھے۔
ایک موقع پر ایرانی حکام نے اپنی ایٹمی تنصیبات والے ایک اہم مقام،بشمول اس اراضی جس پر یہ قائم کیا گیا تھا، کو مکمل طورپر تباہ کرکے اسے ختم کردیا تھا، تاکہ وہ اقوام متحدہ کے ایٹمی معائنہ کاروں کی جانب سے ان دعوؤں کی تحقیقات سے بچ سکیں جن میں کہا گیا تھا کہ اس مقام پر ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے یورینیم کو افزودہ کرنے کے آثارپائے گئے تھے۔
بن یامین نیتن یاہو یہ امیدکررہے ہوں گے کہ ان کے تازہ انکشافات رواں ماہ کے دوران اس جوہری معاہدے سے جان چھوڑانے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کو آمادہ کرنے میں مددگارثابت ہوں گے۔
اگرچہ اس وقت ایران کا دوہرا کردار مسٹر اوباما کی جانب سے سزادیئے جانے سے بچ گیا تھا ،کیونکہ صدراوباما تہران کے ساتھ کسی بھی قیمت پر لڑائی میں الجھنے سے گریز کے لئے برقرارتھے،لیکن اب اس طرح کی توقع ٹرمپ انتظامیہ سے کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اس کے برعکس، اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے اہم عہدوں پر براجمان جانے پہچانے سخت گیرامریکی سیاستدانوں جیسے مائیک پومپیو،نئے امریکی وزیرخارجہ، اورقومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن ، کی موجودگی میں،ایران کو جلد اس مشکل صورتحال سے دوچارہونا پڑسکتا ہے:یا تو اس جوہری معاہدے کے شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا جائے ،یا پھر اس کے نتائج بھگتنے کے لئے تیارہوجاؤ۔