مرسل رضوری ،ٹنڈو محمد خان
ڈسڑکٹ اسپتال ٹنڈومحمدخان میںحکومت کی جانب سے غریب مریضوں کے لیے خریدی جانے والی لاکھوں روپے کی انسولین چوری کرلی گئی۔ اسپتال انتظامیہ نے سٹی تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔ تفتیش کے دوران محکمہ صحت کا ایک ملازم سمیت کئی افراد اس واردات میں ملوث پائے گئے جنہیں پولیس نے گرفتار کرلیا۔ اسپتال ذرائع کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے باوجود 2ہزار انسولین کی جگہ پولیس نےصرف 10 انسولین کی برآمدگی ظاہر کی ہے جب کہ لاکھوں روپے کی انسولین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔
ضلع ٹنڈومحمدخا ن کے ڈی ایچ کیو اسپتال کی انتظامیہ کے مطابق 2000انسولین کے ایمپلز کا سرکاری ریٹ 5لاکھ روپے ہے، جس کی مارکیٹ میں تقریبا 8لاکھ روپے مالیت بتائی جارہی ہے۔
انسولین کےوائلزجنہیں اسپتال کے مین اسٹور میں رکھا گیا تھا ،ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیس کے ملازم علی نواز کمہار نے اسپتال کے ایک ملازم سکندرخاصخیلی کے ساتھ مل کرچوری کیے جنہیںبعد ازاںعلی نواز کمہار نے اپنے گھر ٹالپور کالونی میں رکھنے کے بعد ان کی فروخت کے لیےشہر کےمیڈیکل اسٹورز کےمالکان سے رابطہ کیا۔ اسپتال انتظامیہ کو جب انسولین کی گم شدگی کی اطلاع ملی تو اس نے پولیس سے رابطہ کیا، جس نے شہر کے میڈیکل اسٹوروں میں چھان بین کی جس کے دوران ایک میڈیکل اسٹور کے مالک نے ان کی خریداری کا اعتراف کیا۔پولیس کے مطابق 8 لاکھ روپے کی 2ہزار انسولین کو 2لاکھ روپے میں فروخت کیاگیا۔ مقامی پولیس نے کئی دیگر افراد کو بھی شامل تفتیش کرلیا۔
جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق دوران تفتیش گرفتار ملزمان کی جانب سے انسولین کی فروخت کے لیے میڈیکل اسٹور کے مالک کے علاوہ ایک بااثر شخص کا نام لیا گیا ، مگر اسے تفتیشی کارروائیوں سے الگ رکھا گیاہے۔ذرائع کے مطابق مذکورہ بااثر شخص نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے اپنا نام اس کیس سے نکلوالیا جس کے بعد تفتیش کا رخ تبدیل ہوگیا۔
ڈسٹرکٹ اسپتال کی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے باعث گرفتارملزمان میں سے تین میں سےصرف دوملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا لیکن پولیس کی تفتیش سست روی کا شکار رہی ۔پولیس نے ملزم علی نواز کمہار کے گھر پر چھاپہ مار کر چوری ہونے والی انسولین کے صرف 10انجکشن برآمد کیے ہیں۔
جنگ کے نمائندے نے جب اپنے طور سے معلومات کیں تو اسے معلوم ہوا کہ ملزم علی نواز نے چوری ہونے والی انسولین کو 2لاکھ 25ہزار روپے کے عوض مذکورہ میڈیکل اسٹور پر فروخت کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب پولیس کی کارروائیوں کے باوجودسرکاری مال کی برآمدگی نہیں ہوسکتی تو اس سے مزید کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟