• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفارتکاروں کے وفد کا روہنگیا کے بحران سے نمٹنے کیلئے میانمار کا دورہ

سفارتکاروں کے وفد کا روہنگیا کے بحران سے نمٹنے کیلئے میانمار کا دورہ

بنکاک : جان ریڈ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 15 ممالک کے نمائندے پیر کو بنگلہ دیش سے میانمار کی جانب اس کی حکموت سے ملاقات کیلئے پرواز کریں گے۔ گزشتہ سال کے فوجی آپریشن جس میں 7 لاکھ روہنگیا مسلمان بے گھر کردئے گئے تھے کے بعد سے یہ اعلیٰ سطح کا سفارتی مشن ہے۔

یہ دورہ آنگ سان سوچی کی سول حکومت کی بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اور دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا مرکز شمالی ریاست خارائن میں سے فرار ہونے والے لوگوں کی ان کے گھروں میں واپسی کی اجازت دینے کے وعدے میں بہتری کی کوششوں کا حصہ ہے۔

میانمار کی کی رہنما کے قریبی مشیر نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ دورہ اقوام متحدہ کو شمالی ریاست خارائن کے بحران کو حل کرنے میں مدد کیلئے لانے کیلئے محتاط عمل کا حصہ تھا۔

مسئلے کی حساسیت کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرنے والے مشیر نے کہا کہ یہ سیولین حکومت کو بحران کے حل میں مدد کیلئے بامعنی شراکت داری کیلئے موقع فراہم کرے گا۔

1982 کے امتناعی قانون کے تحت میانمار نے روہنگیا کو شہریت دینے سے انکار کیا، اور ملک نے زیادہ تر سفیروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو محدود سفر کے علاوہ شمالی راخائن کا دورہ کرنے سے روک دیا۔

مداخلت دونوں جانبین کیلئے دشوار ہے،جیسا کہ امریکا اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اہلکاروں نے گزشتہ سال میانمار کی فوج کی جانب سے کریک ڈاؤن کو نسلی صفائی بیان کیا تھا۔ کچھ انسای حقوق کے کارکنوں نے آپریشن کے دوران ہونے والی انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کی تحقیقات کے لئےمیانمار کیلئے بین الاقوامی کرمنل کورٹ سے رجوع کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا۔

اقوام متحدہ کے مطابق سفارتکار آنگ سان سوچی اور دارالحکومت میں ان کی حکومت کے اراکین سے پیر کو ملاقات کریں گے، اس کے بعد منگل کو راخائن کیلئے پرواز کریں گے، ریاست کے مختلف لسانی گروہوں سے ملاقات، نقل و حمل کے مرکز اور عارضی کیمپوں میں مہاجرین سے ملاقات کیلئے رکیں گے۔

اتوار کو دورے کے پہلے مرحلے پر سفارتکاروں نے مشرقی بنگلہ دیش میں بے ترتیب کیمپ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مبینہ عصمت دری اور تشدد کے شکار افراد سمیت ہنگاموں میں بے گھر ہونے والے روہنگیا سے ملاقات کی۔موسمیاتی مون سون کی بارش شروع ہورہی ہیں جس سے پناہ گزینوں کی صحت اور تحفظ کے متعلق تشویش بڑھ رہی ہے۔

میانمار کی حکومت نے روہنگیا شورش کے خلاف آپریشن کو جائز قانونی کارروائی قرار دیا اس سے دہشت گرد پیدا ہورہے تھے، اور اس نے غیر ملکی سفارتکاروں اور ذرائع ابلاغ پر حقائق کی غلط کی بیانی کا الزام لگایا۔

اقوام متحدہ نے گشتہ ہفتے سابق سوئس سفارتکار کرسٹین شرینر برجنر کو میانمار کیلئے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا،جس سے کچھ روہنگیا کی گھر واپسی کی اجازت ملنے کے منسوبے پر پیش رفت کی امید میں اضافہ ہوا ہے۔میانمار نے گزشتہ سال مس کرسٹٰن کے پیشرو یانگ ہی لی کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔

اقوام متحدہ نے کہا ہےکہ بنگلہ دیش سے پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کیلئے صورتحال ابھی سازگار نہیں ہے۔اور ان کے متدد گھر اور دیہات جلادیے گئے تھے۔

میانمار میں اقوام متحدہ کے سربراہ کنٹ استبے نے کہا کہ ہمارے رہنما اصولوں میں شامل ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی کسی بھی طور رضاکارانہ اور پوری طرح باخبر رضامندی کی بنیاد پر ہو، اور یہ کہ انسان دوست اور ترقی کے عوامل کو وطن واپسی سے پہلے، دوران اور بعد میں متاثرہ علاقوں تک لازمی رسائی حاصل ہو۔ 

تازہ ترین