• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کولمبیا کی صدارت کیلئے سابق انتہا پسند گوریلا کا راستہ ہموار

کولمبیا کی صدارت کیلئے سابق انتہا پسند گوریلا کا راستہ ہموار

بوگوٹا: گائڈن لانگ

ہر صدارتی امید نہیں ہے جو اپنے ملک کی سب سے بڑی برآمدی صنعت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

تاہم بالکل ایسا ہی کولمبیا کے بائیں بازو کے سابق گوریلا گستاو پیٹرو نے ہائیڈروکاربنز پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے کے منصوبے کے ساتھ تجویز پیش کررہے ہیں۔ایک ایسی پالیسی جو نوجوان ووٹرز کے ساتھ گونج رہی ہے، سرمایہ کاروں کو بے چین اور اس کے مخالفین اسے کاسٹرو شاوستا کا مثالی ناقص تصور کہہ رہے ہیں۔

اپنے بگوٹا مہم کے ہیڈکوارٹر میں ایک انٹرویو کیلئے ابھی تک جینزمجیکٹ اور کھلے گریبان والی شرٹ پہنے 58 سالہ عینک پوش،27 مئی سے قبل حالیہ پولنگ دوسری ہے، اشتراکی واہمے اور وینزویلا کے ہمدرد کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہے جو ان کے ناقدین ان کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں۔

’’اگرچہ بگوٹا لکے سابق میئر مسٹر پیٹرو دائیں بازو کے امیدوار ایوان دوک سے پیچھے ہیں، وہ دیگر صدارتی حریفوں سے کافی آگے ہیں۔تقریبا ووٹوں کی چوتھائی تعداد کے ساتھ مسلسل دوسری پولنگ میں وہ 17 جون کے فیصلہ کن مقابلے میں مسٹر دوک کا مقابلہ کرنے کیلئے ووٹنگ کے پہلے مرحلے گزر جانے کا امکان دیکھ رہے ہیں‘‘

جب دائیں بازو کی تنبیہ کہ وہ ملک کومشرقی ہمسایہ کی طرح انتہا پسند ریاست میں تبدیل کردیں گے، کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم کولمبیا میں وینزویلا کا ماڈل لاگو کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

اس کے بالکل برعکس، ہم سمجھتے ہیں کہ وینزویلا ماڈل اپنی تیل کی صنعت پر ضرورت سے زیادہ انحصار کے ساتھ پہلے ہی یہاں پر لاگو کیا جاچکا ہے۔ قدرتی وسائل کی برآمدات پر ہمارے انحصار کے خاتمے کے ساتھ ہم کچھ مکمل طور پر مختلف پیشکش کررہے ہیں

کولمبیا کی تیل کی صنعت کا خاتمہ، جو کان کنی کے ساتھ مل کر حکومت کو برآمدی آمدنی کا نصف سے زائد فراہم کرتی ہے محض خام خیالی ہے۔ بہرحال کولمبیا کا ان کا وژن جو عدم مساوات کے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے اور جہاں مرکزی ذرائع آمدنی تیل اور کوئلہ کی جگہ مینو فیکچرنگ اور زراعت لے لیں،نے توجہ حاصل کی ہے۔

اگرچہ بگوٹا لکے سابق میئر مسٹر پیٹرو دائیں بازو کے امیدوار ایوان دوک سے پیچھے ہیں، وہ دیگر صدارتی حریفوں سے کافی آگے ہیں۔تقریبا ووٹوں کی چوتھائی تعداد کے ساتھ مسلسل دوسری پولنگ میں وہ 17 جون کے فیصلہ کن مقابلے میں مسٹر دوک کا مقابلہ کرنے کیلئے ووٹنگ کے پہلے مرحلے گزر جانے کا امکان دیکھ رہے ہیں۔

مسٹر پیٹرو کے حامی بنیادی طور پر نوجوان شہری رائے دہندہ ہے جو بدعنوان اور سنگین سیاسی اشرافیہ سے بیزار نظر آتے ہیں۔نوجوان حامیوں کی فوج نے ان کا مقصد سوشل میڈیا پر بھردیا ہے۔

صدارتی حریف کے طور پر مسٹر پیٹرو کا ابھرنا ایک ایسے سیاستدان کے لئے قابل ذکر واپسی ہے جسے 1980 کی دہائی میں اپنی سیاسی عسکریت پسندی کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا،2013 میں بگوٹا میئر کے عہدے سے عارضی طور پر برطرف کیا گیا تھا اور 2010 میں صدارت کیلئے جونمایاں طور پر چوتھے درجے تک پہنچ گئے تھے۔

لیکن جب انہوں نے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے،ان کے وژن نے کاروباری برادری کو ہوشیار کردیا ہے جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ وہ اپنے مہنگے منصوبوں کو سرمایہ کیسے فراہم کریں گے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پریشان کردیا ہے۔

بگوٹا میں یونیورسٹی آف اندیس میں اقتصادیات کے پروفیسر آسکر نیوپیا نے کہا کہ اس کے پاس تمام خوبصورت خیالات ہیں، جو کولمبیا کو کسی کسی خوبصورت نورڈک دیہی منظر میں تبدیل کردیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں متوسط آمدنی والے ملک کی چیک بک کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔یہ ممکن نظر نہیں آتا۔

مسٹر پیٹرو کی تجاویز میں مفت تعلیم سب کیلئے، بنیادی زمینی اصلاحات، صحت اور بینکنگ کے نظام میں ریاست کیلئے ایک بڑا کردار اور ای دہائی قبل دائیں بازو کے الوارو ایربی کی صدارت کے تحت ٹیکس کے وقفوں کا خاتمہ شامل ہے۔

شاید سب سے متنازع یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کولمبیا چند سال میں کوئلہ اور تیل کی برآمد ختم کردے، اگرچہ ملک کوئلہ برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔

انہوں نے اس رجحان کو حوالہ دیتے ہوئے جہاں دولت کے معقول ذرائع نسبتا غیر مسابقتی دیگر برآمدی شعبوں کو بنادیتا ہے، کہا کہ ایک ایسی معیشت جو تیل اور کوئلہ پر انحصار کرتی ہے پر ڈچ کے اثر انداز ہونے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کولمبیا کو لاکھوں ہیکٹر کی غیر پیدواری زمین پر محصولات کے آضافے اور چھوٹے زمینداروں کو اس کی دوبارہ تقسیم کے ذریعے اس کی وسیع زعری صلاحیت کو آزاد کردینا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اس سے 20 لاکھ دیہی ملازمتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور دیہی غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

مسٹر پیٹرو نے کہا کہ زمین کی تقسیم کا مسئلہ ہمیں ہسپانوی حکمرانی کی سامراجیت سے وراثت میں ملا ہے اور ہم نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی۔ کولمبیا کا تشدد اسی سامراجیت سے بڑھا۔

بیشتر رائے دہندگان نے مسٹر پیٹرو کے ماضی کو ماننے سے انکار کردیا۔اگرچہ ایم 19 گوریلا تحریک میں عسکریت پسندوں کے 1985 میں بگوٹا میں جسٹس کے محل پر حملہ سے فوجی کشمکش شروع ہوگئی جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے،وہ ان واقعات میں ملوث نہیں تھے کیونکہ غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزام میں انہیں ایک ماہ قبل ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔حراست کے دوران ان پر تشدد کیا گیا اور 16 ماہ کی جیل ہوئی۔

صدر کیلئے ان کی اہلیت کا ایک بہترین اشارہ ان کے میئر کے دور اور 2013 کے کچرا اکٹھا کرنے کے اسکینڈل جس کی وجہ سے انہیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا، سے ملتا ہے۔

مسٹر پیٹرو نے شہر کا کچرا جمع کرنے والی نجی کمپنیوں کے معاہدوں کی تجدید کرنے سے انکار کردیا تھا اور زور دیا کہ ان کی بجائے ریاست یہ کام کرے۔لیکن مقامی حکام نے اس کام پر بحث کی، کچرا سڑکوں پر جمع ہوگیا اور نجی کنٹریکٹرز کو گندگی صاف کرنے کیلئے واپس بلالیا گیا۔ اپنی برطرفی پر مسٹر پیٹرو نے سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی اور بالآؒکر انہیں ان کے عہدے پر دوبارہ فائز کردیا گیا، تاہم ناقدین اس سلسلے کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ ملک چلانے کیلئے نااہل ہیں۔

بلاگر الجینڈرا سیرانو نے اعتدال پسند اخبار ایل ٹیمپو میں حالیہ رائے میں لکھا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو وہ ملک کو اسی طرح بدلتے جیسا انہوں نے اتھارٹی کے بغیر دیواروں پر تحریروں سے ڈھکے ہوا شہر بگوٹا کو تبدیل کیا۔

اگر مسٹر پیٹرو انتخابات کا فیصلہ کن مرحلے میں پہنچتے ہیں تو انہیں اعتدال پسند رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی،انہیں اپنے قطعی حریفوں کو شکست دینا ہوگی۔ رواں ہفتے جاری ہونے والے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ 38 فیصد رائے دہندگان انہیں کبھی ووٹ نہیں دیں گے، کسی دوسرے امیدوار سے کہیں زیادہ مسترد کرنے کی شرح ہے۔

تازہ ترین